(آؤ ! حلب بلاتا ہے۔۔۔(مریم فاروق

345

اے میرے شامی بھائی اسد بن عبداللہ!!
میں تم سے بہت دور پاکستان میں اپنے پرسکون اور آرام دہ گھر میں ہوں لیکن تمہارے حال سے بے خبر نہیں۔ ہمارے ملک کے میڈیا نے بین الاقوامی میڈیا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گویا تمہارے اوپر ہونے والے مظالم سے عوام کو نا آشنا رکھنے کی قسم کھا لی ہے۔ اِس وقت تین لاکھ لوگوں پر بیتنے والی ظلم کی داستانوں سے قطعی لا تعلق ہے۔ اُن کے لیے اداکاروں کی سالگرہیں، اُن کی شادیاں اور اُن کی سرگرمیاں، اور سیاست دانوں کی آمد و رفت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جنہیں ’’بریکنگ نیوز‘‘ کا نام دے کر عوام تک پہنچایا جا رہا ہے۔ لیکن میں بھی آخر اِس تیز رفتار دور کی تمہاری ایک بہن ہوں۔ سوشل میڈیا کی صورت میرے ہاتھ میں گویا پورا شام موجود ہے جہاں وحشت اور سفاکی کا راج ہے۔ جہاں فضاء میں انسانی خون کی مہک ہے اور جہاں گلی کوچوں میں انسانیت سسک رہی ہے۔
کیسا عجیب اتفاق ہے کہ ایک اسد تم ہو جو زخموں سے چور ہے، جس کے والدین، اور دیگر خاندان کے لوگ مظلومانہ شہادت پا چکے ہیں اور تم پھر بھی رسولؐ کے دین پر قائم ہو۔ بشار کی فوج کا بے تہاشا ظلم بھی تم سے اور تمہاری قوم کے لبوں سے لا الہ الا اللہ نہیں چھین سکا۔۔۔ اور ایک اسد وہ ہے جو ’’بشار الاسد‘‘ ہے شام کا خون آشام بھیڑیا۔۔۔
کل میں اپنے کاموں سے فارغ ہو کر اپنے نرم و گداز بستر پر آکر بیٹھ گئی۔ باہر تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں نے کمبل اپنے گرد اچھی طرح لپیٹ لیا۔ ابھی لیپ ٹاپ اُٹھایا ہی تھا کہ مجھے بے اختیا ر تمہارا خیال آگیا۔ نہ جانے تمہارے پاس سردی سے بچنے کا کوئی انتظام ہو گا بھی کہ نہیں!! میری امی تو میرے بھیا کو بغیر سوئٹر اور مفلر کے گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتیں۔ میں تصور کی آنکھ سے دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں۔ نہ سر چھپانے کے لیے چھت، نہ پیٹ بھرنے کے لیے غذا ور نہ ہی زخموں کے لیے ادویات۔۔۔
ان ہی خیالات میں میری انگلی فیس بک پر اسکرول کر رہی تھی کہ ایک ویڈیو پر نظر پڑی۔ تمہارے شہر کے ایک معصوم بچے کو برفیلے پانی میں تھپڑ مار مار کر گرایا جا رہا تھا۔۔۔ یہاں تک کہ وہ بچہ سردی کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کے پاس پہنچ گیا۔ مجھ سے آگے نہیں دیکھا گیا اور چالیس سیکنڈکی یہ ویڈیو میں نے بمشکل بیس سیکنڈ دیکھی اور پھر مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں دس منٹ تک روتی رہی۔
