اسرائیل اور امریکی ہٹ دھرمی

461

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ رفح پر اسرائیلی حملہ موجودہ کشیدگی اور تباہی میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگا جو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے تباہ کن ہوگا بلکہ یہ غزہ اور دیگر علاقوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ رفح میں اسرائیلی فوج کا ممکنہ زمینی آپریشن ایک ایسے المیے سے کم نہیں ہوگا جن کا بیان کرنا الفاظ سے باہر ہے۔ یہ غزہ میں موجود فلسطینیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گا جس کے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرق وسطیٰ کے وسیع تر خطے پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کارروائی سے مزید ہزاروں فلسطینی شہری مارے اور لاکھوں نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔ انتونیو گوتریس نے کہا کہ سلامتی کونسل کے تمام اراکین اور بہت سے ممالک کی حکومتوں نے واضح طور پر رفح میں اس طرح کے ممکنہ اسرائیلی فوجی آپریشن کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اسرائیل پر اثر رسوخ رکھنے والے تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کی روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا یہ بیان اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی اس دھمکی کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے دھمکی دی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو یا نہ ہو اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر رفح پر ہر صورت زمینی حملہ کرے گی۔ اسرائیل کے اس ارادے پر اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور مارٹن گرینتھیس نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ رفح پر ممکنہ اسرائیلی حملے سے اس قدر تباہی ہوگی کہ کوئی انسانی منصوبہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کے لیے مصر، قطر اور دیگر ممالک کے سفارت کاروں کی مدد سے مذاکرات جاری ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن بھی اس بارے میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے دورے پر ہیں وہ سعودی عرب سے ہو کر اردن کے شاہ عبداللہ کے پاس پہنچے ہیں لیکن جنگ بندی کے قیام کی ہر کوشش اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ممکن نہیں ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل دنیا کے سب سے بڑے عالمی ادارے کے سربراہ ہیں لیکن وہ مسلسل اسرائیل کے جنگی جرائم سے عالمی برادری کو خبردار کرتے چلے آرہے ہیں لیکن ان کا کردار عالمی ادارے کے سربراہ کے وقار کے مطابق نہیں ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت تمام طاقتور فوجی طاقت رکھنے والے ممالک کی سرپرستی اسرائیل کو حاصل ہے۔ اسرائیل کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے یہ برطانیہ کی سامراجی سیاست کی مصلحتیں تھیں اور ہیں جس نے پہلی جنگ عظیم کے بعد عثمانی سلطنت کے ٹکڑے کیے اور فلسطین پر برطانوی انقلاب کے بعد یورپ بھر سے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر ناجائز طور پر محض اپنی طاقت کے بل پر آباد کیا اور مشرق وسطیٰ کے قلب میں ایک ناجائز ریاست کی بنیاد رکھی۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک فلسطینیوں کی مزاحمت کو اسرائیل کچلتا رہا ہے، لیکن 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے غزہ محصور فلسطینیوں اور حماس کے مجاہدین نے جس ایمانی استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اس نے دنیا بھر کے باضمیر انسانوں کو بھی مضطرب کردیا ہے۔ جس کا دبائو اسرائیل اور امریکی حکومت پر پڑنا شروع ہوگیا ہے۔ امریکا کی جامعات میں طلبہ کی نئی تحریک شروع ہوگئی ہے جس نے ویت نام جنگ کے خلاف تحریک کی یاد دلا دی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے جنگی جرائم کے الزام میں اسرائیل کے وزیراعظم، وزیر دفاع اور فوجی سربراہ کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کردیا ہے جسے روکنے کے لیے امریکا کو اپنی طاقت استعمال کرنی پڑی۔ اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے تبصرہ کیا کہ یوکرین جنگ پر پیوٹن کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی حمایت اور اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی گرفتاری کا حکم جاری کرنے کی مخالفت امریکی سیاست کی منافقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن اور پاکستان میں جرمنی کے سفارت کار عام لوگوں کی تنقید سے اتنے مشتعل ہوئے ہیں کہ سفارتی زبان اور آداب کو بھی بھول گئے ہیں۔ اس دبائو کی وجہ سے اسرائیل اور امریکا کی فوری ضرورت یہ ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوجائے لیکن امریکا اور اسرائیل یہ چاہتے ہیں کہ پہلے حماس کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے اس لیے عالمی دبائو کے باوجود اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی جاری ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ ہو بھی جائے تو رفح پر حملے سے نہیں رکیں گے۔ تمام مقاصد حاصل کیے بغیر جنگ روکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نیتن یاہو متکبرانہ انداز میں کہتا ہے کہ ہم رفح جائیں گے اور حماس کی بٹالین کو ختم کریں گے۔ پوری دنیا سے دبائو بڑھ رہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی جائے اور شہری آبادی پر حملے بند کیے جائیں۔ امریکا پر دبائو اتنا بڑھا ہے کہ ایک خاتون سفارت کار نے اپنے عہدے سے یہ کہہ کر استعفا دے دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی اب حمایت نہیں کرسکتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنا اثر رسوخ استعمال کریں اور انسانیت کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم روکیں۔ اس کے لیے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ اسرائیل کی خود کوئی طاقت نہیں ہے۔ یہ برطانیہ اور امریکا ہے جو اپنے مفادات کے لیے اور مشرق وسطیٰ پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے پوری طاقت استعمال کرتے ہیں۔ اسرائیل کی سرپرستی کے حوالے سے روس کی حکومت نے بھی اپنا رویہ تبدیل کیا ہے، چین نے بھی ایک مثبت قدم اٹھایا ہے اور فتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور اتحاد کرانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ حماس اور فتح کے نمائندے دونوں چین میں موجود ہیں اس طرح غزہ اور مغربی کنارے کی قیادت بھی ایک جگہ بیٹھ گئی ہے۔ جنوبی افریقا کی درخواست پر عالمی عدالت انصاف بھی متحرک ہے لیکن اس میں وزن اس وقت پڑے گا جب کوئی ایک مسلمان ملک طاقتور آواز بلند کرے گا۔ غزہ کے فلسطینیوں نے قربانی دے کر دنیا کے سامنے اسرائیل، امریکا اور یورپ کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، امدادی اداروں کے سربراہان گزشتہ 6 ماہ سے اسرائیل کی نسل کشی کا مشاہدہ کررہے ہیں، عالمی عدالت انصاف اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم اور فوجی سربراہ کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے۔ اسرائیل کے خلاف مقدمہ کوئی مسلمان ملک نہیں لے کر گیا ہے بلکہ جنوبی افریقا لے کر گیا ہے، جو انسانی حقوق اور دہشت گردی کے بارے میں امریکا اور یورپ کی منافقت سے آگاہ ہے۔ جنوبی افریقا سفید فام نسل پرست ریاست سے آزاد ہونے والا ملک ہے اور وہ واقف ہے کہ اسرائیل کی حکومت بھی نسل پرست حکومت ہے۔ امریکی دہشت گردی کے خلاف قوانین تیار کررہے تھے تو انہوں نے سب سے پہلے افریقن نیشنل کانگریس اور پی ایل او کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ’’عالمی وار آن ٹیرر‘‘ کا اصل مقصد اسرائیل کا تحفظ ہے جو ایک دہشت گرد اور نسل پرست ریاست ہے۔