اہم بلاگز

فادرز ڈے

حدیث پاک میں ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے شاعر نے کیا خوب کہا ہے، مجھ...

مشکل فیصلے

بحیثیت فرض شناس پاکستانی قوم ہم نے کبھی اس بات کا عمیق مطالعہ ومشاہدہ کیا ہے کہ جب کبھی ارض مقدس پاکستان معاشی مشکلات...

غریب ڈیفالٹ کرگیا

سابق حکمرانوں نے جو عوامی مقبولیت پونے چار سالوں میں کھوئی، موجودہ حکمرانوں نے محض چند ماہ میں کھودی۔ شہری سمجھتے تھے کہ شاید...

گالی گلوچ کا بڑھتا رجحان

گالی گلوچ کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب سے ہم سب باخوبی واقف ہیں۔ گالی گفتگو کی وہ قسم ہے جس میں کسی...

ہائے ! غریب الوطنی

علی الصبح بیدار ہونا ، گھر والوں کے ساتھ ناشتہ اور پھر اپنے کام پر روانہ ہونا۔ گھر کے بچوں کا اسکول کالج یونیورسٹی...

بچے یا اچھے بچے

اللہ پاک کے فضل و احسان بے انتہا ہیں ان کا کوئی شمار نہیں اس نے ہمیں مسلمان بنایا۔ اپنے آخری نبی کا امتی...

تھام لے ہر انسان ترازو

رکئیے ! ٹھہرئیے ذرا مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ آپ کی مزاج پرسی کرنی ہے۔ مالی مسائل نے آپ کو پریشان کر رکھا...

چائے کی پیالی

تھکن سے چور ہو کر ایک مزدور چائے کی پیالی کی طرف بڑھتا ہے کہ اپنی تھکاوٹ دور کر سکے، ارے یہ کیا؟ احسن...

حُبِ رسول صل اللہ علیہ وسلم

بھارت میں گستاخی کے واقعے کے بعد دل بہت مضطرب تھا، بے قراری اور اضطراب کی اسی حالت میں سیرت کے سنہری اوراق سے...

تعلیمی اداروں میں موسیقی کی کلاس

خبر ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں موسیقی کی کلاس شروع کی جا رہی ہے۔ میوزک ٹیچرز کو ابھی سے بہت سی مراعات سے...

اہم بلاگز

یوم تجدید عہد، 28 مئی

مئی 1998 میں بھارت نے ایٹمی تجربات کیے اور جوہری طاقت حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا جوہری طاقت بنتے ہی بھارت کے غرور اور تکبر میں اضافہ ہو گیا اس  نے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ سرحدوں پر نہتےپاکستانی عوام پر بلا جواز فائرنگ معمول بن گئی ۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کا رویہ قیام پاکستان سے ہی معاندانہ رہا ہے ۔بھارت پاکستان دشمنی کا کوئی موقع  ہاتھ سے نہ جانے دیتا ۔ بھارت کا جارحانہ انداز  خطے میں امن و امان کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا اس جارحانہ رویے کی وجہ سے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ نہ صرف اس کے تعلقات خراب رہتے تھے بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تین بڑی جنگوں کی وجہ بھی بھارت کا یہ رویہ ہی بنا مگر اس بار بھارت کی جارحیت جوہری طاقت حاصل کرنے کی وجہ سے کچھ زیادہ بڑھ گئی تھی اس کا جواب دینے کے لیے پاکستان کی عسکری طاقتوں نے کمر کس لی اور پاکستان کے جوہری پروگرام کو تکمیل تک پہنچانے کی ٹھان لی۔  پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان ایک طویل عرصے سے تحقیق اور تجربات کے ذریعے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے اب بہترین موقع تھا کہ بھارت کے جارحانہ عزائم کو لگام دی جائے چنانچہ 28 مئی 1998 کو صوبہ بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے اپنی جوہری طاقت ہونے کا اعلان کر دیا۔  28 مئی کے اقدام سے پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ پاکستان کی جوہری طاقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے ان مسلمانوں کے لیے امید اور تحفظ کا پیغام تھا جو ظلم کی چکی میں پس رہے تھے گویا یہ طاقت دنیا کے لیے امن اور سلامتی کا ایک پیغام ثابت ہوئی اور دنیا بھر میں امن و امان کے دشمنوں کا علاج اور ان کو جارحیت سے روکنے کا ذریعہ بنی۔  28 مئی کا دن جہاں مظلوموں کے لیے امن و امان کا پیغام لایا وہاں ان استعماری طاقتوں کے لیے خطرے کا نشان بن گیا جو پوری دنیا پر طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی کرنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں تاکہ معاشی طور پر کمزور ہو کر پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہو جائے مگر اللہ کی مدد اور تائید کی بدولت پاکستانی حکومت اور عوام نے ثابت قدمی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور 28 مئی جسے یوم تکبیر کا نام دیا گیا بحیثیت قوم ہمارے عزم و ہمت کی علامت بن گیا۔  1998 میں مسلمانوں کو بھارت کی جارحانہ عزائم کا سامنا تھا پاکستان کی جوہری طاقت نے نہ صرف دشمنوں کے بڑھتے ہوئے قدم روک دیے بلکہ ان کے دلوں میں پاکستان کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ وہ آ ئیندہ اس کی طرف میلی نظر سےبھی نہ دیکھ سکیں۔ آج پوری دنیا کو اسرائیل جیسے انسانیت دشمن دہشت گرد سے واسطہ درپیش ہے جو فلسطینی عوام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے مذموم عزائم رکھتا...

