ٹائیگر فورس کیا کرے گی

1075

وزیراعظم پاکستان نے حسب توقع ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں لاک ڈائون کے اعلان سے انکار کرتے ہوئے کورونا کا مقابلہ ایمان، ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ اور بین الاقوامی قرضوں سے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بحث بھی اب فضول ہے کہ کورونا کی شدت کتنی رہ گئی ہے اور گرمی سے جرثومہ کس حد تک زندہ رہے گا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بیماری اور خوف کے سبب دنیا بھر کی طرح پاکستان کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کو بحال کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے لیکن وزیراعظم جس طرح کے اقدامات اور اعلانات کر رہے ہیں وہ مرغی، انڈوں اور کٹوں سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹائیگر فورس لوگوں کو گھر گھر جا کر خوراک مہیا کرے گی۔ یہ بات بار بار بتائی جا رہی ہے کہ ٹائیگر فورس کو ان گھروں کا پتا کون بتائے گا جہاں ضرورت مند رہتے ہیں۔ اصل خرابی تو یہی ہے کہ حکومت کو پتا ہی نہیں کہ ضرورت مند کون ہے اور پیشہ ور کون… وزیراعظم عمران خان نے تو حد ہی کردی… کہتے ہیں کہ ہم این جی اوز کو بتائیں گے کہ پیسے کہاں اور کیسے خرچ کرنے ہیں۔ معاف کیجیے وزیراعظم صاحب این جی اوز کے پاس ضرورتمندوں کے اعداد و شمار، ان کے پتے، ان کے گھروں کے راستے، سب کچھ ہیں۔ کراچی سے گلگت تک یہ لوگ ضرورت مندوں تک پہنچ کر ان کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ان کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ الخدمت ہی کی مثال لے لیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے 30 مارچ تک کی رپورت دی ہے کہ الخدمت نے 42 کروڑ کا راشن، ماسک اور سینی ٹائزر تقسیم کر دیے ہیں۔ پورے ملک میں ہزاروں کارکن بلا امتیاز رنگ و نسل عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ بہرحال وزیراعظم نے جس ٹائیگر فورس کا اعلان کیا ہے اس کے بارے میں ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ رضا کار فورس ہوگی یا ان کو باقاعدہ بھرتی کیا جائے گا۔ لیکن یہ بات تو یقینی ہے کہ تحریک انصاف کے پاس یہ فورس رہے گی۔ دو تین ماہ بعد کورونا کا خاتمہ ہو جائے گا پھر یہ فورس کہاں استعمال ہوگی۔ اگر یہ رضا کار کسی مالی مفاد کے بغیر حکومت کے ساتھ رہے تو شاید کوئی بھلائی کا کام ہو جائے لیکن حکومتوں کی جانب سے بنائی گئی فورسز خطرناک ہوتی ہیں۔ مثلاً ٹریفک وارڈنز جو رضا کار بھی تھے اور تنخواہ دار بھی۔ ان کی کارکردگی سب کو معلوم ہے یہ دہشت گردی میں بھی استعمال ہوتے رہے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے فیڈرل سیکورٹی فورس بنائی جو بعد میں سرکاری دہشت گرد فورس بن گئی۔ شیخ مجیب کی مکتی باہنی بھی مشرقی پاکستان میں دہشت کی علامت رہی۔ اقتدار میں آنے کے بعد تو اس فورس نے قیامتیں ڈھا دیں۔ لہٰذا فورسز کے قیام کے حوالے سے باقاعدہ قانون ہونا چاہیے تاکہ یہ فورسز پارٹی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو سکیں۔ جہاں تک ریلیف فنڈ کے قیام کا تعلق ہے تو وزیراعظم خود اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوم کا حکمرانوں پر اعتماد نہیں ہوتا۔ جس طرح ڈیم فنڈ غیر موثر ثابت ہوا اسی طرح یہ ریلیف فنڈ بھی غیر موثر رہے گا۔ وزیراعظم تقریروں اور سطحی اقدامات سے نکل کر پورے ملک کی سیاسی اور صوبائی حکومتوں کی قیادتوں کو اعتماد میں لیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل طے کریں۔ ایک بات اور اہم ہے کہ پورے ملک میں احتیاطی تدابیر سے متعلق آگہی کی مہم چلائی جائے لیکن میڈیا کو خوف پھیلانے سے روکا جائے۔ 22 کروڑ کے ملک میں ایک بیماری سے 25 آدمی مر جائیں تو یہ خوف کی علامت نہیں بننا چاہیے۔