معیشت… بڑھتی ہوئی مایوسی

949

پاکستان کا معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ بدترین ہوتا جارہا ہے، اور اس کا براہِ راست اثر عوام پر پڑ رہا ہے۔ ایک جانب ہوش ربا مہنگائی ہے تو دوسری جانب عوام کا ریاست پر سے اعتماد ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ اس بدترین معاشی و سماجی صورتِ حال میں ہر جانب ایک ہی سوال نظر آتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں، اسی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ پڑھے لکھے صاحبِ ثروت افراد کی اکثریت جو اِس ملک کے لیے کچھ کرسکتی ہے، اب بیرونِ ملک جانے کی فکر میں ہے۔ سالِ گزشتہ 2022ء کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ ساڑھے7 لاکھ افراد وطنِ عزیز کو چھوڑ گئے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو قوم کے لیے بہت قیمتی تھے اور ملک کی تعلیم و ترقی کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے، لیکن سیاسی بے یقینی، معاشی ابتری اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں بدترین مداخلت نے ان کو یہی سبق سکھایا کہ اگر کچھ کیا جاسکتا ہے تو وہ یہ کہ وطنِ عزیز سے باہر منتقل ہوجائو۔ لیکن 22 کروڑ کی آبادی کے ملک میں 22 لاکھ افراد بھی شاید بیرونِ ملک جانے کے لیے وسائل نہیں رکھتے، لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ پورا پاکستان ہجرت کرجائے۔ ملکی معیشت کی بحالی پہلا بڑا چیلنج ہے تاکہ عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کیا جائے، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ہمارے ملک کے حکمرانوں، ججوں اور جرنیلوں کو ایک مثال بننا ہوگا، یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ تینوں طبقات تو عیاشیاں کریں اور قربانی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے۔ عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے سب سے پہلے ان طبقات کو سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنا ہوگا، پروٹوکول سے نجات حاصل کرنا ہوگی، اور اپنی تنخواہوں میں کمی کرنا ہوگی۔ اس کے بعد ان تینوں حکمران طبقات کا احتساب بھی ازحد ضروری ہے، کیونکہ ماضیِ قریب و بعید میں سرے محل، ایوان فیلڈ اپارٹمنٹس، ایجویر روڈ کے فلیٹس سے لے کر پیزا چینز، پاپا جونز اور اب مبینہ طور پر جنرل باجوہ کے خاندان کے 12 ارب روپے سے زائد اثاثے اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ یہ تینوں طبقات مل کر قومی دولت لوٹ کر بیرونِ ملک منتقل کرتے رہے یا اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔ ایک بے رحم احتساب ہی قوم کا اعتماد اِس ملک پر بحال کرسکتا ہے کہ ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹس، سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کا بلاتخصیص محاسبہ کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے، ورنہ صورتِ حال شاید اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ورلڈ بینک کی کچھ مزید امداد اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے تو بچالے لیکن عوام کا ریاست پر اعتماد بحال نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ سب کچھ عوام میڈیا و سوشل میڈیا پر خود دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر موجود نہیں اور بیرونِ ملک ہمارے حکمران طبقات کے اکائونٹ ڈالرز سے بھرے ہوئے ہیں۔ اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت دعوے کررہی ہے کہ ڈالر بچانے کے لیے بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد کی جارہی ہے، جبکہ اس کے برعکس حکومت کا کوئی فیصلہ بیرونِ ملک دورے کے بغیر نہیں ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ اب تو پوری کابینہ خود لندن جاکر بیرون ملک مقیم سابق وزیراعظم سے مشاورت کرتی ہے۔ وزیر خارجہ کا یہ حال ہے کہ ان کو بیرونی دنیا کے دوروں سے فرصت ہی نہیں، ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس منعقدہ شرم الشیخ میں وزیراعظم اتنے بڑے وفد کو لے کر گئے جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی اور قوم کا کروڑوں روپیہ ضائع کیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور ججوں کی کارکردگی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ بے جا اخراجات اور بلا روک ٹوک بیرونی دوروں نے ملکی معیشت اور زرمبادلہ کے ذخائر کو تقریباً ختم ہی کردیا ہے۔ حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل اس بات کا غماز ہے کہ حکومت کوئی طویل یا قلیل مدت کی منصوبہ بندی کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ اس پورے تناظر میں ملکی معیشت پر ایک میثاق کی ضرورت ہے جس پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا مکمل اتفاقِ رائے ہو۔ یہ کام وہی قیادت کرسکتی ہے جو ملک و قوم سے مخلص ہو، اور جس کا جینا اور مرنا اِس ملک و قوم کے لیے ہو۔ اسی طرح جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونِ ملک منتقلی کو خلافِ قانون قرار دیا جائے اور ان کو کم از کم پانچ سال پاکستان میں رہنے کا پابند کیا جائے تاکہ اپنے فیصلوں کے اثرات پوری قوم کے ساتھ وہ بھی دیکھ اور برت سکیں۔ اگر ان چند نکات پر حکومت سنجیدگی سے عمل درآمد کی کوشش کرے تو شاید آئندہ 10 سالوں میں پاکستان اس گرداب سے نکل سکے، ورنہ ہر گزرتے دن ایک نئی پالیسی اور معیشت کی بحالی کے بجائے اپنا وقت گزارنے کے عارضی اقدامات کی تباہی مزید ہولناک ہوگی۔ معیشت کو نئے سرے سے استوار کرنے کے لیے غریب عوام پر مزید ٹیکس عائد کرنے کے بجائے بڑے سرمایہ داروں پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ اشیائے ضروریہ و ادویہ کے سوا اشرافیہ کی عیاشی کی چیزوں کی امپورٹ پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ اس اقدام سے کم از کم 12 ارب ڈالر کا کثیر زرمبادلہ بچے گا جس سے پاکستان کی معیشت کو ایک بہت بڑا ریلیف ملے گا۔ ہنرمندوں کی ایک کھیپ تیار کی جائے جوکہ بیرونِ ملک جاکر نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرسکیں بلکہ اس طرح پاکستان کو ایک بڑا زرمبادلہ بھی حاصل ہو۔ سالِ گزشتہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے 30 ارب ڈالر کا خطیر زرمبادلہ بھیجا ہے، اگر اس کو حکومتی اقدامات سے مزید 8 تا 10 ارب بڑھا لیا جائے تو کم از کم قرض کی قسط کی لٹکتی تلوار سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ اس کے لیے حکومت کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا اور بیرونِ ملک خصوصاً خلیجی ریاستوں اور یورپ سے حکومتی سطح پر ہنرمند افراد کی فراہمی کے معاہدے کرنا ہوں گے۔ تاکہ وہ بیرون ملک جاکر اپنے لیے کاروبار کے امکانات پیدا کریں جس سے پاکستانی ہنرمندوں کو روزگار کے ساتھ ملک کو زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔ اس کی ایک اچھی مثال ہمارا ہمسایہ بھارت ہے جس نے بتدریج آئی ٹی میں مہارت حاصل کرکے ایک کثیر زرمبادلہ کا رخ بھارت کی جانب موڑ دیا ہے اور آج بھارت برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ یہ تمام تجاویزاور اقدامات تب تک بے کار ہی رہیں گے جب تک ایک قومی درد رکھنے والی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ اس پر عمل درآمد کو یقینی نہ بنائے۔ پاکستان کا75 سال کا سفر دائروں کا سفر ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک کو جوکہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہیٍ دائروں کے سفر سے نکال کر ایک منزل کی جانب گامزن کیا جائے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اپنے الفاظ میں یہ ملک اسلام کی تجربہ گاہ ثابت ہو۔