بوڑھے بھی اب دعا نہیں دیتے

بقول شخصے وقت کے ساتھ اقدار اور روایات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ خاندان،معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اس اکائی کو توڑنے میں تجدد پسندوں(مغرب پرستوں) نے اپنا پورا زور لگایا۔طویل عرصے سے جاری مذموم  کوششوں کے مسموم نتائج اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ نانا نانی دادای کی محبتوں کا ذکر ہی کیا پھوپھو،خالہ،ماموں،چچا، خالو، پھوپھا وغیرہ حتی کہ بڑے بھائی بہن اور کزنز بھی اپنےچھوٹے بھائی بہنوں سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتے تھے کہ اس کی مثال اب شاید ہی مل سکے ۔سچی محبت و لگاؤٹ سے بھرے ان رویوں نے رشتوں کی عظمت و تقدس کو چار چاند لگائے۔  اچھنبے والی بات تو یہ ہےکہ ماموں چچا، خالہ و پھوپھو اور کزنز کی عمروں میں کوئی خاص تفاوت نہ ہونے کے باوجود بھی ان کا محبت آمیز اور شفقت سے بھرا رویہ رشتوں کو تقدس اور بزرگی عطا کرتا تھا۔اپنی اولاد کی طرح چھوٹوں سے خیرخواہی کے جذبے  نےمعاشرے کو مثالی اور خوب صورت بنائے رکھاتھا۔بات یہاں تک ہی محدود نہیں ہے پڑوسیوں کی بھی خونی رشتے کی طرح عزت کی جاتی تھیں۔ ہرگلی میں موجودخالو،ماموں اور چچا بچوں کے تربیت میں اپنا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور ڈالا کرتا تھا۔ بچے اپنی حقیقی رشتہ داروں ہی کی طرح ان سے بھی محبت کرتے تھے۔چچا خالو ماموں اردو کے ان محبت آمیز رشتوں کی جگہ جب سے انگریزی کے انکل اور آنٹی نے لی وہیں سے یہ بزرگی و شفقت سے بھرے رشتے بھی فیشن زدہ معاشرے کا ایک حصہ بن کر اٹکل پچو حرکات کرنے لگے۔اب بوڑھے انکل ازم و آنٹی ازم  سے بچنے اور خود کو عمر میں کم اور عقل میں زیادہ ثابت کرنے کی چکر میں ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں کہ لاکھ روکنے پر بھی ہنسی نکل ہی جاتی ہے۔ بزرگی پر پردہ کیا پڑا،رشتوں اور محبت پر بھی نقب لگ گئی۔ محبت،بزرگی و شفقت بھرے رویوں سے جہاں رشتوں کے تقدس میں مزید اضافہ ہوتا تھا وہیں اِس کمی نے رشتوں کو بے وقعت کردیا اوربڑوں کی بے ادبی کو فیشن کے زمرے میں شامل کردیا۔ محبت شفقت اور لگاؤٹ سے بھرے رشتوں کی بچے دل سے قدر کرتے تھے اور ان کی محبت و شفقت کا جواب بھی نہایت عزت تکریم و قدردانی سے دیا کرتے تھے۔ عمروں میں پائے جانے والے برائے نام تفاوت کے باوجود رشتے کی بزرگی اور تقدس کا اتنا پاس و لحاظ تھا کہ اپنے سے دو تین سال چھوٹے بھائی بہن کو بھی بیٹا بیٹی،بابا،بچی،بچہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا۔آج عمروں میں پائے جانے والے نمایاں فرق کے باوجود خود کو جوان ظاہر کرنے کے چکر نے، نہ صرف رشتوں سے مٹھاس اور تقدس کو نچوڑ لیا ہے بلکہ خود ساختہ جوان(بوڑھے مرد و زن) نے معاشرے کی ایک بہت ہی خوب صورت اور مضبوط کڑی کو بھی توڑ ڈالا۔ آج کی طرز زندگی اورطرزتخاطب سے رشتوں میں دوریاں پیدا ہونااور رشتوں کا تقدس پامال ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ نانی نانا، دادا دادی پھوپھو،خالہ بڑے بھائی بہن کزنز و دیگر رشتےمحبت اور ایثار و قربانی کا پیکرتھے۔ان کی محبت وعنایات کسی بھی صلے...

