چوہان کی واپسی

516

 

 

پنجاب کے سابق وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان مختصر عرصے کے لیے معتوب رہنے کے بعد ایک بار پھر پنجاب کابینہ میں شامل ہوگئے اور گزشتہ جمعہ کو حلف اٹھالیا، گویا پنجابی محاورے کے مطابق ’’جتھے دابندہ، اتھے آن کھلوتا‘‘۔ وہ بطور وزیر اطلاعات فواد چودھری کے نقش قدم پر تھے، انہیں بھی وزارت اطلاعات سے ہٹا کر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنادیا گیا۔ فواد چودھری کی مثال سے ظاہر ہے کہ نئے پاکستان میں بھی اہلیت کو نہیں دیکھا جاتا۔ فی الحال تو فیاض الحسن چوہان کو جنگلات میں بھیج دیا گیا جہاں رہیں خوش رہیں۔ جہاں تک فیاض الحسن چوہان کا تعلق ہے تو وہ بھی پنجاب کے مخصوص انداز اور مزاج کی ترجمانی کرتے ہیں چناں چہ امکان یہی ہے کہ کوئی سی وزارت دے دی جائے۔ وہ اپنی شناخت برقرار رکھیں گے۔ ان کے موجودہ جانشین صمصام بخاری ذرا دھیمے مزاج کے ہیں اور سلطان راہی سے متاثر نہیں لگتے۔ یہ اور بات کہ خربوزوں کے کھیت میں سبھی خربوزے ایک رنگ کے ہوتے ہیں۔ یک رنگی کے باوجود کوئی پھیکا نکل آتا ہے اور کوئی کڑوا۔
فیاض الحسن چوہان کو سچ بولنے کی سزا دی گئی تھی۔ انہوں نے ہندوئوں کے حوالے سے گائے کے پیشاب کی ’’تقدیس‘‘ کی بات کی تھی جو غلط تو نہیں تھی لیکن جانے کیوں ہندوئوں کو بری لگ گئی۔ عمران خان نے ان کی ناراضی کے پیش نظر فیاض الحسن کو ہٹادیا۔ اب شاید ان کی بات سے اتفاق کرلیا۔ چناں چہ واپسی ہوگئی۔ لیکن اس میں شک کیا ہے کہ ہندوئوں کے نزدیک گائے کے پیشاب سمیت اس کی ہر چیز ’’پوتر‘‘ ہے۔ بھارت میں تو گائے کی بے حرمتی کے محض الزام میں مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ روزانہ ہی مسلمانوں پر اس الزام میں تشدد کیا جارہا ہے۔ بھارتی اخبار سنڈے ایکسپریس کے مطابق حالات حاضرہ کی مبصر مس تاولین سنگھ نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ’’جو لوگ گائے کے تحفظ اور رام مندر کے نام پر مسلمانوں کو خوف و تشویش کی حالت میں رکھ کر اپنی دیش بھگتی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ دیش بھگت نہیں بدترین قسم کے دیش دروہی (ملک دشمن) ہیں۔ ایک ٹی وی مباحثے میں ہندی فلموں کے مشہور اداکار کمل ہاسن نے سوال اُٹھایا کہ کیا کوئی مویشی خواہ وہ کسی فرقے کے نزدیک کتنا ہی پوتر (مقدس) ہو اس کی جان انسانوں کی جان سے قیمتی ہے؟۔ یوپی کے وزیراعلیٰ آدتیہ یوگی کہتے ہیں کہ ہاں گائے انسانی جان سے زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ انسانی جان اگر مسلمان کی ہو۔
ہندو گائے کا پیشاب پیتے ہیں تو اس کے اظہار میں ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم ایک بار دہلی گئے۔ جامع مسجد کے اطراف میں ہوٹل تلاش کررہے تھے۔ ایک ہوٹل پر لکھا ہوا تھا ’’یہاں بھوجن کو گائومتر سے شدھ پوتر کیا جاتا ہے‘‘۔ یعنی ہوٹل میں ہر کھانے کو گائے کے پیشاب سے پاک کیا جاتا ہے۔ ہم تو خیر اس ہوٹل میں نہیں گئے لیکن کسی بھی ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے شبہ ہی رہا۔ چناں چہ دیکھ بھال کر کسی مسلمان ہوٹل ہی میں بھوجن کرتے تھے۔ پاکستان میں جو ہندو برادری آباد ہے ممکن ہے کہ وہ گائے کے پیشاب کا ایسا احترام نہ کرتی ہو کہ اندرون سندھ کھانا اور مٹھائی وغیرہ مسلمان بھی خریدتے ہیں تاہم بھارت میں ہندو حلوائی تقدس شامل کرنے کے لیے مٹھائیوں پر چھینٹا بھی دے دیتے ہیں۔ رسوئی (باورچی خانہ) میں گائے کے گوبر اور پیشاب سے لیپ کرنا عام بات ہے۔ اور یہ تو گائے کے پیشاب کی بات ہے۔ بھارت کے ایک وزیراعظم مرار جی ڈیسائی نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اپنا پیشاب پیتے ہیں۔ کچھ کالجوں کے لیٹرین پر شریر طالب علموں نے ’’ڈیسائی کولا‘‘ لکھ دیا تھا۔
عجیب بات ہے کہ گائے کی تقدیس کے علم بردار خود اپنی تاریخ سے واقف نہیں۔ ہندوئوں ہی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ راجا چندرگپت موریہ کے مطبخمیں جو سامان جاتا تھا اس میں ہرن اور دیگر جانوروں کے ساتھ گائے کا گوشت بھی ہوتا تھا۔ بھارت کی جنوبی ریاستوں میں گوشت کھایا جاتا ہے، آسام میں گائے کو تقدیس حاصل نہیں۔ بھارت کے سکھ خوب گوشت کھاتے ہیں، دہلی میں بھی معلوم ہوا تھا کہ ہندو چپکے سے کبابیہ کی دکان پر پیسے اور تھیلی رکھ جاتے ہیں اور کچھ دیر بعد لے جاتے ہیں۔ بہرحال، ہندو گائے کا پیشاب پئیں یا جو چاہے کریں لیکن حقیقت کے اعتراف پر چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔
وزیر جنگلات فیاض الحسن چوہان جنگل میں جا کر بھی اپنی شعلہ بیانی کی خواہش پوری کرلیں گے اور ممکن ہے کہ درختوں ہی کو مخاطب کرکے تقریریں کر ڈالیں۔ حکومت کی طرف سے کہیں پر شجرکاری کی مہم چل رہی ہے اور عمران خان اربوں، کھربوں کے درخت لگانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایسے میں فیاض الحسن کے بھی ’’پوبارہ‘‘ ہیں۔ لیکن وہ اب گائے کے پیشاب کی توہین سے باز رہیں گے۔ سچ بات کبھی گلے بھی پڑجاتی ہے۔ نام کے مطابق تو وہ راجپوت ہیں۔ مگر ابھی حلف اٹھا کر رکھا بھی نہیں تھا کہ وزارت بدل گئی۔ اب وہ کسی گمنام سی وزارت کالونیز کے وزیر ہیں۔ کل تک دیکھیے کیا ہو۔