قومی زبان اور حکمرانوں کا کردار

زبان ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنی بات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ کسی بھی زبان کے بارے میں بنیادی بات جس کا اطلاق ہر زندہ زبان پر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ زبان کسی خاص مِنطقے کی حدود کی پابند نہیں ہوتی بلکہ اس زبان کو اچھی طرح سے جاننے والے لوگ جو کچھ عام طور پر بولتے اور سنتے ہیں، ان کا تعلق کسی بھی منطقے سے ہو ، وہی زبان ہے۔

بقول مولوی عبدالحق: ” زبان کا انسان کی زندگی میں بہت بڑا دخل ہے۔ اس کے نتائج اور اثرات نہایت عجیب اور دور رس ہیں۔ اگر ہم اس کے تخفظ و ترقی کے لیے جدوجہد کریں، جان لڑا دیں تو یہ ہمارا فرض ہے اوراس فرض سے غفلت کسی مذہب و ملت میں روا نہیں۔” جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے، یہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی قومی زبان ہے۔

اردو زبان کی تخلیق کے بارے میں ماہرینِ لسانیات نے مختلف آرا پیش کی ہیں۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ لفظ اردو ترکی زبان سے نکلا جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں۔ اسے لشکری زبان بھی کہا گیا ہے۔ ترکی زبان میں فوج یا لشکر کو ’’اردو‘‘ یا ’’اوردو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کا استعمال شاہ جہان کے دور سے شروع ہوا جب دہلی کے پاس چھاونی کو اردو معلے کے نام سے منسوب کیا گیا اور اسی طرح اس علاقے میں بولی جانے والی زبان تھی۔

آج تک جتنی بھی قوموں نے ترقی کی اگر تاریخ کو چھان کر دیکھیں تو سب نے اپنی اپنی ہی زبان میں کی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک قوم کو تعلیم اپنی قومی زبان میں دیتے ہیں، خاص طور پر ابتدائی تعلیم۔ جاپان نے شکست کے بعد اپنی زبان اور تعلیمی نظام کو برقرار رکھا اور چالیس سال کے اندر عالمی قوت بن گیا۔ لیکن پاکستان کی کچھ اس حوالے سے صورت حال نازک ہی ہے کیونکہ حکمرانوں کا کردار اس میں نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔

ہماری زبان ہی ہماری پہچان ہے اگر وہ نہیں تو ہم کس کھاتے میں شمار ہوں گے۔ سب سے بڑا المیہ تویہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے تمام اداروں میں نافذ کرنے کا حکم دیا لیکن اس فیصلہ پر عمل درآمد ابھی بھی نہیں ہورہا جس طرح دوسرے معاملات میں ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی اگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو کس نےنفاذ اردو میں اہم کردار کیا اور کس حد تک کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

ڈاکٹر بدر منیر کا نہایت برمحل شعر ہے:

جڑتی نہیں ہے قوم جو اپنی زبان سے

کب سر اٹھا کے دنیا میں جیتی ہے شان سے

افسوس کا مقام ہے اس زندہ قوم وحکمرانوں کے لیے جو اپنی ہی زبان کو دوسری زبانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی ترقی میں کس نے کیا کردار ادا کیا آج تک وہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ زبان انسان کی شناخت ہے، انسان کا تعارف ہے، انسان کی پہچان ہے۔

بقول ڈاکٹر جمیل جالبی: “اردوزبان زندہ ہے لیکن اُن کے لیے نہیں جو مرچکے ہیں۔ اردو زبان مرچکی ہے لیکن اُن کے لیے جو زندہ ہیں۔”

قائداعظم کو اردو کی اہمیت کا احساس تھا اور وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ جس قوم کی زبان ایک نہیں، اس کا دل بھی ایک نہیں اور یہ کہ پاکستان کے تمام مسلمانوں کا شیرازہ بندی اس زبان کے ذریعے ممکن ہے۔

بقول قائداعظم:” پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو، صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اردو ہے۔ اردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں۔”

قومی زبان کی ترویج و ترقی میں بزم اہل سخن پاکستان سمیت جو جو ادارے سرگرم ہیں اور اپنی زبان کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں اُنکی خدمات قابل ستائش ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت اور اسلامی حدود و قیود کے دائرے میں رہتے ہوئے اُردو زبان کی ترویج و نفاذ کے لیے تمام وسائل اور ذرائع بروئے کار لانا۔ نفاذِ اُردو کی آئینی حیثیت کی بحالی کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرنا خصوصاً 1973ء کے آئین کی شق ۲۵۱ کے تحت اس کی آئینی حیثیت پر عمل درآمد کے لیے جدو جہد کرنا۔ اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے کوشش کرنا نیز سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں اُردو کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا۔

افسوس صد افسوس جو حکمران اپنی زبان کے لیے کام نہ کرسکے اُن سے اُمید رکھنا بھی کسی صورت ممکن نہیں۔

المختصر، یہ ہی کہنا چاہوں گی کہ اپنی زبان کی قدر کیجیے اور اس سے محبت کیجیے کہ یہی ہماری پہچان بھی ہے اور ملکی سالمیت کی ایک کنجی بھی ۔

بقول منیش شکلا:

بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا

ہم نے اردو کے بہانے سے۔