ڈیفالٹ تواسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقہ ہے

462

پاکستان وسائل اور انسانی خوبیوں سے مالا مال ملک ہونے کے باوجود مسلسل مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ برسہا برس سے قوم کو ہر حکومت پچھلی حکومت کو مسائل کا سبب قرار دے کر اپنی جان چھڑاتی رہی ہے۔ لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ جو حکمران ماضی میں حکمرانی کرچکے اور بار بار حکومت میں رہیں اب وہ حکومت اور اپوزیشن میں ہیں۔ ملک میں مستقل چوہے بلی کا کھیل جاری ہے۔ یہ کھیل کھیلنے والی اسٹیبلشمنٹ ہے اور اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ نالائق کرپٹ اور نااہل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس کی پیداوار پارٹیاں اور لیڈر بھی اس سے زیادہ نالائق ہیں۔ کبھی ملک تباہ ہوتا نظر آتا ہے، کبھی حکمران چور ہوتے ہیں، کبھی اپوزیشن ملک دشمن اور غدار ہوتی ہے۔ یہ کہانی چلتے ہوئے ساٹھ ستر برس گزر گئے، ملک پھر بھی باقی رہا، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ملک کو تباہ ہوتا دیکھنے کے خواہشمندوں کا ٹولہ باقی بچ گیا اور ساری خرابی یہی ٹولہ کررہا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس ملک کو لے جانے والے پی پی پی اور مسلم لیگ ہیں۔ عمران خان اس کو مزید تباہی کے ساتھ آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈال گئے۔ اب تینوں ایک دوسرے کو تباہی کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ بار بار ملک ڈیفالٹ ہونے کی بزعم خود خوش خبری دی جارہی ہے۔ لیکن یہ حقیقت یہ حکمران بھی جانتے ہیں کہ کسی ملک کو ڈیفالٹ کرنا عالمی اداروں کی ضرورت نہیں۔ ان اداروں کو چلانے والوں کو معلوم ہے کہ کسی ملک پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹکا کر اس کے اثاثے قبضے میں کرنے کا وقت کب آتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کے فی الحال ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں ہے۔ جتنے بھی لوگ ڈیفالٹ ڈیفالٹ کا شور مچا رہے ہیں وہ سیاسی بنیادوں پر یہ دعوے کررہے ہیں اور جو ڈیفالٹ نہ ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں وہ بھی سیاسی بیان دے رہے ہیں۔ قرضہ دینے والے ادارے اور ملکوں کی نظر مقروض کے قیمتی وسائل اور اثاثوں پر ہوتی ہیں ان پر قرضوں کا اتنا شدید بوجھ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ڈیفالٹ کی تلوار سر پر محسوس کرنے لگتے ہیں پھر ان سے قیمتی اثاثے اونے پونے خرید لیے جاتے ہیں۔ پاکستان کا معاملہ بہت مختلف ہے، ابھی اپوزیشن کی جانب سے 4 ارب ڈالر زرمبادلہ باقی رہنے کے دعوے ہورہے ہیں اور حکومت بتارہی ہے کہ 10 ارب ڈالر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ملک سے ڈالر باہر جارہے ہیں جب کہ ماہرین یہ بتارہے ہیں کہ حکومت پر اعتماد نہ ہونے کے سبب لوگ ڈالر بینکوں کے حوالے نہیں کررہے، اپنے پاس رکھتے ہوئے ہیں۔اعلیٰ بینکاری حلقوں کے مطابق اس وقت پاکستان کے ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زیادہ لوگوں کے پاس محفوظ ہیں۔ ان میں سے بمشکل 10 فی صد ملک سے باہر گئے ہیں اس کا سبب بھی غیر متوازن ڈیوٹی اور ٹیکسز ہیں جن کی وجہ سے اسمگلنگ ہورہی ہے اور حکمران اور امیر طبقے کے غیر ضروری غیر ملکی دورے ہیں جن پر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے ملک میں جو شور مچا ہوا ہے اس کے نتیجے میں بیرون ملک سے ترسیلات زر میں کمی ہورہی ہے۔ لوگ اپنا پیسہ پاکستان بھیجتے ہوئے ڈر رہے ہیں بلکہ وہ بھی ہنڈی حوالے وغیرہ کی طرف جارہے ہیں، کیوں کہ ان کو اپنے ڈالر محفوظ نہیں لگتے۔ اور بندی کی وجہ سے انہیں ریٹ بھی زیادہ ملتا ہے اس ساری صورت حال کے ذمے دار دو ہی فریق ہیں باقی سب صرف فائدہ اٹھانے والے موقع پرست ہوتے ہیں۔ ایک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہے جو اپنی مرضی کی حکومتیں بنوانے اور پالیسیاں بنوانے میں مصروف رہتی ہے۔ دوسرا فریق وہ حکمران طبقہ ہے جو باری باری اقتدار کے مزے لیتا ہے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے ذریعے سیاست کرتا ہے۔ اس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی جماعتیں شامل ہیں، کبھی کبھی اسٹیبلشمنٹ خود حکومت میں کود پڑتی ہے لیکن اس سے معاملات نہیں سنبھلتے تو کنونشن لیگ، ق لیگ، ن لیگ اور مختلف جتھے تیار کرتی ہے اور جلد بلا ان کے سر ڈال کر خود صاف شفاف چلے جاتے ہیں۔ اصل میں ملک ڈیفالٹ نہیں ہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقہ ڈیفالٹ کر گیا ہے۔ ان کے پاس ملک چلانے کی اہلیت ہے نہ کوئی عزم۔ بلکہ یہ باری باری حکمرانی کے چکر میں ملک تباہ کررہے ہیں۔ ایک مرتبہ اس ٹولے سے جان چھوٹ جائے تو ملک خود بخود دلدل سے نکل آئے گا۔ ایک مرتبہ آئی ایم ایف اور عالمی ساہوکاروں سے بھی مقابلہ ہوگا لیکن یہ بظاہر طاقتور ادارے حقیقتاً کمزور ہوتے ہیں مضبوط اور جرأتمند قیادت حکمت کے ساتھ ان کو زیر کرسکتی ہے۔ مصر میں محمد مرسی نے صرف دس ماہ میں آئی ایم ایف سے جان چھڑا کر اسے قرضے دینا شروع کردیے تھے۔ اسی لیے عالمی سازش ہوئی اور مرسی کے خلاف مغرب کی غلام فوج نے کارروائی کرکے ہزاروں لوگوں کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہی کوشش ترکی میں بھی کی گئی لیکن فوج کو جوتے پڑ گئے۔ ترکی بھی آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھڑا کر اس کو فنڈ دینے والا ملک بن گیا ہے۔ پاکستانی حکمران نواز شریف کبھی خود کو نجم الدین اربکان سے ملاتے ہیں اور کبھی عمران خان یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ میری گرفتاری پر ترکی کی طرح نکلیں۔حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کا طوفان اور آندھی عمران خان کے جھکڑ سے زیادہ طاقتور تھی لیکن بھٹو حکومت برطرف ہونے پر کوئی سڑک پر نہیں آیا یہ سب ڈیفالٹ قیادتیں ہیں، ان کے لیے کوئی نہیں نکلے گا۔