بجلی کے نرخوں میں اضافہ

366

پاکستان کو درپیش قومی مسائل میں معاشی بدحالی نے ہر مسئلے کو گھیرا ہوا ہے۔ سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کو ایک دوسرے سے منسلک قرار دیا جارہا ہے، لیکن ملک میں سیاسی بحران کے خاتمے کے کوئی آثار ہیں نہ ہی معاشی استحکام کی کوئی امید۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اس نے غریب اور متوسط طبقے کے لیے زندگی کے دن گزارنا مشکل بنادیا ہے۔ معاشی بحران کی اصل جڑ قرضوں کی معیشت ہے جس نے قوم سے اس کی آزادی چھین لی ہے۔ وزارت خزانہ میں آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کی تیاری ہورہی ہے لیکن وزارت خزانہ کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ وزارت خزانہ اور حکومت وفاقی بجٹ کی تیاری کے لیے آئی ایم ایف کی محتاج ہے۔ اس لیے بجٹ دستاویزات اور حکمت عملی کی تجاویز کابینہ کی جگہ آئی ایم ایف منظوری کے لیے جائیں گی۔ معیشت کے کئی شعبے اس کے دائرہ کار سے نکلے ہوئے ہیں، وزارت خزانہ کا صرف یہ کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف بی آر کے لیے اہداف متعین کرے اور عوام سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرے۔ قوم کو دیوالیہ ہوجانے سے ڈرا کر آئی ایم ایف سے قرض کے معاہدے کو اپنی کامیابی بیان کیا جارہا ہے۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کے شعبے کی پہلے اصلاح کی جائے یعنی بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ روکا جائے اور آہستہ آہستہ اس کی قیمتوں میں کمی لائی جائے، لیکن توانائی کے شعبوں میں قیمت میں مستقل اضافہ ہوتا جارہا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اس کی لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے، جبکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ توانائی کے شعبے میں قیمتوں پر قابو پائے بغیر معاشی بحالی کی منزل سر نہیں کی جاسکتی، اس سلسلے میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی داستان حکمرانوں کی عوام کے خلاف سازشوں کو طشت ازبام کردیتی ہے۔ حکمرانوں نے قوم کی مزاحمت کی اہلیت بھی ختم کردی ہے، ایک زمانہ تھا کہ مرد آہن کہلانے والے جابر حکمراں بھی عوام کے ردعمل سے گھبراتے تھے لیکن حکمرانوں نے معاشی تباہی کو جس مقام تک پہنچادیا ہے اور مہنگائی اور بے روزگاری کی جو کیفیت ہے اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی معانی کھو بیٹھے ہیں۔ حکومت سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ مشکل حالات میں آسانی فراہم کرنے کے لیے کام کریں لیکن روزانہ کی بنیاد پر ایسے قدم اٹھائے جارہے ہیں جن سے عوام پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان پر وہ جماعتیں حکمراں ہیں جن کی حکومت 1988ء سے قائم رہی ہیں، خاندانی سیاسی جماعتوں کی حکومت کے دور میں بھی مارشل لا کی حکومتوں کے اثرات واضح طور پر نظر آتے رہے ہیں۔ جسے سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ نے ہائبرڈ نظام حکومت قرار دیا تھا۔ اس تباہی کا آغاز بجلی کے شعبے کی نجکاری ہے، بجلی جب سے نجی بجلی گھر قائم ہوئے ہیں لوڈشیڈنگ اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ نجی شعبے میں بجلی گھر قائم ہونے کے بعد قومی معیشت میں ایک نئی اصلاح متعارف ہوئی جسے گردشی قرضہ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت پاکستان نجی بجلی گھروں کی مقروض ہوگئی ہے۔ نجی بجلی گھروں کو بجلی پیدا کرنے کے لیے گیس یا فرنس آئل کی خریداری کرنا ہوتی ہے، اس لیے نجی بجلی گھر پٹرول اور گیس فراہم کرنے والے اداروں کے مقروض ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے کو ہمارے حکمرانوں نے ایک گھن چکر بنادیا ہے اور اس عذاب کو عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اسے کہتے ہیں توانائی کا گردشی قرضہ جب گردشی قرضہ بڑھتا ہے تو آئی ایم ایف کی طرف سے دبائو آتا ہے اور اس بوجھ کو صارفین پر منتقل کیا جاتا ہے اور حکومت بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں، تیل کے نرخوں میں، گیس کی قیمت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن گردشی قرضہ ہے کہ کم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ بجلی کے نرخ متعین کرنے کے لیے حکومت نے ایک ادارہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی ہوئی ہے، جو تمام اداروں سے موقف سن کر فیصلہ کرتی ہے۔ نیپرا نے آج تک عوام کی بات نہیں سنی جو صارف ہونے کی حیثیت سے اس شعبے کے مرکزی کردار ہیں۔ سو شریف حکومت نے نیپرا کے ذریعے بجلی کی قیمت میں 2 روپے 83پیسے فی یونٹ اضافہ کردیا ہے۔ کہا یہ گیا ہے کہ توانائی کا گردشی قرضہ 2310 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس لیے نجی بجلی گھروں نے حکومت پر رقم کی ادائیگی کے لیے دبائو بڑھادیا، اس لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ ناگزیر قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کا اعلان کے الیکٹرک یعنی کراچی کے صارفین پر نہیں ہوگا۔ اس سے کراچی والوں کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ نیپرا نے سماعت کی تاریخ مقرر کی ہوئی ہے جس میں کے الیکٹرک نے 18 روپے 86 پیسے فی یونٹ اضافے کی سمری پیش کردی ہے۔ نیپرا کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے کبھی بھی بجلی کے صارفین کا موقف نہیں سنا بلکہ حکومت، نیپرا اور بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے اداروں کا گٹھ جوڑ ہے۔ اس کی مزاحمت وقت کی سب سے بڑی ضرورت لیکن یہ کام موجودہ روایتی سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے بس کا نہیں ہے۔ اس کے لیے تدبر، بصیرت، اخلاقی قوت اور انسانوں سے ہمدردی رکھنے کی لازمی صفات درکار ہیں۔ اس وقت تو ایسا لگتا ہے کہ حکمراں طبقہ سب سے بڑا مجرم ہے۔ جو حکمراں آئی ایم ایف سے قرض کی منظوری پر جشن مناتے ہوں وہ کیسے اس قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں بجلی، گیس اور پٹرول کے بڑھتے نرخوں نے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی پریشان کردیا ہے جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ صنعت کاروں کو اپنی صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے اس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ معاشی ترقی کا کوئی ماڈل ایسا نہیں ہے جو عوام کو خوشحال کے بغیر کامیاب ہوسکتا ہے۔