مذاکرات کی سمت درست ہونی چاہیے

428

بظاہر سیاسی دھند میں کچھ کمی ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے سیاسی مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن اس میں ابھی بہت ہی دھند چھائی ہوئی ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما بیک وقت الگ الگ باتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک اشارہ دیا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ سب سے مذاکرات کیے جائیں اور ایک بیانیہ یہ ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار ہیں اور فارم ۷۴ کے ذریعے اقتدار میں لائی گئی ہیں۔ لہٰذا مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہوں گے۔ لیکن پاکستان کے پیچیدہ حالات میں مذاکرات کی طرف آنا بھی ایک بڑی پیش رفت ہے۔ حکومتی اتحاد نے پی ٹی آئی کے موقف کو فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کے مترادف قرار دیا ہے، حالانکہ سارا مسئلہ فوج کے سیاست میں دخل دینے ہی سے ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی اجازت دینے کی تصدیق کردی ہے۔ تاہم انہوں نے شرط عائد کی ہے کہ مذاکرات آئین اور قانون کے مطابق کیے جائیں گے۔ یہ بہت اہم شرط ہے اس شرط پر مذاکرات اگر حکومت میں شامل جماعتوں اور دیگر قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہوجائیں تو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے دائرے تک محدود کرنا آسان ہوجائے گا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اور جس طرح پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کہہ رہے ہیں کہ صرف آئی ایس آئی اور آرمی چیف سے مذاکرات ہوں گے تو پھر واقعی سیاست میں فوج کے رول کو باقاعدہ مقام دیے جانے کے راستے مزید کھلیں گے۔ شبلی فراز نے یہ تجویز بھی اچھی دی ہے کہ مذاکرات کے اصول اور حدود پہلے طے کیے جائیں۔ انہوں نے اسٹیک ہولڈرز کا لفظ استعمال کیا ہے کہ مذاکرات اسٹیک ہولڈرز سے ہونے چاہئیں۔ ان کا واضح اشارہ ہے کہ پی ٹی آئی کس سے مذاکرات چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف بھی ایک حقیقت ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی ایک حقیقت ہے۔ یہاں آکر معاملہ اسی جگہ کھڑا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سارا تنازع ہے۔ سیاسی قیادتوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے اپنے درمیان مذاکرات کے اصول وضع کرنے چاہئیں۔ اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ضرور ہے لیکن اس کی حقیقت اسی طرح ہے جس طرح ملک کا نظام چلانے والے اداروں کے کل پرزے اور عہدیدار ہوتے ہیں، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ سرکار کے کسی ادارے میں غیر قانونی کام ہونے لگیں اور ادارے کے افسران غیر قانونی کام کریں تو ان ہی سے مذاکرات کرکے اپنے کام کا کچھ حصہ کروایا جائے اور باقی اختیار افسران کو دے دیا جائے۔ ہر ذی عقل اور فہم رکھنے والا شخص یہی چاہے گا کہ جو افسران ہیں وہ اپنے دائرے میں رہیں لیکن ان کو دائرے میں رکھنے کے لیے ان ہی سے مذاکرات کے بجائے آئین و قانون کے مطابق ان لوگوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں جو انہیں آئین و قانون کا پابند بناسکیں۔ بظاہر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا تحریک انصاف سے شدید اختلاف ہے جو اس حکومت کو فارم ۷۴ والی حکومت قرار دیتی ہے لیکن فارم ۷۴ والی حکومت بنانے والی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر راضی ہیں۔ اگر تحریک انصاف مذاکرات کا راستہ اختیار ہی کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے موقف کی مضبوطی کے لیے فارم ۷۴ کا شکار ہونے والی دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت اور حکومتی اتحاد سے مذاکرات کرنے چاہئیں اور اسٹیبلشمنٹ کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اسے اس کے مقام پر ہی رکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے ہی تمام مسائل کا حل قرار دینے یا تسلیم کرنا کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ ہی کا رویہ ہے۔ وہی یہ نہیں چاہے گی کہ پی ٹی آئی اور حکمران جماعتیں کسی آئینی معاملے پر ایک جگہ بیٹھیں اور اس کے کردار یا مداخلت کو کم کرنے کی باتیں کریں۔ اسے تو یہی بہتر لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے لڑتے رہیں اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کرتی رہے۔ مذاکرات کی خواہش یا ارادے اچھی چیز ہیں لیکن ان کا رْخ درست سمت میں ہونا چاہیے تا کہ نتائج بھی بہتر نکلیں۔ اگر حکومت یا پی ٹی آئی مذاکرات کے معاملے میں سنجیدہ ہیں تو جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں دونوں نے زبانوں کو کنٹرول کیا ہوا ہے اسے اسی طرح ایک دوسرے کے بارے میں بھی زبانوں کو قابو میں رکھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گروہ دوسرے کو چور، اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو وغیرہ وغیرہ قرار دے اور اس سے مخلصانہ مذاکرات ہوجائیں اور دوسرے گروہ کے لوگ اول الذکر کو اور اس کے رہنما کو فتنہ اور دیگر ناموں سے پکاریں اور چاہیں کہ وہ ان سے مذاکرات کریں۔ اس کے لیے حکمران جماعت کو پیش رفت کرنی ہوگی اور اپنے تمام ترجمانوں کو یہ واضح ہدایت دینی ہوگی کہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے اجتناب کیا جائے۔ اور ان سب باتوں سے اہم بات یہ ہے کہ فارم ۷۴ والے اور مذاکرات چاہنے والے دونوں یہ اصول تسلیم کریں کہ مذاکرات اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاست سے ختم کرنے پر ہوں گے۔ اس اتفاق رائے سے سب کا خلوص واضح ہوجائے گا اور اسٹیبلشمنٹ کی بد نیتی بھی۔ اگر یہ سیاسی گروہ اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار نہیں ہونا چاہیے تو اسٹیبلشمنٹ یہ مذاکرات ہی نہیں ہونے دے گی اور نیا طوفان اٹھائے گی۔ لیکن راستہ تو یہی نکلتا ہے جس کڑوی گولی کا ذکر حکمران بجٹ کے مواقع پر اور ٹیکس مسلط کرنے کے مواقع پر کرتے ہیں یہ اس سے بھی کڑوی گولی ہے لیکن یہ عوام کو نہیں کھانی یہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو کھانی ہے ایک دفعہ کھا ئیں پھر مزے ہی مزے ہیں۔