زراعت، پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی

1974

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت میں زراعت کا اہم کردار ہے، لیکن زراعت زوال کا شکار ہے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے 2023ء کے مطابق پاکستان میں زراعت کا شعبہ 22 فی صد سے زائد جی ڈی پی اور 37 فی صد ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کا 45 فی صد حصہ بھی زرعی تجارت سے آتا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اس اہم شعبے کو بری طرح نظرانداز کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں یہ کئی مسائل کا شکار ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں کہا ہے کہ زرعی شعبے کی شرحِ نمو، مہنگائی میں کمی، روپے کی قدر میں استحکام، ترسیلاتِ زر میں اضافے اور اسٹاک مارکیٹ کی تیزی معاشی استحکام کی علامت ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نجی شعبہ زراعت کو یکسر تبدیل کرنے میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایکسپو سینٹر میں پاکستان ایگریکلچر کولیشن کانفرنس 2024 کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت زراعت میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لٹیشن کونسل زراعت میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے، اور ہمیں فارم مشینری اور ویئرہائوسنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ڈینش سفیر سے ملاقات میں دوطرفہ معاشی تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحی اقدامات سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ اور انہیں سرمایہ کاری پر راغب کیا جائے گا۔ سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب زرعی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کی 48 فی صد آبادی کا روزگار بھی زراعت سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبہ بڑی صنعتوں کو خام مال فراہم کرتا ہے، جیسے ٹیکسٹائل، چمڑے، چاول کی پروسیسنگ، خوردنی تیل اور فوڈ پروسیسنگ۔ پاکستان کی کْل ملکی برآمدات میں زراعت کا حصہ جو تین چوتھائی ہے، اس میں سے 60 فی صد صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبے کو کئی مسائل کا سامنا ہے جن میں آب پاشی کی ناقص سہولتیں اور بھارت کی طرف سے آبی دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اسی طرح موسمیاتی تبدیلی، ناکافی سرمایہ کاری، اور قدیم ٹیکنالوجی کا استعمال بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔ کسان جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے محروم ہیں۔ کسانوں کی ناخواندگی جدید ٹیکنالوجی اپنانے میں رکاوٹ ہے۔ بڑی جاگیریں بے آباد ہیں، جبکہ چھوٹے کسان جدید طریقوں سے کاشت کاری کرنے سے قاصر ہیں۔ زرعی ادویہ مہنگی اور اکثر جعلی ہوتی ہیں، جس سے پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ غریب کسان سود پر قرض لینے پر مجبور ہیں۔ کسانوں کو اپنی اجناس کی منصفانہ قیمت نہیں ملتی۔ حکومت کے پاس ضروری اشیاء ذخیرہ کرنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔ حکومت زراعت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، اور نجی شعبہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ دوطرفہ معاشی تعلقات کے فروغ سے بھی زرعی شعبے کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ حکومت زراعت کے لیے بظاہر تو کوشش کررہی ہے اور اس میں فوج کا کردار بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اور ’’گرین پاکستان‘‘ منصوبے میں اس کا اہم کردار ہے، حکومت ِ پاکستان نے غیر ملکی، بالخصوص خلیجی ممالک کے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے ماضی میں اہم سیاسی اور انتظامی فیصلے کیے ہیں جس میں ملک کی فوج کو اہم کردار سونپا گیا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کا مقصد 70 لاکھ ہیکٹر سے زائد غیر کاشت شدہ اراضی کو استعمال کرتے ہوئے جدید زرعی فارمنگ کو فروغ دینا ہے۔ قومی زرعی پالیسی 2018 کے مطابق ملک میں 13 ملین ایکڑ سے زائد ایسی زمین ہے جسے قابل ِ کاشت بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا رقبہ ہے جس میں پاکستان کی زرعی پیداوار کو نمایاں طور پر بڑھانے کی صلاحیت ہے۔ بی بی سی کے مطابق یونیورسٹی آف سرگودھا کے ایک تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 9.14 ملین ہیکٹر بنجر زمین قابل ِ کاشت بنائی جا سکتی ہے۔ اس میں سے بلوچستان میں 4.87 ملین ہیکٹر، پنجاب میں 1.74ملین ہیکٹر، سندھ میں 1.45ملین ہیکٹر اور خیبر پختون خوا میں 1.08ملین ہیکٹر ایسی زمین ہے‘‘۔ اس قابل ِ کاشت زمین کو استعمال کرنے سے پاکستان کو کئی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ زرعی شعبے میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ قابل ِ کاشت زمین پاکستان کو غذائی تحفظ اور خودانحصاری حاصل کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبے میں بڑے پیمانے پر ترقی کی صلاحیت ہے۔ اگر حکومت زرعی شعبے کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات جاری رکھتی ہے اور اس کی نیت صاف ہے کہ اس کا فائدہ عوام اور کسانوں کو پہنچے گا، اور یہ سول و عسکری اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے تو پاکستان کے زرعی شعبے میں پاکستان کو ایک خوشحال اور خودکفیل ملک بنانے کے امکانات موجود ہیں۔