فلسطین پر قابض ریاست اسرائیل خطے اور عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کو ہروقت تلا رہتا ہے ایک ایسے وقت میں جب فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے ثالث قطر اور مصر کی غزہ میں جنگ بندی کی تجویز قبول کرلی ہے لیکن اسرائیلی ہٹ دھرمی برقرار ہے اور اس نے قطری اور مصری تجاویز کو ماننے سے انکار کردیا ہے ، اس کا کہنا ہے کہ یہ وہ فریم ورک نہیں جس کی ہم نے منظوری دی تھی ، اس صورت میں اسے قبول کرنے سے اسرائیل پر جو دوررس اثرات مرتب ہونگے وہ اسرائیل کو قبول نہیں۔ حماس کے اعلان کے بعد غزہ اور رفح میں فلسطینی شہری جشن منانے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے۔حماس کے بیان کے مطابق جنگ بندی کے حوالے سے گیند اب اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے بتایا کہ مجوزہ جنگ بندی 3 مراحل پر مشتمل ہوگی، پہلے مرحلے میں بے گھر فلسطینی اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے اور غزہ میں امدادی سامان اور ایندھن کی ترسیل شروع ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون اسرائیلی قیدی کے بدلے اسرائیل کی جانب سے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، دوسرے مرحلے میں حماس کی جانب سے مرد اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا تاہم ان کے بدلے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد طے نہیں ہوئی۔خلیل الحیہ کے مطابق تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز ہوگا۔ حماس کی جانب سے جنگ بندی کے حوالے سے دی جانے والی تجاویز سے اتفاق ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی ڈھٹائی اور جارحیت جاری ہے، اسرائیل نے جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں زمینی حملے کی تیاریاں شروع کردی ہیں اور رفح میں پناہ لیے ہوئے لاکھوں لوگوں کو مشرقی رفح خالی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یاد رہے کہ عالمی برداری پہلے ہی اسرائیل کو رفح میں زمینی آپریشن کی صورت میں تباہ کن نتائج سے خبردار کرچکی ہے۔ لیکن یہ تباہ کن نتائج فلسطینیون ہی کے لئیے تباہ کن ہوسکتے ہین عالمی برادری اسرائیل کا کچھ نہین بگاڑ سکے گی،اس چدوران اسرائیلی فوج نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں رفح پر حملے کرکے مزید 22 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے 5 سے زائد رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ رویہ قیام امن میں رکاوٹ ہی بنے گا اس کا تو واضح مطلب ہے کہ اسرائیل امن نہیں چاہتا۔ مزید یہ کہ اسرائیلی پولیس نے قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ پر پابندی کے بعد مقبوضہ بیت المقدس کے ہوٹل میں قائم ادارے کے دفتر پر چھاپا مارکر سامان ضبط کرلیاجبکہ الجزیرہ کی ویب سائٹ کو بھی بلاک کردیا گیا ہے،کیونکہ اسرائیل اپنے مظالم کی کوئی خبر دنیا کے سامنے آنے نہیں دینا چاہتا، ظاہر ہے حماس بھی مزاحمت جاری ہی رکھے گی چنانچہ اس کے حملے بھی جاری ہیں ، یہ صورتحال امریکی انتظامیہ کا بھی امتحان ہے یا یوں کہ لیا جائے کہ زبان سے امن کی بات کرنے والے جو بائیڈن کے عمل کا انتظار ہے ، امریکی عوام کا دباؤ تو بائیڈن انتظامیہ پر ہے لیکن امریکی خلوص کہیں نظر نہیں آتا، وہ اسرائیل کی فوجی ، مالی اور سیاسی حمایت تو جاری رکھے ہوئے ہے ،اسے روکنے والا کام تو نہیں کیا گیا دنیا اس منافقت کے ساتھ امن کو خواب ہی سمجھنے پر مجبور ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فریم ورک تو بہانہ ہے اور دوررس اثرات تو دور کی بات ہے اس کا ثالثی قبول کرنا اور مذاکرات کی تجاویز پر غور کرنا ہی اس کی شکست کا فوری اور کھلا اعلان ہے۔ اس کے سارے دعوے خاک میں مل چکے ہیں ، اسی لیے وہ امن معاہدے میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