حراستی مراکز کا خاتمہ مستحسن اقدام

231

پشاور ہائیکورٹ نے کے پی کے میں قائم حراستی مراکز ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور گورنر کا آرڈیننس کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے آئی جی پولیس خیبر پختونخوا کو تمام حراستی مراکز اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے۔ اس فیصلے کی اہم بات یہ ہے کہ تمام گرفتار افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں گزشتہ دس سال سے مختلف علاقوں سے لوگوں کو غائب کردیا جاتا ہے اور کبھی کبھار ان کی کسی حراستی مراکز میں موجودگی کی اطلاع ملتی ہے۔ یہ حراستی مراکز آرڈیننس گورنر سرحد نے 2011ء میں جاری کیا تھا۔ اسے ایکشنز ان ایڈ آف سول پاو ر ریگولیشن کا عجیب و غریب نام دیا گیا تھا۔ بہرحال دیر آید درست آید عدالت نے اسے کالعدم قرار دیا ہے لیکن ابھی بہت سے کام باقی ہیں۔ سب سے پہلے آئی جی کے پی کے ان تمام افراد کی فہرست جاری کریں جو ان حراستی مراکز میں ہیں۔ ملک بھر میں جو لوگ پریشان ہیں ان کے اہلخانہ کو ان حراستی مراکز تک رسائی دی جائے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ان کے پیارے کہاں ہیں۔ مزید یہ کہ حراستی مراکز کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قانون نافذ کرنے والوں کا اس قانون شکن اقدام کے لیے یہ عذر سامنے آتا ہے کہ بسا اوقات دہشت گرد پیچیدہ اور کمزور عدالتی نظام کا فائدہ اٹھا کر ضمانتیں کرا لیتے ہیں۔ لیکن اب 8 برس بعد عدالت نے بھی تو وہی کیا جس خدشے کے پیش نظر حراستی مراکز بنائے گئے تھے۔ اگر انہیں اس کا خدشہ تھا تو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمہ چلا لیتے، سزا دلواتے پھر جس کیس میں اپیل ہوتی اس کو متعلقہ عدالتیں سن لیتیں۔ یوں بھی 8 برس میں تو پیچیدہ عدالتی نظام سے بھی درجنوں دہشت گردوں کو سزائیں دلوائی جا چکی ہوتیں۔ اس آرڈیننس کو چیلنج کرنے والے وکیل کا یہ موقف بھی بالکل درست تھا کہ اس کے مطابق حراستی مراکز کے افسر کے بیان کو قانون شہادت ایکٹ کے برعکس مشتبہ شخص کے خلاف شواہد کے طور پر قبول کیا جاسکتا تھا اور اس کی بنیاد پر انہیں سزا بھی ہو سکتی تھی۔ پھر عدالتی نظام اور انصاف کے تقاضے کہاں گئے۔ اس سے قبل بھی ایسی جتنی بھی سزائیں فوجی عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے دی ہیں انہیں چیلنج کیا گیا ہے۔ سول عدالتوں نے یہی ریمارکس دے کر ان کی سماعت کی ہے کہ ان مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ حیرت انگیز طور پر جنرل پرویز پر حملے کے مقدمے میں تمام ملزمان سول عدالت سے بری ہوئے جبکہ ان سب کو مجرم قرار دے کر سزائے موت کا پروانہ تھما دیا گیا تھا۔ جو ذہنی سطح ہماری پولیس کی ہے اور جس قسم کے مقدمات وہ بناتے ہیں دیگر خفیہ ایجنسیاں تو اتنی ذہنی صلاحیت بھی نہیں رکھتیں۔ بے سروپا قسم کے مقدمات بناتی ہیں اور پھر کوئی ثبوت نہیں لا سکتیں۔ یہ قومی اسمبلی اور حکومت کی ذمے داری ہے کہ آئین سے ماورا کسی آرڈیننس کو منظور نہ ہونے دیں اور عدالتوں کو جلد فیصلے کرنے کا پابند بنائیں۔ ایسے آرڈیننس حراستی مراکز اور آئین سے ماورا اختیارات ملک میں جمہوریت کا نہیں آمریت کا پتا دے رہے ہیں۔