یہ نہ سمجھنا کہ ’’مہذب دنیا‘‘ کی طرح ہم تمہیں بھول گئے ہیں۔ ہم روز اُٹھتے بیٹھتے تمہارا ذکر کرتے ہیں اور ہر دعا میں تم کو یاد رکھتے ہیں۔ اقوامِ عالم کی تنظیم ’’اقوامِ متحدہ‘‘ کے چارٹر میں تو درج ہے کہ خواتین اور بچوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا جائے گا، ہسپتالوں اور درس گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا لیکن آج ٹیکنالوجی کے اس عظیم الشان دور میں سارے چارٹر کی دھجیاں اُڑا دی گئیں۔ اب تمہارا ملک ایک وسیع و عریض کھنڈر ہے۔ خواتین اور بچوں پر ہونے والے روح فرسا مظالم سے شاید شیطان بھی منہ چھپا لے۔
میرے بھائی!! ایک اور ویڈیو نے میرے اوسان خطا کر دیے۔ تمہارے شہر میں بسنے والی میری ایک خالہ، خالہ میں اِس لیے کہ رہی ہوں کہ تمہارے شہر کا ہر باسی مجھے اپنے گھر کا ہی ایک فرد لگتا ہے، اسدی فوج کے تین مسلح اہل کاروں کے نرغے میں دیوار کی طرف منہ کیے کھڑی تھی اور اُن میں سے ا یک ان کے کمر پر چاقو کے وار کیے چلا جا رہا تھا۔ میں نے گھبرا کے اسکرول ڈاؤن کر دیا۔ اگلی ہی پوسٹ ایک چائے کے اشتہار کی تھی جس میں ایک پر فضاء مقام پر طلبہ و طالبات ناچتے گاتے، مٹکتے تھرکتے چائے کا لطف لے رہے تھے۔
میں سوچنے لگی کہ اگر تم کو معلوم ہو جائے کہ تم پر تو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور اُمت کا دوسرا حصہ ناچتے ہوئے چائے پی رہا ہے تو تمہارے دل کا کیا حال ہو گا؟؟
کاش تم کو پتا نہ چلے۔۔۔ کہ جس وقت تم لوگ اپنے خاندان کے ساتھ سرحد یں عبور کرتے ہوئے خاردار تاروں کی باڑھوں میں سے رستہ بناتے ہو اور اس کشمکش میں تمہارے کپڑے پھٹ جاتے ہیں اور تمہارے چہرے زخمی ہو جاتے ہیں۔ اُس وقت یہاں شادیوں اور نئے سال کی آمد کی تقریبات عروج پر ہوتی ہیں مگر۔۔۔
یہ نہ سمجھنا کہ میں بھی ایسی ہوں۔ میرا غم تو دہرا ہے، ایک تمہارا اور ایک اپنی قوم کا خدا کو ناراض کرنے والی اداؤں کا غم۔۔۔
تم نے ہجرتیں اور شہادتیں قبول کر لیں لیکن باطل کے آگے سر جھکانا گوارہ نہیں کیا۔ بالکل اُسی طرح جیسے اخوانیوں نے رابعہ العدویہ کے میدان میں شہادتوں کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔ جیسے اسرائیل کے مکروہ عزائم کے سامنے فلسطینی آج بھی سینہ سپر ہیں۔ جیسے کشمیری نوجوان آزادی کے لیے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ جیسے میانمار۔۔۔ جیسے۔۔۔
کلمہ کا یہ رشتہ اتنا مضبوط ہے کہ میڈیا کے لاکھ بائیکاٹ کے باوجود یہ چھپا نہیں رہ سکتا۔ ہمارے دل تمہاری یاد سے آباد ہیں۔ تمہیں لگنے والی ہر چوٹ ہمیں اپنی محسوس ہوتی ہے۔ ہماری ہر انفرادی و اجتماعی دعا میں تمہارے نام کا ایک بڑا حصہ ہوتا ہے۔ ہم اپنے دل کی اس آواز کو دنیا کو سننانے کے لیے، تمہارے اوپر ہونے والے ظلم کی مذمت کے لیے، تم سے اظہارِ یکجہتی کرنے کے لیے، ہم نے بھی وہی دن منتخب کیا ہے، جب ساری دنیا نئے سال کی آمد کا جشن منا ئے گی۔
پیارے بھائی!! اس دن لاکھوں بچے، بوڑھے، نوجوان، خواتین، مرد سب ہی پاکستان کے ایک بڑے شہر میں تمہاری خاطر مارچ کریں گے۔ ’’امتِ رسول مارچ‘‘ اہلِ باطل کو یہ باور کرا دے گا کہ:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دو گے
قومیں مرتی ہیں اس آزار سے