حکمران، بانس اور بنسری

"آٹھ سو کفن دے چکا ہوں ، حکومت نے دوسواور مانگے ہیں۔ ان میں وہ تین سو چادریں شامل نہیں ہیں جو الگ سے مانگی گئی تھیں۔" قارئین! آپ حیران ہو رہے ہیں کہ نہ حوالہ نہ کوئی سیاق و سباق اور ان الفاظ کے ساتھ کالم کا آغاز یہ چکر کیا ہے، تو جناب! یہ الفاظ ہیں عبد الستار ایدھی کے جو کہ ایک خبر کی شکل میں 12 جولائی 2007ء میں بڑے اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ اس خبر کا تعلق "آپرشن سائلنس" سے ہے۔ جی ہاں آپ کو یاد آگیا لال مسجد کا واقعہ...اور ہماری یاد داشت کی تختی پہ اچانک 4 اپریل 1979 کی تاریخ ابھر آئی ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا واقعہ ہوا، اور اس کے ساتھ ہی 11 مئی 1953ء کی تاریخ بھی ابھر آئی ہے کہ، جب ایوبی مارشل لاء نے اس صدی کے مجدد کو سزائے موت دینے کا فیصلہ صادر کیاتھا۔۔۔ بعد میں کسی دن ایک لمحے بھر کے لیے شاید ان کی عقل نے ان کاساتھ دیا اور فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ مذکورہ بالا مثالیں دورِ آمریت کی یاد دلاتی ہیں۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ دورِ آمریت اور دورِ جمہوریت میں بہت فرق ہوتا ہے اور فرق ہونا چاہئے۔ کاش ایسا ہوتا، کاش ہم نے سیانوں کی بات کو اہمیت دی ہوتی ، تو ہم شروع سے ہی بحیثیت قوم اس پر عمل کرتے کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہو، جمہوریت کا سفر بلا تعطل جاری و ساری رہے، عوام کے حقوق عوام کو بلا امتیاز ملیں۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ عوام کے حقوق کی وضاحت آئین سے ہوتی ہے۔ انہی حقوق میں سے ایک ہے احتجاج کا حق۔ اس وقت غزہ اور جبالیا اور نابلس میں جو تباہی اسرائیل کے ہاتھوں جاری ہے گنجان آباد علاقے شدید بمباری کی زد میں ہیں آٹھ ماہ سے یہ سلسلہ جاری ہے اب تو وہ لوگ جنازے اٹھا اٹھا کر شاید تھک گئے ہیں۔بمباری کی تصویریں اور ویڈیوز آپ دیکھتے ہیں ہر روز میڈیا پر۔ سچ بتائیں کیا کیفیت ہوتی ہے؟ کیا حالت ہوتی ہے آپ کے اندرونی کرب کی کہ جب آپ آگ اور بارود کے اس خونی کھیل کے دوران آسمان پر سیاہ دھویں کے وہ گہرے خوفناک بادل دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ چلیں ذرا دیر کے لئے یہ سوچیں کہ یہی سب کچھ اگر جانوروں اور درختوں کے ساتھ کیا جاتا تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا ؟؟؟ تڑپ اٹھتے، پریشان ہوتے، احتجاج کرتے، شور مچاتے یہی نا ؟؟؟ تو گزشتہ آٹھ ماہ سے ایک علاقے میں جیتے جاگتے باشعور انسانوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے کیا کہیں گے آپ ؟ ظلم ؟ بدتہذیبی؟ وحشیانہ کاروائیاں ؟ درندگی؟ نسل کشی؟ جی ہاں یہ سب الفاظ جو آپ نے کہے یہ بھی شاید ناکافی ہیں۔ اب اگر آپ یہ کرب، یہ دکھ اور وہاں کے حالات کی تصویر کشی کرتے یہ الفاظ بند کمرے میں، بس اپنی ذات تک ہی رکھیں گے تو جانتے ہیں کیا ہوگا ؟ آپ کا دماغ پھٹنے لگے گا ، عجب گھٹن کا ماحول سارے کمرے میں پیدا ہو جائے گا تو پھر کیا کریں گے...

