کسانوں کا احتجاج

421

ہمارے قومی کردار میں قول و فعل کے تضاد کا ایک مظہر یہ ہے کہ اب بھی سرکاری سطح پر یوم مئی کی چھٹی منائی جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکومت بنانے والی دو جماعتوں کے سربراہوں نے یکم مئی کو خاص اہتمام سے منایا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے لاہور میں اپنا پورا دن مزدوروں کے ہم راہ گزارنے کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ انہیں مزدور کو درپیش مسائل کا ادراک ہے۔ حکومت آئندہ بجٹ میں مزدوروں کو ریلیف دینے کے لیے ہر قدم اٹھائے گی جبکہ دوسری بڑی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کراچی میں یوم مئی کی تقریب سے خطاب کیا انہوں نے حکومت کی نجکاری کی پالیسی کی مخالفت کی۔ یوم مئی سرمایہ دارانہ استحصالی عوام دشمن نظام کے خلاف مزدوروں اور کسانوں کی جنگ کا علامتی دن ہے۔ پاکستان میں یوم مئی اس حالت میں منایا گیا ہے کہ پنجاب کے کسان لاہور کی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، ان پر لاٹھی چارج اور ان کو گرفتار کیا جارہا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ گندم کی فصل تیار ہے، چھوٹے کسانوں کو جو بنیادی غذائی جنس گندم اگاتے ہیں انہیں اپنی فصل کی قیمت نہیں مل رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گندم کی فصل کی تیاری سے کچھ دنوں پہلے ہی حکومت نے نجی شعبے کے سرمایہ داروں کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی جس کی وجہ سے پنجاب حکومت نے گندم کی خریداری سے انکار کردیا۔ ایک طرف عام آدمی آٹا اور روٹی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہے، اس لیے کہ کھاد، کیڑے مار ادویات، ٹیوب ویل چلانے کے لیے ڈیزل سب مہنگے داموں مل رہے ہیں جس نے کسانوں کی پیداواری لاگت بڑھادی ہے۔ چھوٹے کسان کو گندم کی واجبی قیمت بھی نہیں مل رہی ہے اور عام آدمی سستی روٹی سے محروم ہے۔ پنجاب کے وزیر زراعت نے صوبائی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق نگراں حکومت کے دور میں گندم کی درآمد کی اجازت دی گئی تھی۔ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں وافر گندم کی موجودگی بحران بن گیا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور ان کی حکومت نے سابق نگراں حکومت کو غیر ضروری طور پر گندم کی خریداری کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے رکن میاں مشتاق کو انکوائری افسر مقرر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اضافی گندم کی درآمد سے ملک کو 300 ارب کا نقصان ہوگیا ہے۔ سابق نگراں حکومت بھی پی ڈی ایم حکومت کا تسلسل تھی اور موجودہ اتحادی حکومت بھی نگراں حکومت کا تسلسل ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مل کر نگراں حکومت کے وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ انوار الحق کاکڑ، محسن نقوی اور سرفراز بگٹی کو اپنے ووٹ دے کر منتخب کرایا ہے۔ جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی کو تو خود مسلم لیگ ن کے حلقے اصل وزیراعظم قرار دیتے ہیں۔ جب بڑی سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بدعنوانی اور استحصالی لوٹ مار کی معاون ہوجائیں تو انجام یہی ہوگا۔ کسان اپنی فصل کی اجرت سے اور عام مزدور سستی روٹی سے محروم رہے گا۔یوم مئی پر حکمراں جماعت کے نعرے، دعوے اور ان کا عمل سامنے ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو انتہائی سفاکی کے ساتھ حکمراں اشرافیہ قوم پر مسلط کررہی ہے۔ گندم کا بحران اور کسانوں کا احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ ملک کے طاقتور طبقات کو عوام کے حالات اور ان کی بے کسی نظر نہیں آرہی ہے اور وہ ہر قسم کے احتساب سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ حکومت ہو یا نجی شعبہ اسے سرکاری طاقت حاصل ہے کہ وہ جو کچھ چاہے کرے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جب فرانس میں انقلاب آیا تھا جب عوام نے شہزادوں اور شہزادیوں کی گردن کاٹی تھی۔