جماعت اسلامی کا قرطاس ابیض

520

جماعت اسلامی پاکستان نے تحریک انصاف کی حکومت کی 38 ماہ کی کارکردگی سے متعلق تفصیلی تجزیے پر مشتمل قرطاس ابیض جاری کر دیا ہے، گیارہ صفحات پر محیط یہ قرطاس ابیض جمعرات کے روز امیر جماعت سراج الحق نے قیم جماعت امیر العظیم کے ہمراہ منصورہ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران قوم کے سامنے رکھا اس موقع پر جناب سراج الحق کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر طرف مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے، معیشت بری طرح تباہی سے دوچار ہو چکی ہے، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی تینوں عالمی بینک کی سہولت کار ہیں، ملک اور اسٹیٹ بینک، آئی ایم ایف کو ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں، جماعت اسلامی کے جاری کردہ قرطاس ابیض میں کہا گیا ہے کہ 38 ماہ کی حکومت کے دوران تحریک انصاف نے بری حکمرانی، وعدہ خلافیوں، یوٹرنز، بدامنی، خارجہ پالیسی اور پارلیمنٹ کے بے توقیری کی تاریخ رقم کی ہے، موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں نہ صرف سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کا تسلسل رہا بلکہ کئی شعبے مزید زوال آشنا ہوئے اور ملک کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا، گزشتہ 38 ماہ کے دوران بیرونی قرضوں میں 27 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، پیٹرول کی قیمت 95 روپے سے بڑھ کر 138 روپے فی لیٹر تک پہنچ چکی ہے، بجلی کی قیمت میں فی یونٹ ساڑھے پانچ روپے کا اضافہ خود حکومت نے کیا ہے، زراعت کی تباہی کا عالم یہ ہے کہ کپاس کی پیداوار ایک کروڑ چالیس لاکھ گانٹھ سے کم ہو کر صرف 56 لاکھ گانٹھ رہ گئی ہے، چینی اور آٹے سے متعلق غلط سرکاری پالیسیوں کے سبب ان کی قیمت تقریباً دو گنا ہو گئی ہے۔ چینی، گندم، ایل این جی اور پیٹرول کے اسکینڈلز کے سبب قومی خزانے کو مجموعی طور پر پانچ سو ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، ملک میں 24 فیصد تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کی آزمائش سے دوچار ہیں جبکہ 70 لاکھ منشیات کی لعنت میں مبتلا ہو چکے ہیں، حکومت نے ان کی بحالی اور باصلاحیت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کوئی پروگرام متعارف نہیں کرایا۔ کراچی، لاہور، پشاور، ملتان اور حیدرآباد جیسے شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں، ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں عالمی درجہ بندی میں پاکستان 180 ممالک میں سے 140 ویں نمبر پر ہے، اس وقت ملک میں 37 لاکھ بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں، موجودہ حکومت کے اقتدار میں ادویات کی قیمتوں میں بارہ مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے، تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی تھی تو ملک میں معاشی نمو کی شرح ساڑھے 5 فیصد تھی جو اب حکومت کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق 4 فیصد تک گر چکی ہے، ڈالر کی قدر 123 روپے سے بڑھ کر 173 روپے تک پہنچ چکی ہے، مجموعی قومی قرضہ 30 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 48 ہزار ارب کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ قرطاس ابیض میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی گزشتہ سوا تین سال میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے، چکن، بناسپتی گھی اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں بالترتیب 110، 85 اور 83 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ آٹے کا دس کلو کا تھیلا سوا 3 سو روپے سے 6 سو روپے، چینی 56 روپے سے 100 روپے، انڈے 97 روپے سے بڑھ کر 168 روپے درجن، بکرے کا گوشت پونے آٹھ سے ساڑھے 11 سو، بڑا گوشت پونے چار سو روپے سے بڑھ کر پونے آٹھ سو روپے اور کھلا دودھ 85 روپے سے 130 روپے کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔ ملکی معیشت آئی ایم ایف اور مافیاز کے کنٹرول میں ہے۔ چینی اسکینڈل کی تحقیقات ہوئی تو وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اس میں ملوث پائے گئے۔ اسی طرح آٹا بحران کے ذمہ داران بھی حکومت میں شامل ہیں۔ قرطاس ابیض کے خارجہ پالیسی سے متعلق حصے کی وضاحت کرتے ہوئے جناب سراج الحق نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت نے کشمیر پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے پسپائی اختیار کی۔ بھارتی حکومت کے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے پر بھی حکومت کا رویہ معذرت خواہانہ رہا بلکہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا درجہ دینے کا شوشہ چھوڑ کر پاکستان کے کشمیر پر تاریخی موقف کو کمزور کیا گیا، حکومت نے بالاکوٹ حملے کے موقع پر خاموشی اختیار کیے رکھی، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے تعاون سے ملکی مفاد کے منافی قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے باوجود حکومت پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے خارج کرانے میں اب تک ناکام ہے، امریکا سے طالبان کے مذاکرات میں سہولت کاری فراہم کرنے کے باوجود حکومت پاکستان کے لیے امریکا سے فوائد حاصل نہیں کر سکی یہاں تک کہ امریکی صدر ہماری خواہش کے باوجود پاکستانی وزیراعظم سے بات تک کرنے پر تیار نہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے حکومت نے قطعاً کچھ نہیں کیا۔ وزیراعظم نے سعودی عرب، ترکی، ملائشیا اور چین سے تعلقات کو خطرات سے دوچار کیے رکھا، پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر پہلی بار کشیدگی پیدا ہوئی۔ اس طرح خارجہ محاذ پر بھی کوئی مثبت پیش رفت دکھانے سے قاصر رہی۔ جماعت اسلامی کے اس قرطاس ابیض کا جائزہ لیا جائے تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اس کا ایک ایک لفظ حقائق کا آئینہ دار ہے اور اس میں حکومت کی داخلی اور خارجی محاذ پر جن ناکامیوں کی نشاندہی کی گئی کوئی بھی ذی فہم شخص ان کی صداقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے جب استفسار کیا گیا تو انہوں نے صحافیوں کے روبرو وعدہ کیا کہ جماعت اسلامی کو موقع دیا گیا تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گے۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ اسلام کے زریں اصولوں کو اپنا کر ہم اس مملکت خداداد کو عظیم فلاحی مملکت بنائیں گے اور عوام کے مسائل حل کریں گے۔ جناب سراج الحق کے اس وعدے پر اعتماد اور اعتبار کاجواز ہے کہ انہیں جب صوبہ خیبر میں بطور سینیٹر، وزیر اور وزیر خزانہ کام کرنے کا موقع ملا تو نہ صرف اپنوں پرایوں نے ان کی اور جماعت اسلامی کے دیگر وزراء کی نمایاں اور منفرد کارکردگی کا اعتراف کیا بلکہ ان کا دامن بدعنوانی اور کرپشن کے ہر قسم کے الزامات سے بھی پاک رہا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی یہ کہہ کر کہ ’’اگر آئین کی دفعات 62 اور 63 پر عمل کیا جائے تو صرف سراج الحق ہی اس معیار پر پورے اتریں گے‘‘ جماعت اسلامی اور اس کے امیر کی امانت و دیانت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ جماعت اسلامی کے منتخب کردہ نمائندوں کو ملک کے دیگر حصوں خصوصاً کراچی میں بھی جب عوام کی خدمت کا موقع ملا تو امانت و دیانت کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی بھی مثالی رہی اور انہوں نے بڑے بڑے جغادری سیاست دانوں کے مقابلے میں کہیں بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کر کے دکھایا۔ ملک اس وقت جن ابتر معاشی، معاشرتی اور سیاسی صورت حال سے دوچار ہے اور ہمارے حکمران جس طرح داخلی و خارجی محاذوںپر مسائل سے عہدہ برآء ہوئے ہیں مکمل طور پر ناکام نظر آرہے ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ قوم اپنے طرز فکر پر نظرثانی کرے اور ملک کو اسلام کی پٹری پر چڑھانے اور مسائل و مصائب کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے کے لیے عوام آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی کو موقع دیں۔