نئی جماعت آگئی

ملکی سیاست میں نئی جماعتوں کے اضافے ہوتے رہتے ہیں، کوئی بالکل نئی اور کوئی پہلے سے موجود جماعت سے نکل کر سامنے آگئی۔ کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جس میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی ہو، ایسے ہی ن لیگ قیادت سے اختلافات کے بعد خارج ہونے والوں نے مل کر نئی جماعت بنا لی۔ یقینا یہ جماعت بھی موجودہ حکومت کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی تاہم اس سے تھوڑا پیچھے جائیں تو عام انتخابات سے قبل کئی جماعتیں وجود میں آئیں۔ جماعتوں کے وجود میں آنے کے پیچھے کئی طرح کے عوامل رہے ہیں۔ جیسے پارٹی سے اچانک نظریاتی اختلافات ہوگئے یا پھر پسندیدہ قیادت ناپسند آنے لگی، بڑوں پر چھوٹوں کو ترجیح دی تو سینارٹی کا مسئلہ آڑے آگیا، کچھ پیسے والے دوستوں نے کہا کچھ نیا کرتے ہیں اور مل کر الگ شناخت بنانے نکل پڑے، نظام میں تبدیلی بھی ہمیشہ اہم وجہ رہی ۔ نئی جماعت بننے، بنانے یا بن جانے کی ایک دو اور بھی بڑی وجوہات ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ جو بھی نئی جماعت آئی ہے اس کا منشور کتنا متاثر کن ہے اور وہ خود اپنے منشور پر عمل کرنے والی ہے۔ عوام پاکستان پارٹی کے گزرے دنوں کو مدنظر رکھیں تو بننے کا مقصد بالکل واضح ہے۔ لیکن کیا یہ جماعت اپنے مدمقابل کے لیے مشکلات پیدا کرسکے گی یا نہیں، موجودہ حالات و واقعات میں مدمقابل کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے گی یا پھر گزشتہ دنوں نئی بننے والی کچھ جماعتوں کی طرح سمندر کی جھاگ ثابت ہوگی یہ تو وقت طے کرے گا البتہ اب تک جوش و جذبہ روایتی ہے۔ ایک اور پیش رفت بھی ان دنوں ہوئی ہے وہ بھی ایک سابق نئی جماعت کے حوالے سے ہے۔ اس جماعت نے اپنا تعارف کچھ انوکھے انداز سے پیش کیا تھا۔ لوگوں میں کافی چہ مگوائیاں بھی ہوئیں یہاں تک کہ میڈیا پر ان کے اس طرز تعارف پر حیرت کا اظہار کیا گیا، بس لوگ اندازے لگا رہے تھے۔ کسی نے ن لیگ کا دھڑا بنادیا اور کسی نے نظر انداز کرتے ہوئے صرف ان کے تعارفی انداز پر بات کی۔ تعارف واقعی انوکھا تھا۔ اس جماعت کی تنظیم نو کی گئی اور مختلف اضلاع، صوبوں، شعبوں اور حلقوں کی سطح پر اپنے ذمے داران کے تقرر و تبادلے کیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر باقاعدہ اعلانات بھی کیا گیا مگر اب تک کسی نے تعیناتی پر سوال اٹھایا نہ اپنا حق جتایا۔ اس جماعت کی اب تک کی کارکرگی سے وابستہ لوگ مطمئن ہیں اور کچھ غیر وابستہ بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ جماعت مرکزی مسلم لیگ کے نام اس وقت زیر بحث آئی ہے جب ملکی سطح پر اس جماعت کے لوگ اچانک نکلے اور شدید مہنگائی کے وقت جب کسی بھی جماعت کو دوسری جماعت پر بھروسہ نہیں ہورہا تھا اور وہ حکومت کیخلاف نکلنے کے لیے تیار نہیں تھی اکیلے مہنگائی کیخلاف اپنا شدید ترین احتجاج ریکارڈ کروایا۔ عوامی حلقوں سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر پلیٹ فورم پر متاثر کن آواز بلند کی اور یوں لوگوں کو ایک تسلی ملی...

