پاکستان کی ہر حکومت ملک کی معیشت درست کرنے کے دعووں کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے اس کام کے لیے کڑی سے کڑی شرائط پر قرض لیتی ہے، اور ہر مرتبہ قوم کو تسلی دی جاتی ہے کہاں ہمارے اقدامات معیشت کو سنبھال لیں گے اور ملک ترقی کرے گا عوام خوش حال ہو جائیں گے لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جون جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ہر حل کے سامنے ایک نیا مسئلہ کھڑا ملتا ہے اور حکمرانوں میں پرانے مسئلے حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، اس لیے پھر عالمی ساہوکاروں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے پاس جاتے ہیں اس طرح ملک کو مزید مقروض بنا دیتے ہیں۔ اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود مسلسل ساتویں بار 22 فی صد پر برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے نئے مالی سال کے بجٹ اقدامات سے مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر دیا۔ بینک دولت پاکستان کا مانیٹری پالیسی رپورٹ میں کہنا تھا کہ مہنگائی کی شرح اب بھی بلند ہے‘ تاہم مثبت حقیقی شرح سود کے ساتھ موجودہ مانیٹری پالیسی کا تسلسل ضروری ہے تاکہ ستمبر 2025ء تک مہنگائی کی شرح کو 5 سے 7 فی صد کے ہدف تک کم کیا جائے۔ یہ حقیقت بھی مد نظر رہنی چاہیے کہ اس سے قبل بھی شرح سود رفتہ رفتہ سات سے 22 فی صد تک پہنچا دی گئی ہے اور دعویٰ اب بھی یہی کیا جارہا ہے کہ مہنگائی کم ہوجائے گی، حالانکہ اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں خود بتایا ہے کہ عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتیں نیچے آئی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان میں قیمتیں نیچے کیوں نہیں آرہیں، اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ حکمرانوں میں معاملات سنبھالنے تو کیا سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔ اب پھر کہا گیا ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی آ رہی ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہو رہے ہیں‘ معاشی استحکام کے اقدامات مہنگائی اور بیرونی پوزیشن دونوں میں خاطرخواہ بہتری لانے میں کردار ادا کررہے ہیں تاہم قرضوں کی بلند سطح اور حکومت کے مہنگے ملکی قرضوں پر انحصار کی وجہ سے سودی ادائیگیاں بڑھ گئی ہیں۔ نتیجتاً، جولائی تا جنوری مالی سال 24ء کے دوران مجموعی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 2.6 فی صد ہو گیا جو گزشتہ برس کی اسی مدت میں 2.3 فی صد تھا یہ سارے اعدادو شمار الجھا دینے والے ہیں اس پر مزید قرضے ملنے کو خوش خبری سمجھا جاتا ہے، کوئی اللہ کا بندہ زمین پر اتر کر عوام کا حال نہیں دیکھتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