پیٹرولیم قیمتیں، حکومت کا فرار

341

حکومت پاکستان عوامی تنقید سے بچنے کے لیے پٹرولیم کی قیمتوں کے تعین کا اختیار تین کمیٹیوں کو دینے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔ یہ درست ہے کہ عوام کی تنقید حکومتی فیصلوں پر ہی ہوتی ہے اور انہیں اس کا سامنا کرنے کی جرأت ہونی چاہیے۔ اس قسم کے فیصلے سے پورے ملک میں پٹرول کی یکساں قیمتوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور کمیٹیان اپنی مرضی سے قیمتیں مقرر کریں گی۔ ایمانداری سے کام کرنے والے ملکوں میں تو اسے مسابقت کے لیے عموماً یہ طریقہ رہا ہے کہ حکومت پٹرولیم قیمتوں کا تعین ان امور کو مدنظر رکھ کر کرتی ہے سب سے پہلے ایکس ریفائنری قیمت آتی ہے اس کے بعد اندرون ملک ترسیل پر آنے والے اخراجات میں توازن آئی ای ایف ایم کو شامل کرتے ہیں اس کے بعد ڈسٹری بیوٹر کا منافع شامل کیا جاتا ہے اس کے بعد ڈیلر کا کمیشن بھی شامل کیا جاتا ہے پھر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور اس سب پر سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں جب بات قابل غور ہوگی کہ ایکس ریفائنری قیمت کا تعین بھی اوگرا کرتی ہے جبکہ اس کا تعین ریفائنریز کو کرنا چاہیے تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پٹرول کمپنیوں کو پٹرول کی فی لیٹر قیمت مقرر کرنے کا اختیار مل گیا تو اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔ کیا پٹرولیم ڈیلر یا پٹرولیم ڈسٹری بیوٹر کا منافع کم کردیا جائے گا۔ کیا پٹرولیم کمپنیوں کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ حکومت کے ٹیکسوں میں سے کچھ کمی کردیں گے یا وہ اپنے منافع میں یا ڈسٹری بیوٹر کے منافع میں کوئی کمی کریں گے۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی کام ہونے والا نہیں اس فیصلے کا فائدہ صرف حکومت کو ہوگا کہ وہ براہ راست عوام کی تنقید سے بچ جائے گی ورنہ عوام کو اب بھی ٹیکسوں کی مد میں فی لیٹر پٹرول پر ۱۲۷ روپے تک ادا کرنے پڑ رہے ہیں اس میں سے پی ڈی ایبل ۶۰ روپے اور فریٹ کے ساڑھ پانچ روپے ہیں اور پٹرولیم ڈسٹری بیوٹر اور ڈیلرز کے تقریباً ۱۵ روپے ہیں اس کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے ٹیکس الگ لیے جاتے ہیں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پٹرولیم کمپنیاں اپنا منافع ہرگز کم نہیں کریں گی اور سرکار کا ٹیکس بھی کم نہیں کریں گی صرف تنقید اور عوام کے غصے کا رخ بدل جائے گا جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوگا کہ پٹرولیم کمپنیاں کسی بھی وقت عوام کے غضب کا شکار ہوجائیں گی اور پٹرول پمپس پر حملے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ کیونکہ اب تک پٹرولیم کمپنیاں اس کو حکومت کا فیصلہ قرار دیتی تھیں اور عوام خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے تھے لیکن اب ایسا ہوگا کہ جوں ہی پٹرولیم کی قیمت بڑھی عوام پی ایس او کے علاوہ دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کے خلاف غصے کا اظہار کریں گے جس کے نتیجے میں غیر ملکی پٹرولیم کمپنیوں کے پمپ زیادہ خطرے کا شکار ہوں گے بالفرض ایسا نہ بھی ہوا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پٹرولیم کمپنیاں اپنے منافع اور پٹرول کی فروخت کا غلط ریکارڈ ظاہر کرکے کھربوں روپے خود بھی کھا جائیں اور حکومت کے رشوت خور افسروں کو کھلادیں۔ اس کے نتیجے میں بھی عوام ہی پسیں گے یہ رویہ ہی غلط ہے کہ عوام کی تنقید کے خوف سے حکومت کوئی کام نہ صرف چھوڑ دے بلکہ عوام کو کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ اس طرح تو حکومت کو سارے کام ہی چھوڑ دینے چاہئیں۔ سیاست میں حکمرانی کا شوق تو سب کو ہوتا ہے لیکن عوام کو جوابدہی سے سب بچنا چاہتے ہیں۔ حکومت عوام کی تنقید سے بچنے کے لیے اپنی ٹیکس ہی کم کردے سب سے بڑا ٹیکس پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی ہے جس کو ختم کرنے کو تو حکومت تیار نہیں ہوگی لیکن کھرب ہا روپے اس مد میں وصول کرکے حکومت یہ نہیں بتاسکتی کہ اس نے پٹرولیم کے شعبے کی ترقی کے لیے کیا کام کیا ہے۔ تیل کی تلاش، ریفائنریز کا قیام، پائپ لائنز کو محفوظ بنایا یا ترسیل کو اپنے ذمے لے کر ٹیکسوں میں کمی کرنا ان میں سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد یہ سوال بھی اٹھے گا کہ پھر بھاری تنخواہوں اور مراعات والے ادارے اوگرا کا کوئی کام رہ جائے گا جس کے سربراہ سمیت تمام افسروں کو بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں کیونکہ پھر تو آئل کی قیمتوں کا تعین تو پٹرولیم کمپنیز کریں گی۔ لہٰذا اگر حکومت تنقید سے بچنا ہی چاہتی ہے تو اوگرا کے افسران کی بھاری تنخواہیں ختم کرکے یہ رقم پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کرنے پر لگادے یہ رقم معمولی نہیں ہے اگر صرف ایک تنخواہ کو دیکھیں تو اندازہ ہوسکتا ہے کہ ملک بھر میں عوام کو کوئی سہولت دینے کے بجائے ان پر ٹیکسوں میں اضافے کرنے کے لیے اتنی تنخواہ دی جاتی ہے تو لوگ یہ سوال ضرور کریں گے کہ پھر ریگولیٹری اتھارٹی کا کیا کام ہے یہ ۲۰۲۰ میں حکومت نے اوگرا چیئرمین کی تنخواہ میں اچانک ڈیڑھ سو فی صد اضافہ کردیا جبکہ اس وقت تک تنخواہ اوگرا کے ہر رکن کی مساوی تھی سب کو ۶ لاکھ روپے ماہانہ ملتے تھے جبکہ چیئرمین کو سربراہی کے منصب کی وجہ سے پچاس ہزار روپے اضافی ملتے تھے لیکن یکساں صلاحیت اور قابلیت کے باوجود چیئرمین کی تنخواہ ۱۵ لاکھ روپے کردی گئی۔ پورے ملک میں عملے اور دفاتر دیگر اخراجات کا تخمینہ لگائیں تو حکومت بڑے مزے سے پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کرسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ نہیں ہے کہ کیا حکومت اور ایسی حکومت یہ کام کرسکے گی جو عوام کی فلاح کے بجائے ان کی تنقید سے بچنے کے لیے راستے تلاش کرتی ہو۔