آئی ایم ایف سے نئے معاہدہ کی کوشش

357

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب وزارت خزانہ کے وفد کے ہمراہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں موجود ہیں جہاں وہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اس کے ملحقہ مالیاتی اداروں کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں، انہوں نے عالمی بینک اور ایشیائی بینک کے صدور کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔ دوسری طرف فوجی سربراہ کی شرکت کے ساتھ سرمایہ کاری کونسل بھی تشکیل دی گئی ہے تا کہ کان کنی اور زراعت سمیت پاکستان کے قدرتی وسائل کو بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے مراعات فراہم کرکے غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کی جاسکے۔ خارجہ تعلقات کے ذریعے تزویراتی تعلقات کو بھی بیرونی سرمایہ کاری کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر ہے، جس کی وجہ سے توقع یہ کی گئی ہے کہ پاکستان کو 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہوجائے گی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ جب ہنگامی طور پر ملک کو مالی ضرورت پڑ جاتی تو ہمارے حکمران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے رابطہ کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن گزشتہ چار عشروں میں جس طرزِ حکمرانی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس نے پاکستانی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ جب بھی ہم ان حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس بھیک مانگنے آئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مدد اور سرمایہ کاری ہنگامی ضرورت تو پوری کرسکتی ہے لیکن معیشت کی بحالی میں کوئی غیر معمولی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ بالخصوص گزشتہ 15 برسوں میں جو حکومتیں رہی ہیں انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچادیا۔ یعنی زرمبادلہ کے ذخائر کی اتنی قلت ہوگئی کہ ملک کا قرضہ ادا کرنے اور اپنی درآمدات کے لیے بھی رقم موجود نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے آئی ایم ایف کے پاس اس مصیبت سے نجات کے لیے جانا ضروری ہوگیا۔ حالانکہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی شرائط پر کیے جانے والے معاہدے ملکی معیشت کی تباہی کا سبب بنے ہیں۔ وزیر خزانہ جن حالات میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں گئے ہیں وہ یہ ہے کہ تین سالہ پروگرام ختم ہوا ہے۔ جس نے پاکستان کے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ملک کو ڈالر کی صورت میں زرمبادلہ کی ضرورت ہے۔ ڈالر کے حصول کے لیے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے۔ زرمبادلہ دو ہی ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک تارکین وطن کی ترسیلات دوسرے برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن اب صورت یہ بن گئی ہے کہ معاشی استحکام کے تمام اشاریے منفی تصویر دکھا رہے ہیں۔ بجٹ خسارہ تو مستقل مسئلہ ہے، یعنی آمدنی اور اخراجات میں فرق ہے۔ پاکستان کی معاشی صورت حال کے بارے میں آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ جاری ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ بجٹ خسارہ رہنے کا امکان ہے۔ ماضی میں حکومت بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے مرکزی بینک سے قرض لے لیتی تھی لیکن آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط نے مرکزی بینک پر حکومت پاکستان کا کنٹرول ختم کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں مرکزی بینک سے براہ راست قرض لینے پر پابندی ہے جس کی وجہ سے حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے تجارتی بینکوں کے رحم و کرم پر ہے، جس سے قرض کی لاگت یعنی شرح سود میں اضافہ ہورہا ہے اور قرض کے بوجھ میں حکومت دبتی چلی آرہی ہے۔ اس پس منظر میں وفاقی وزیر خزانہ نے آتے ہی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے مزید 3 سال کے لیے قرض پروگرام لیں گے۔ انہوں نے واشنگٹن جا کر بھی یہی کہا ہے۔ یعنی حکمرانوں کا ارادہ ہی نہیں ہے کہ کسی طرح آئی ایم ایف کے قرضوں کی جکڑ بندی سے آزادی حاصل کی جائے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم یہ بھی تماشا دیکھ رہے ہیں کہ کسی بھی وزیراعظم کو اپنا وزیر خزانہ منتخب کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں ہے۔ وزرائے خزانہ تعلق تو پاکستان سے رکھتے ہیں لیکن ان کی وفاداری عالمی اقتصادی اداروں سے ہوتی ہے جو عالمی معیشت پر حکمرانی کرنے والے مالیاتی اداروں سے ہوتی ہے، جس میں آئی ایم ایف کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ پاکستان میں عوامی مزاحمت کو سیاسی قیادت کی مفاد پرستی اور بدعنوانی نے کمزور کردیا ہے۔ اس لیے ہر قسم کی شرائط عائد کی جاسکتی ہیں۔ حکمرانوں نے بھی اپنی ناکامی، نااہلی تسلیم کرنے کے بجائے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ ہمیں معیشت کی بحالی کے لیے سخت فیصلے کرنے ہوں گے، لیکن یہ سخت فیصلے پاکستانی عوام ہی کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے 3 سال کے لیے قرضوں کا نیا معاہدہ ہوگا تو اس کے بعد بھی یہی کہا جائے گا کہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔ پٹرول، بجلی، گیس کے نرخوں اور ڈالر کی شرح میں اضافے نے عوام کے حالات کو برباد کردیا ہے۔ یہاں تک کہ متوسط اور خوش حال طبقہ بھی چیخ رہا ہے، اس لیے کہ کاروباری لاگت نے صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری کا سیلاب بھی آگیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں وسیع تر پیمانے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے جس کا مرکزی نکتہ آئی ایم ایف کی سامراجی غلامی اور اس کے آلہ کاروں سے نجات ہو۔ اس کے بغیر معاشی بحالی ممکن نہیں ہے۔ اب تک تو ہم نے یہ دیکھا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے کے بجائے کمزور کرنے کا سبب ہی بنی ہے۔ غیر ملکی کمپنیاں روپے میں کماتی ہیں اور ڈالر میں منافع ملک سے باہر لے جاتی ہیں۔ توانائی کے منصوبوں میں نجکاری کی پالیسی نے گردشی قرضوں کا مسئلہ پیدا کیا، گردشی قرضوں سے نمٹنے کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھائے گئے لیکن گردشی قرض میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ بجلی کی پیداوار کے بارے میں عوام دشمن معاہدے ایک الگ مسئلہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی مہنگی ہونے کے باوجود گردشی قرضہ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے اور ہمارے حکمران نان بائیوں کو روٹی کی قیمت کم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے حکومتی طاقت اور پروپیگنڈا وسائل کا استعمال کررہے ہیں۔ غذائی خود کفالت رکھنے والے ملک کا حال اور نام نہاد ترقی کے نام پر عالمی مالیاتی اداروں سے عوام دشمن معاہدے کیے گئے ہیں اب پھر نئے وزیر خزانہ پاکستان کے کن وسائل کو بیچنے کے لیے واشنگٹن گئے ہوئے ہیں۔