…طور طریقے حکمراں بدلیں

909

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ اسے طور طریقے بدل کر محدود وسائل میں رہنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے قوم کو وہ اطلاع دی ہے جو اسے پہلے ہی معلوم ہے، یعنی مہنگائی ملکی تاریخ کی 47 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے قوم کو یہ اطلاع بھی دی کہ افراط زر کی شرح میں اضافے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے اپنے وزیراعظم اور پی ڈی ایم کے تمام دعوئوں کی تردید کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ ایک سال میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے دیگر رہنما یہ کہتے پھر رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے نتیجے میں ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا اب اگلی منزل خود انحصاری کی ہے۔ خود وزیر خزانہ خود انحصاری کا درس دے رہے تھے۔ اب کیا ہوگیا کہ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ایک سال میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ ظاہر ہے جس قسم کے دعوے یہ لوگ کررہے تھے وہ ناممکنات تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی انتخابی جلسہ ہورہا ہے، بڑھ چڑھ کر دعوے کرنے والا ہی کامیاب ہوگا۔ کچھ روز قبل شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل دونوں فرمارہے تھے کہ دو ماہ میں قیمتیں نیچے آجائیں گی۔ لیکن اب وزیرخزانہ اطلاع بلکہ دھمکی دے رہے ہیں کہ افراط زر بڑھنے کا خدشہ ہے۔ یعنی افراط زر بڑھنے کا مطلب مہنگائی میں مزید اضافہ ہے۔ اگر ابھی مہنگائی 47 سال کی بلند ترین سطح پر ہے تو افراط زر بڑھنے کے بعد کیا حال ہوگا۔ اس شرح کے مکمل ذمے دار شہباز شریف اور ان کے ساتھی نہیں بلکہ ان سے قبل عمران خان بھی ہیں اور ان سے قبل زرداری اور نواز شریف بھی۔ یہ سب لوگ اسی قسم کے دعوے کرتے تھے اور اپنی حکومت کی مدت پوری ہونے یا حکومت سے نکالے جانے کے بعد یہی کہتے ہیں کہ پانچ سال میں یا چار سال میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ تو شہباز شریف کے وزیر خزانہ کے لیے یہ کہنا تو جائز ہے کہ ایک سال میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی حکمرانوں اور عوام کا معاملہ یہ ہے کہ جتنے ہوشیار چالاک یا عیار حکمران ہیں اتنے ہی سادہ اور چھوٹی یادداشت والے عوام ہیں۔ یہ حکمران یہ تاثر دیتے ہیں کہ پچھلے والوں کی پالیسی ٹھیک نہیں تھی ہم آئیں گے تو سب ٹھیک کردیں گے۔ یہاں تک کہ تمام خرابیاں پیدا کرکے کراچی کو کرچی کرچی کرنے والی ایم کیو ایم کے باقیات میں سے مصطفی کمال کا نعرہ ہے کہ ہم سب ٹھیک کردیں گے۔ ارے خرابی بھی تو خود ہی کی تھی، پاکستان میں 1988ء کی پیپلز پارٹی کی حکومت اس کے بعد نواز شریف اور پھر بے نظیر اور پھر نواز شریف کی باریاں ایک ہی پالیسی کا تسلسل تھیں اور یہ حقیقت بھی محل نظر رہنی چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف کا دور بھی ان ہی ادوار کا تسلسل تھا۔ یہاں تک کہ جنرل پرویز کی (ق) لیگ بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ملغوبہ تھی۔ اور پھر اس ملغوبے سمیت تینوں پارٹیوں کا کچرا پی ٹی آئی میں شامل ہوگیا۔ اس اعتبار سے ملک کی تباہی اور خرابیوں کا سارا نظام ایک ہی تسلسل ہے۔ لہٰذا ان میں سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پچھلے والوں نے خرابی کی تھی ہم ٹھیک کردیں گے۔ ہاں مفتاح اسماعیل نے قوم کو طور طریقے بدل کر محدود وسائل میں رہنے کا جو مشورہ دیا ہے یہاں انہوں نے بھیانک مذاق کیا ہے۔ ارے قوم کے طور طریقے تو ان حکمرانوں کی وجہ سے بری طرح تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان کے وسائل اس قدر کم کردیئے ہیں کہ جو قوم مہمان کے آنے پر خوش ہوا کرتی تھی اب مہمان کی آمد کا سن کر گھر والوں کو پسینے چھوٹ جاتے ہیں کیوں کہ مزاج اور روایت تو یہی ہے کہ مہمان کا اکرام کیا جائے لیکن کیسے… جیب ہی اجازت نہیں دیتی۔ صرف بجلی کا بل دیکھ لیں اس کے ذریعے قوم کو کنگال کیا جارہا ہے۔ ٹیکس پر ٹیکس لگانے کے بعد مہنگائی کا کوڑا الگ برسایا جاتا ہے۔ قوم کے طور طریقے تو کب کے بدل گئے۔ تین وقت کھانا اور ایک وقت شام کی چائے کے ساتھ ناشتہ کرنے والے اب بمشکل دو وقت کھا پاتے ہیں اور بہت سے گھروں میں تو ایک ہی وقت کھانا ہوتا ہے۔ یہ جو سیلانی اور دیگر عوامی دسترخوانوں پر لوگ کھانا کھالیتے ہیں کیا وہ سب انتہائی غریب ہیں۔ نہیں ان میں بہت سے سفید پوش بھی سر جھکا کر کھانا کھالیتے ہیں کہ کم از کم گھر کے ایک فرد کا خرچہ تو کم ہوجائے۔ اصل طور طریقے تو حکمرانوں کے بدلنے کی ضرورت ہے۔ آج پورا ملک سیلاب میں گھرا ہوا ہے، لیکن لندن میں اجلاس اور غیر ملکی دورے جاری ہیں، اپنے ملک میں بھی طور طریقے نہیں بدلے۔ پجارو، حویلی، دس دس گاڑیوں کا قافلہ، مسلح پرائیویٹ گارڈز اور عوام سے فاصلہ اکڑی ہوئی گردن۔ ان کے طور طریقوں میں کون سی تبدیلی آگئی ہے۔ وہ تو پہلے سے زیادہ اکڑکر چلتے ہیں۔ طور طریقے حکمرانوں کے بدلنے کی ضرورت ہے، عوام کے نہیں۔ عوام تو حکمرانوں کے طور طریقوں پر چلتے ہیں۔