!!!چھوٹے تو سب نکلے

380

وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ اپوزیشن فرضی قصے سناکر سرمایہ کاری رکوارہی ہے، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا لیکن اپوزیشن کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ ملک کے ڈیفالٹ کا مسلسل راگ الاپنا افسوس ناک ہے۔ انہوں نے اپنے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے میں یہ شکوہ بھی کیا کہ مالی نظام بہتر بنانے کی پاداش میں 8 سال جلاوطنی گزاری دہشت گردوں جیسا سلوک کیا گیا۔ اسحق ڈار کا فرمانا بجا ہے کہ کرپشن کے جھوٹے دعوئوں اور بیانات سے ملک کو نقصان ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جب عمران خان کی حکومت تھی اور وہ اپوزیشن میں تھے تو اس وقت یہ لوگ بھی معاشی بدحالی اور کرپشن کی کہانیاں سناتے تھے۔ مسٹرٹین پرسنٹ مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ، سرے محل، روز ویلٹ ہوٹل اور سارے بیانات اور الزامات یہی پی پی اور مسلم لیگ ایک دوسرے پر لگایا کرتے تھے اور عمران خان پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے جاتے تھے۔ یہ لوگ ملکی ڈیفالٹ اور ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کے الزامات لگاتے تھے۔ ایک اور مسئلہ ہر حکومت کے دور میں ہوتا آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک حکمران اپنی اپوزیشن کے خلاف جھوٹے سچے مقدمات بناتا رہا ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ کسی اپوزیشن کے دعوے سچے ثابت نہیں ہوئے اور کسی حکومت کے بنائے ہوئے مقدمات ثابت نہیں ہوسکے۔اسی طرح کی ترقی کے دعوے بھی درست نہ نکلے۔ الا ماشا اللہ۔ اسی طرح اپوزیشن کے دعوے بھی درست نہیں ہوپاتے یا اکا دکا ٹھیک ہوتے ہیں لیکن اپنے دور حکمرانی میں یہ لوگ بھی کسی الزام کو تو ثابت نہیں کرپاتے لیکن اپنی اپوزیشن کے خلاف اسی قسم کے مقدمات قائم کرتے ہیں جو ان کے خلاف کئے گئے تھے۔ موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ پر عمران خان کے دور میں گاڑی سے منشیات برآمد ہونے کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔ جولائی 2019 میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے 6 ماہ جیل کاٹی اسحق ڈار کوبھی شکوہ ہے کہ ان کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ شکوہ کرنے والے اپنے دور حکمران میں کیا کررہے ہیں۔ عمران خان پر مقدمے بن رہے ہیں۔ اعظم سواتی وہی شکوے کررہے ہیں جو اسحق ڈار اور رانا ثناء اللہ کو ہے۔ کیا وجہ ہے کہ یہ اور کسی دور حکومت میں ٹھیک نہیں ہوسکا اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ نہیں آیا ہے۔ ایوب خان کا دور ہو، نواب کالا باغ ہوں یا ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز اور بے نظیر نواز شریف وغیرہ تو بار بار یہی کام کرتے رہے۔ اب ان کی پارٹیاں ایک ہیں اور ان کی پارٹیوں سے نکلے ہوئے لوگ پی ٹی آئی میں ہیں یہ سب اپنے اپنے دور حکومت میں جھوٹے مقدمات بناتے ہیں اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ملک تباہ ہوتا نظر آتا ہے بعد میں پتا چلتا ہے کہ سب جھوٹ تھا۔ جنرل پرویز کے دور میں ملک زبردست ترقی کررہا تھا لیکن ان کے جانے کے بعد پتا چلاکہ سب جھوٹ تھا، ان کے دور میں جتنے دہشت گرد گروہ تخلیق کیے گئے وہ سب بعد میں فراڈ نکلے۔ حتیٰ کہ پرویز مشرف پر حملہ کرنے کے ملزم بھی عدالت سے بے گناہ نکلے۔ رانا ثناء اللہ پر جو مقدمہ بنا اس قسم کے مقدمات ایوب خان کے زمانے سے پولیس والے سیاسی مخالفین پر بناتے تھے اور ان ہی کو نچلی سطح پر پولیس والے عوام کو لوٹنے کے لیے استعمال کرتے یعنی تلاشی کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالنے اور مٹھی میں رکھی ہوئی چرس، ہیروئن اور آج کل نئی نئی نشہ آور اشیا ہیں برآمد کرکے پکڑلیتے یہی کام رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوا۔ آج کل پی ٹی آئی والوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ ان سیاسی رہنمائوں کا ایک مشہور جملہ ہے کہ اتنا ظلم کرو جتنا سہہ سکو۔ یعنی ان کی تیاری ہوتی ہے کہ جب ہماری باری آئے گی تو ہم ان پر بھی اتنا ظلم کریں گے بلکہ اس سے زیادہ کریں گے اور کرڈالتے ہیں۔ اب زرا اپوزیشن کے غیر سنجیدہ بیانات کی بات بھی کرلیں واقعی ہر اپوزیشن کے بیانات غیر سنجیدہ ہی ہیں۔ لیکن کیا حکمرانوں کے ملکی ترقی کے دعوے سنجیدہ ہوتے ہیں۔ عالمی اداروں کی کڑی شرائط کی وجہ پاکستان اخبارات میں چھپنے والی خبریں نہیں ہوتیں۔ ان کے پاس اپنے دیئے ہوئے فنڈز کے غلط استعمال کے ثبوت ہوتے ہیں۔ وہ کسی طور بھی اپنے فنڈز کو غلط استعمال ہوتے نہیں دیکھتے وہ فنڈز بھی دیتے ہیں اور اپنا ایجنڈا بھی ان کے ایجنڈے کو تو ہمارے حکمران پوری ایمانداری سے نافذ بلکہ مسلط کرتے ہیں لیکن فنڈز کو خورد برد کرتے ہیں اگلی مرتبہ مزید سخت شرائط اور سخت ایجنڈا آجاتا ہے یہ لوگ پھر وہی کرتے ہیں کہ ایجنڈا مسلط اور فنڈز خورد برد کرتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کو چھوڑیں اپنے ملک میں چھوٹا سا سرمایہ دار بھی پچاس ساٹھ لاکھ سے لے کر کروڑوں روپے تک کسی ایسی جگہ نہیں لگاتا جہاں اس کے دیئے ہوئے پیسے کو وہاں نہ لگایا جائے جہاں کا وعدہ کیا جارہا ہے یا وہ کام نہ کیا جائے جس کے لیے پیسے لیئے جارہے ہیں۔ ایک حد تک سرمایہ کار آنکھ بند کرلیتے ہیں غیر ملکی بھی ایک حد تک آنکھ بند رکھتے ہیں لیکن جوں ہی ان کی طے شدہ حدود سے کوئی گزرتا ہے وہ مٹھی بند کرلیتے ہیں۔ لہٰذا سرمایہ کاری میں کمی یا رکاوٹ کی وجہ اپوزیشن کا غیر سنجیدہ رویہ نہیں بلکہ حکمرانوں کا غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ اور یہ کام حکومت اور اپوزیشن دونوں کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر اسحق ڈار نے اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے خود بھی ایک غیر سنجیدہ بات کردی کہ پاکستان کا مالی نظام بہتر بنانے کی پاداش میں انہیں جلاوطنی گزارنی پڑی تو پھر وہ بتائیں کہ انہیں کس کی وجہ سے یہ جلاوطنی گزارنی پڑی۔ حکومت کی یا آج کی اپوزیشن کی یا کوئی اور ہے جس کا وہ نام نہیں لے سکتے۔۔۔ ان کا یہ بیان بجائے خود ایک غیر سنجیدہ بات ہے اگر وہ ملک کا مالی نظام بہتر بناچکے تھے تو چار سال میں کیا قیامت آگئی کہ سب کچھ تباہ ہوگیا اور اس سے پہلے 30 سال بھی یہی پی ڈی ایم والے تھے۔ دراصل سب ہی کرپٹ اور ترقی کے معاملے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ پاکستانی قوم اس معاملے میں بڑی بدقسمت ہے۔ حکمران بھی جھوٹ بولتے ہیں اور اپوزیشن والے بھی یہاں تک کہ جن پر ملک کے تحفظ کی ذمہ داری ہے وہ بھی درست بات نہیں بتاتے۔ پوری ملک میں اوپر سے نیچے تک جھوٹ بول کر اقتدار حاصل کیا اور محروم کیا جارہا ہے۔ نہ حکومت وعدے پوری کرتی ہے نہ اپوزیشن والے حکومت میں آکر وعدے پورے کرتے ہیں پھر بھی نئے وعدے کرتے رہتے ہیں۔