تعلیمی اداروں میں موسیقی کی کلاس

خبر ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں موسیقی کی کلاس شروع کی جا رہی ہے۔ میوزک ٹیچرز کو ابھی سے بہت سی مراعات سے نوازا جا رہا ہے اور اس نوکری کے عوض بھاری تنخواہ بھی دی جائے گی۔ ایسی خبر کیا کسی مسلم ملک میں اچھی سمجھی جائے گی ؟یا اس کا اجراء بچوں کے لیے مہلک ثابت نہ ہوگا؟۔
مسلمان کا ایمان، توحید، رسالت اور آخرت پر مبنی ہے تو اس موسیقی ان تینوں میں سے کس میں جگا بنتی ہے؟۔ اسکول میں قرآن کے پیریڈ قائم کر کے قرآن سیکھنے کا اہتمام ہونا چاہیے نہ کہ مغرب کا یہ زہر ہمارے معصوم بچوں کو پلایا جائے گا، معاف کیجیے گا اس میوزک سیکھنے سے بچے ترقی یافتہ نہیں بلکہ قیامت میں کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈلوانے کے لیے تیار ہوں گے۔
میوزک ہمارا کلچر نہیں، ہماری تہذیب نہیں، قرآن میں ہدایت اور رحمت ہے اس کے برعکس یہ موسیقی بچوں کو راہ راست سے بھٹکانے کا انتظام ہے موسیقی سکھا کر بچوں کو دین اسلام سے ہٹا کر حکومت وہی چال چل رہی ہے کہ بس اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کر کے اپنا کشکول بھر لیں، اور بچے میوزک میں غرق ہوکر زندگی کی سنجیدگی سے دور ہو جائیں اور اس عالمی مستی میں ان کو ہوش ہی نہ رہے وہ یہ محسوس ہی نہ کر سکیں کہ انہیں کس تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
اور گانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ، ‏مغنیہ کا بیچنا، خریدنا اوران کی قیمت بھی حرام ہے، اسلامی تعلیمات کی بجائے یہ کلاسیں کسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر تباہ کن چیزوں کو اپنانا ہے، میوزک فکر اور اخلاق کو تباہ کرنے والی چیز ہے، حکومت کو یہ شعور نہیں کہ میوزک شروع کر کے خلقِ خدا  کو راہ راست سے بھٹکا کر کتنا بڑا ظلم کر رہی ہے، موسیقی سیکھنے والے، سکھانے والے اور اس کی قیمت میں تنخواہ لینے والے اور تنخواہ دینے والے، اس کی شروعات کرنے والے کے لیے قرآن عذاب الیم کی سزا دیتا ہے۔
حکومت سے  کہتے ہیں کہ خدارا رحم کیجئے اپنی نسلوں کو رب سے جوڑیئے تاکہ ہماری نسلیں موسیقی سے نجات پا کر جہنم کی آگ سے بچ جائیں، اس لئے بہت غور کرکے اپنے فیصلے کو تبدیل کیجئے۔