کل پاکستان اجتماع عام جماعت اسلامی پاکستان(باب یازدہم)

279

 

 

گول میز کانفرنس کی کامیابی۔ مطالبات منظور
گول میز کانفرنس ۱۳؍ مارچ ۱۹۶۹ء کو ان دو امور پر اتفاق رائے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
۱۔پارلیمانی نظام بحال کیا جائے گا۔
۲۔آئندہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوں گے ان کے علاوہ حزب اختلاف کے اضافی مطالبات بھی مان لیے گئے۔ ان میں ون یونٹ کا خاتمہ‘ دفاع‘امور خارجہ اور بعض شرائط کے ساتھ کرنسی کے سوا تمام معاملات صوبوں کے سپرد کرنا شامل تھے۔
مجیب‘بھٹو اور بھاشانی کے غیر جمہوری رویے
ایوب خاں نے ایک عبوری حکومت کا مطالبہ بھی تسلیم کرلیا تھا لیکن شیخ مجیب الرحمن اپنے سخت گیر اور بے لچک موقف پر ڈٹے رہے اور جمہوری مجلس عمل سے الگ ہوگئے۔مجیب الرحمن اسمبلی میں آبادی کی بنیاد پر نمائندگی‘ مرکز کو ٹیکس لگانے کے حق سے محروم کرنا، دار الحکومت اور سپریم کورٹ کو ڈھاکہ منتقل اور مشرقی پاکستان کا نام پوربودیش رکھنا چاہتے تھے۔
ادھر ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خاں نے جسٹس پارٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا۔۱۷؍ مارچ کو پیپلز پارٹی کے چیئر مین مسٹر بھٹو نے بائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ متحد ہو کر موجودہ نظام کو ختم کردیں۔
کامریڈ بھاشانی مشرقی پاکستان میں اور مسٹر بھٹو نے مغربی پاکستان میں اقتدار کی کرسی تک جلد پہنچنے کے لیے بدامنی انتشار اور لاقانونیت کا راستہ اپنایا۔ بھاشانی نے کہا کہ ان کی پارٹی کے لوگ انتخابات میں حصہ لینے والوں کا گھیراؤ کریں گے اور انھیں قتل کریں گے اور ا ن کے گھروں کو جلادیں گے۔ بائیں بازو کے ان شرپسند وں نے مشرقی
پاکستان کے مختلف علاقوں میں خصوصاً پاربتی پور میں غیر بنگالیوں کے کوئی تین ہزار مکانات اور جھونپڑیاں جلادیے اور بعض جگہ انھیں درختوں کے ساتھ لٹکا کر ان کے ہاتھ پاؤں میں میخیں ٹھونکیں۔ کئی افراد کی کھال اتاری گئی وہاں کرفیو نافذ کردیاگیا۔ نظم و نسق کا یہ حال ہوگیا کہ ہجوم نے ڈھاکہ کے ہوائی اڈے کا گھیراؤ کرلیا وہ کسی جہاز کو نہ اڑنے دیتے تھے اور نہ ہی جہاز کو اترنے دیتے تھے۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ مشرقی پاکستان کے گورنر مفعم خاں دوماہ کی رخصت لے کر کراچی آگئے۔
ادھر مغربی پاکستان میں بھٹو نے کہا کہ ایوب خاں کو فوراً مستعفی ہو جانا چاہیے۔ انھوں نے مزدوروں کو ورغلا کر کراچی میں کارخانوں پر مزدوروں کے قبضے کرادیے۔ پیپلز پارٹی نے بھی بھاشانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہنگامے اور جلاؤ گھراؤ شروع کردیا۔
مارشل لا کا جمہوریت پر دوسرا شب خون
ملک کے ان حالات میں ایوب خاں نے ۲۵؍ مارچ ۱۹۶۹ء کو استعفیٰ دے دیا اور جس طرح انھوں نے اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ایوان صدر کراچی میں فوجی جنرلوں کے سہارے غیر قانونی طور پر بزور طاقت اقتدار حاصل کیا گیا۔ اسی طرح اقتدار اس وقت کے بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خاں کے حوالے کرکے اقتدار سے الگ ہوگئے یا کردیے گئے کیونکہ یحییٰ خاں نے ۱۹۶۸ء سے ہی سازشی سیاستدانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنے اقتدار کے لیے راہ ہموار کردی تھی۔ایوب خاں کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ یحییٰ خاں کو اقتدار سونپ کر جوکہ وہ ہر قیمت پر حاصل کرنے کے خواہاں تھے، فوج کی حفاظت میں آجائیں اور قوم کے احتساب سے بچ نکلیں۔ ایوب خان سراسر غیر آئینی اور غیر قانونی طورپر چور دروازے سے اقتدار جنرل یحییٰ خاں کو جوفوج کے کمانڈر انچیف تھے‘ سونپ کر خود گوشہ عافیت میں جا بیٹھے اور ملک کو ایک بار پھر مارشل لا کے چنگل میں پھنسا دیا۔حالانکہ ایوب خاں کو اپنے ہی بنائے ہوئے ۱۹۶۲ء کے آئین کے تحت پارلیمنٹ کے اسپیکر کو اقتدار سونپنا چاہیے تھا جو قائمقام صدر کی حیثیت سے نئے انتخابات کے انعقاد کا آئینی طور پر ذمہ دار ہوتا۔
(جاری ہے)