فتنوں سےبچاؤ

فی زمانہ نوجوان نسل کی دین بےزاری نے ہر صاحب فہم وبصیرت کوحیرت وپشیمانی میں مبتلاکررکھا ہے۔غیروں کی کارستانیوں اوراپنوں کی حماقتوں نے، ہمیں اس افسوناک صورتحال سےدوچارکیاہے۔میرا موضوع دوسراسبب ہے۔ دیندارطبقےکی ناکامی کی تین اہم وجوہات ہیں۔ اول: قرآن وسنت سےبراہ راست فیض یاب نہ ہونا۔ دوم: کردارکی پسپائی۔ سوم: ظاہری اعمال کوترجیح دینا۔ قرآن وسنت سےدوری؛مختلف تبلیغی گروہوں نے قرآن وسنت سےبھی بڑھ کراپنےاساتذہ کی تعلیمات کواہمیت دےرکھی ہے۔بدلتےہوےحالات کاساتھ دینا، کسی کتاب کےبس کی بات نہیں۔ مستقبل کےپردے میں جھانک کراسکےمطابق رہنمائی کردیناکسی غیرنبی کےلیےقطعاناممکن ہے۔قرآن مجیدکےاندر قیامت تک برپاہونےوالےہرفتنےسےکامل بچاؤکاواضح راستہ موجودہے۔ آج کانوجوان ہرمعاملےمیں دلیل کاطلبگار ہےاورقرآن میں دلائل کثرت سےموجودہیں۔البتہ اگر کوئی شخص پہلےسےبعض تخیلات کوذہن میں راسخ کرچکاہواورانکےمطابق قرآن کوڈھالناچاہےتواس نےتوخوداپنےلیےہدایت کادروازہ بندکرلیا۔ اللہ تعالیٰ نےانسانوں کی رہنمائی کےلیےکتاب نازل کی اوراسکےساتھ معلم بھی مبعوث فرمایا(النحل:۴۴)۔ حجة الوداع کےموقع پرامت کونصیحت کی گئی تھی کہ دوچیزوں کوتھامےرکھناکبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ایک قرآن اوردوسرےسنت۔امت نےدونوں کوخیرباد کہاتوگمراہی اسکامقدربن گئی۔جس چیزکےلیےلوگ محنت کرتےہیں اسےپالیتےہیں۔لوگ دین کےلیےمحنت کرنےپرآمادہ ہی نہیں۔ تقدیرکےقاضی کایہ فتویٰ ہےازل سے کہ ہےجرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات کردارکی پسپائی؛جب مکےمیں کوئی بھی اسلام کا نام لیوانہیں تھا،ہرطرف بت پوجےجارہےتھے۔ایسےشدید اجنبی ماحول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس تین عظیم ہتھیارتھےجن کاتوڑکافروں کےبس بات نہیں تھی۔١۔ قرآن مجیدکےدلوں کوچھو لینےوالےٹھوس دلاءںل۔٢۔ کردارکی قوت۔٣۔ گفتگوکابے مثل سلیقہ۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ اپنےنبیﷺ کومخاطب کرکےفرماتےہیں کہ اگرآپ تندخواورسخت مزاج ہوتےتولوگ آپکوچھوڑکرچلےجاتے(آیت١۵٩)۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کےاخلاق وکردار سےمتاثرہوکرلوگ دین سےوابستہ ہوئے تھے۔ ہمارےہاں بہت سےداعی حضرات نصیحت کی مشین بن چکےہیں۔وہ سمجھتےہیں کہ انہیں لوگوں کوٹھیک کرناہے۔ خالانکہ ٹھیک تومجھےاپنےآپ کو کرناہے۔ دوسروں تک توحکمت و دانائی اورنرمی ومہربانی سےبات پہنچانی ہےاورانکی ایذارسانیوں پرصبرکرناہے۔ دینی مدارس میں بجوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پرانکی خوب خبرلی جاتی ہےاوراکثربےدردی سےانہیں کنٹرول کیاجاتاہے۔اس رویےکےباعث کاری حضرات کےساتھ ساتھ وہ قرآن سےبھی دورہو جاتےہیں۔بہت سےباعمل اورمخلص مبلغین بھی اپنے جھگڑالوپن اورعدم دانائی کی بدولت دوسروں کی دین بےزاری کاباعث بن جاتےہیں۔بھلااس شخص کی بدنصیبی کاکیاکہناجسکی حماقتوں کےباعث لوگ دین ہی سےدورچلےجائیں۔ ظاہری اعمال کوترجیح دینا؛ایمان کی کمی دراصل ہربرائی کی جڑہے۔ایمان کےبغیرعمل صالح دراصل نقش برآب ہے۔ہمارےہاں ظاہری اعمال پربہت زوردیاجاتاہے۔ مثلاٙٙ ڈوپٹہ لو،نمازپڑھووغیرہ۔جڑکےاندرچھپی خرابی کی اصلاح کی کم ہی فکرکی جاتی ہے۔برائی کوبہت آرائش اورخوبصورت دلائل کےساتھ پیش کیاگیاہے۔ تیرہ سالہ مکی قرآن میں عقائد کی مضبوطی پرزوردیاگیااوردس سالہ مدنی قرآن میں بھی احکام کےساتھ ساتھ کثرت سےتوحیداورآخرت کی یاددلائی گئی۔دراصل کردارکی تشکیل فہم وشعورپرہوتی ہےاورفہم وشعورکی تعمیرمیں عقیدےہی کوسب سےبڑھ کراہمیت حاصل ہے۔ یہاں عقیدہ ہی مختلف شکوک وشبہات کاشکارہوکرغیراہم ہوگیاہےیہاں تک کہ اسکومان لینایاانکارکردیناتقریباًیکساں ہوچکاہے،ایسےماحول میں منافقانہ ذہنیت ہی پروان چڑھ سکتی ہےاورعملاً بھی یہی مناظرہرطرف بکھرے ہوےہیں۔ ہمارےہاں برائی کوبہت آرائش اورخوبصورت دلائل کےساتھ پیش کیاگیاہے۔جنت کی سچی تڑپ اور دوزخ کابےپناہ خوف ہی ان فتنوں سےبچاؤکا سبب بن سکتاہے۔

خبر لیجیے زباں بگڑی - اطہر ہاشمی

طنز و مزاح

کہاں کی بات کہاں نکل گئی

قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔ اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔ دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔ گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ 2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...

والدین اور بیٹیاں

آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے"  جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔ اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔ تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو  leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔

زندگی بدل گئی !

شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔ فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔ خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔ ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...

بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان

بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔ ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔ کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔ ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔ ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔ نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔ I am vaccinated کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔ یہ بلائے ناگہانی ہے بس...

ٹک ٹاک ایک نشہ

ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔ میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘ چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...

ہمارے بلاگرز