…آزادی اظہار کچھ حدود تو ہیں

378

پاکستان میں آزادی اظہار ایک ایسا مسئلہ بن گئی ہے کہ اس کی تعریف ہی گنجلک ہوگئی ہے۔ کسی کے نزدیک اسلام، مولوی، سنت رسولؐ اور اسلامی احکامات کے خلاف ہرزہ سرائی آزادی اظہار ہے کسی کے نزدیک ملک بانیٔ پاکستان اور نظریے کے خلاف بات کرنا آزادی اظہار ہے۔ اور اب دنیا تو اس قدر ترقی کرگئی ہے کہ بعض ممالک میں ہر طرح کی بات کرنا آزادی اظہار میں شامل ہے لیکن صنفی امتیاز کی بو بھی کسی کے جملے میں آجائے۔ کسی کی رنگت کا ذکر آجائے۔ جانوروں کے رویوں سے انسان کو تشبیہ دینے اور کسی پر تبصرہ کرنے پر بھی گرفت ہوجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا نے اظہار رائے کے بارے میں رائے کے اظہار کی صلاحیت دینے والے کو نظر انداز کردیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک سوال کیا ہے کہ حکومتیں آزادی اظہار سے کیوں گھبراتی ہیں۔ اور ساتھ ہی کہا ہے کہ صحافیوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔ آزادی اظہار سے تو احتساب ہونا ہے۔ ایک عام پاکستانی سمیت سیاسی رہنما بھی اس بارے میں پریشان ہیں کہ آزادی اظہار کی حدود کیا ہیں۔ عدالت نے صحافیوں کو آزادی اظہار سے روکنے کے حکومتوں کے رویے کو غلط قرار دیا ہے اور انہیں ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ لیکن یہی حکومتیں یا سیاستدان جب عدلیہ، فوج اور دیگر حساس اداروں اور افراد پر تنقید کرتے ہیں یا ان کا احتساب کرتے ہیں تو انہیں توہین عدالت اور غداری جیسے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تازہ مثال پاک فوج کے سربراہ کے تقرر سے متعلق سابق وزیراعظم کے بیان کی ہے۔ ایک جانب عمران خان اسے اپنا اظہار رائے کا حق سمجھتے ہیں اور دوسری جانب اسے ملک سے غداری تصور کیا جاتا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی ملک میں مارشل لا لگایا جاتا ہے تو سیاسی رہنمائوں کے بارے میں سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن الزام لگانے والوں کو کوئی غدار قرار نہیں دیتا۔ اس طرح اگر عدلیہ کے کسی فیصلے پر گرفت کی جائے یا تنقید کی جائے تو تنقید کرنے والے کی گرفت ہوجاتی ہے۔ اگرچہ توہین عدالت کے الزام پر معافی تلافی سے بات بن جاتی ہے لیکن جن سیاستدانوں پر الزامات سچ ثابت نہیں کیے جاسکے یا الزامات غلط ہوتے تھے۔ انہوں نے کبھی الزام لگانے والوں پر ہتک عزت کا مقدمہ نہیں کیا۔ شاید ان کی قوت اور مرتبے کی وجہ سے!! ہاں یہی سیاستدان صحافیوں کی پٹائی کردیتے ہیں، خفیہ ادارے ان کو لاپتا کردیتے ہیں۔ آزادی اظہار ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی طور حل نہیں ہورہا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومتوں کو متنبہ ضرور کیا ہے کہ آزادی اظہار پر قدغن نہ لگائیں اور یہ درست بات بھی ہے لیکن یہ تالی دونوں ہاتھوں ہی سے بجتی ہے۔ اگر آزادی اظہار کا غلط استعمال ہوگا تو جواباً کوئی نہ کوئی اقدام ہوگا، یہی صورت حال قانونی مسئلے میں بھی ہے، اس کی کوئی ایسی واضح تعریف نہیں ہوسکی ہے کہ کوئی واضح لکیر کھینچ دی جائے۔ قانونی لغت کہتی ہے کہ آزادی اظہار رائے سے مراد خیالات کا بلا روک ٹوک اظہار خواہ یہ زبانی، تحریری، طبع شدہ یا کسی اور ذریعہ سے ہو۔ لیکن اگر صرف جھوٹ پر مبنی اظہار رائے ہو اور وہ بھی مذہب کے خلاف تو اسے توہین مذہب کہا جائے گا آزادی اظہار نہیں۔ اس آزادی کے دو پہلو ہیں، خصوصاً مغرب کے معیارات اس معاملے میں دوہرے ہیں بلکہ معیار تو ہے ہی نہیں، اگر پیغمبر اسلام کی توہین کی جائے یا اسلام کی، تو یہ آزادی اظہار ہے اور اگر ہولوکاسٹ کے بارے میں شبہات کا اظہار بھی کردیا جائے تو کرنے والا قابل گردن زدنی۔ لیکن سردست پاکستان میں یہ مسئلہ ایسا ہوگیا ہے کہ اس بارے میں جو حکمران اور طاقتور ادارے فرمادیں وہی قانون ہوتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں نہایت سنجیدگی سے اس کے بارے میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس آزادی اظہار پر سب سے زیادہ صحافی نشانہ بنتے ہیں۔ اس کے بعد سیاستدان اور کہیں کہیں عدلیہ اور فوج کے ذمے داران۔ لیکن جب تک اس کی تعریف اور حدود کا تعین نہیں ہوگا یہ مسائل پارلیمنٹ اور قومی سیاستدانوں سے سنجیدہ طرز عمل کا تقاضا کرتے رہیں گے۔ وہ اپنے اقتدار کے دوران اس جانب نہیں سوچتے جیسا کہ عمران کان نے نہیں سوچا، لیکن بعد میں اس خلا یا اس جھول کا نتیجہ خود بھگتے ہیں۔ لہٰذا اس کو محض ایک چھوٹا سا مسئلہ نہ سمجھا جائے اس پر جلد از جلد ٹھوس قانون سازی کی جائے۔