حکومت سندھ کی ناکامی کا اعتراف

322

گزشتہ ۱۵ برس سے مسلسل تسلسل پیپلز پارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے اور جب کوئی چیز مسلسل کسی جگہ پڑی رہے پانی ہی کھڑا رہے تو بدبو اٹھنے لگتی ہے۔ اگر پانی گندا ہو تو تعفن کی انتہا نہیں ہوتی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور اس کے لیڈر ایک متعصب پارٹی کے طور پر سامنے آئے ہیں انہیں صرف اپنی پارٹی وابستگی کا اصول یاد رہتا ہے، چنانچہ سرکاری اداروں میں تقرر، اسمبلیوں کے لیے رکنیت، اہم عہدوں پر تقرر شہری اداروں کا کنٹرول ہر چیز پر اسی پارٹی سے وابستہ یا اس کے ہمدرد لوگوں کو مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سندھ کا بلدیاتی نظام تباہ، امن و امان کا نظام تباہ، سیکریٹریٹ، تعلیم صحت سمیت کوئی نظام سلامت نہیں رہا ہے ہر جگہ پارٹی اقربا پروری اور اپنے علاقے کے لوگوں کی بھرتی کا سلسل ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔ ایسے حالات میں تعفن میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ تعلیم کے نظام کی اصلاح کررہی ہے امن و امان بہتر بنانا چاہتی ہے لیکن اب ڈھٹائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے صاف کہہ دیا ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کا مسئلہ بڑھا چڑھاکر پیش کیا جارہا ہے۔ زندگی کا کاروبار چلتا ہے تو جرائم بھی ہوتے ہیں۔ سندھ کے وزراء نے ایک فرضی دشمن سامنے رکھ کر بیان داغا ہے کہ گورنر آئینی حدود میں رہیں خالد مقبول صدیقی کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ سی سی پی او کراچی کا بیٹا ہے۔ اس قسم کی گفتگو کرکے یہ لوگ اپنے ووٹرز اور ہمنوائوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کی ایم کیو ایم سے کوئی لڑائی ہے اور وہ ایک جدوجہد کرکے سندھ کے عوام کو حقوق دلوانا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومت کی نااہلی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کیا فرمارہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آرمی طرز کا اسلحہ ڈاکوئوں کے پاس کیسے پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا انہوں نے ڈاکو راج کے خاتمے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکوئوں کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے گا۔ اب سندھ کے وزیر داخلہ کیا فرمائیں گے جب وزیراعلیٰ نے کراچی سے باہر کے دوسرے شہروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، شکارپور اور سکھر میں صورتحال انتہائی خراب ہے۔ تو کیا وزیراعلیٰ بھی امن و امان کی خرابی کو بڑھا چڑھاکر بیان کررہے ہیں۔ یہی وہ تعفن ہے جو مسلسل ایک پارٹی کی دھونس دھاندلی کے ذریعے حکومت بننے کے نتیجے میں اب ہر ادارے اور پورے نظام سے اٹھ رہا ہے اگر کوئی سیاسی جماعت یا لیڈر حکومت سندھ کے تعصب کا پردہ چاک کرے تو کہا جاتا ہے کہ تعصب کی بات نہ کی جائے۔ پھر یہ سندھ دھرتی کی باتیں کرنے لگتے ہیں لیکن اب تو وزیراعلیٰ نے بھی کہہ دیا کہ پورے سندھ ہی میں امن کی حالت بہت خراب ہے تو پھر کس طرح حالات پر قابو پایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ یہ بھی بتارہے ہیں کہ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں کہ آرمی جیسا اسلحہ ڈاکوئوں کے ہاتھ کیسے لگ گیا۔ جناب کے دور میں جرائم پیشہ گروہوں اور حکومت کے وزراء اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان باقاعدہ مفاہمت ہے کہ ان کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے دیا جائے۔ سندھ کے ڈاکوئوں کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے یہ ڈاکو ڈاکے مارتے ہیں تو کچے میں رہتے ہیں ورنہ پکے میں آکر سرکار بن جاتے ہیں کام دونوں ایک ہی کرتے ہیں۔سندھ کے ڈاکوئوں سے مذاکرات پیپلز پارٹی کے رہنما ہی کرتے رہے ہیں۔ لوگوں کے اغواء برائے تاوان کے معاملات ڈاکوئوں کی آسانی کے لیے ان کی مرضی کے مطابق طے کراتے تھے۔ وزیراعلیٰ کو اتنی ساداسی بات سمجھ نہیں آرہی حالانکہ جن ڈاکوئوں کو حکومت آسانیاں دے گی وہ ہر طرح کی آسانی حاصل کریں گے۔ اس وقت تو مرکز اور صوبوں سمیت ہر جگہ صرف 9 مئی کے ملزمان کی بو سونگھتے ہوئے کارروائیاں ہورہی ہیں باقی ڈاکوئوں کو کھلی چھوٹ تھی۔ وزیراعلیٰ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ہمارے آخری دور کے اختتام کے دنوں میں صوبے میں امن و امان خراب تھا اور نگراں دور میں مزید خراب ہوا اور یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ نگراں حکومتوں کے دور میں جرائم پیشہ عناصر پر پرزے نکالتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے جن شہروں میں امن کی خراب ترین صورتحال کا اعتراف کیا ہے ان میں شکارپور بھی ہے جہاں ڈاکوئوں نے پولیس موبائل پر راکٹوں سے حملہ کردیا۔ جس سے ۵ اہلکار زخمی ہوگئے۔ وزیراعلیٰ اگر حساب کتاب لے کر بیٹھیں تو پتا چلے گا کہ سیکورٹی اداروں کے پاس بجٹ بھی بہت ہے اور نفری بھی معقول ہے لیکن جب ہزاروں پولیس اہلکار اور سینکڑوں پولیس گاڑیاں وزراء، ارکان اسمبلی اور شاہی خاندان کے لوگوں کے تحفظ پر مامور ہوں گی ان کا سارا خرچ سرکار ادا کررہی ہوگی تو گشت کرنے والے اہلکاروں کے پاس پیٹرول کے پیسے ہی نہیں بچتے پھر وہ گشت کے لیے پیٹرول بھی چوری سے لیتے ہیں ایسی پولیس مراعات یافتہ ڈاکوئوں کا مقابلہ کیسے کرے گی۔ وزیراعلیٰ صاحب یہ بھی تو بتادیں کہ ڈاکوئوں کو مراعات کس نے دی ہیں۔ فی الحال امن و امان کا معاملہ زیر بحث ہے۔ تعلیم اور صحت کا بھی بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ مقامی اور غیر مقامی عملے کی بھرتیوں کا معاملہ بھی الگ ہے۔ حتیٰ کہ افسران کے بعد اب ڈیلی ویجز ملازمین بھی دوسرے علاقوں سے لاکر بھرتی کیے جانے کی اطلاعات ہیں ان کو جلد از جلد کراچی کا ڈومیسائل بنانے کی ہدایت ہے۔ جب حکومتی سطح پر یہ بے ضابطگیاں ہوں گی تو صوبے کا امن خراب ہی ہوگا۔ وزیر داخلہ سندھ اور وزیراعلیٰ کے ساتھ تاجر برادری نے بھی امن و امان پر تشویش ظاہر کی ہے کہیں ان سب باتوں کا تعلق رینجرز کی موجودگی کی مدت میں اضافے یا فوج کو سندھ میں نیا کام دینے سے تو نہیں ہے؟