ثوبیہ عمار

20 بلاگ 0 تبصرے

درسگاہیں بنیں تھیٹر

سیلاب سے پہلے ماحول ایک آلارم دیتا ہے دریا ساکن ہو جاتا ہے اور فضا سیلاب کی آمد کی اطلاع دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے میں علاقے...

ووٹ ہے ترازو کا

آج بچوں کو ماحولیاتی آلودگی، اس کے اسباب اور اثرات پڑھاتے ہوئے ایک مثال ذہن میں آئی میں نے بچوں سے سوال کیا، بچو!روزانہ...

معاشرے کا ناسور ! کرپشن

آج ہمارا وطن تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے وجہ صرف اور صرف۔۔۔۔۔۔ حق تلفی، رشوت اور بدعنوانی ہے۔تعلیم کے شعبے میں دیکھیں ...

چاہتوں کا سفر

ویسے تو چاہے جانا ہر رشتے کی روح ہے۔۔۔۔۔جیسے روح کے بغیر جسم بیکار ہے ایسے ہی چاہت کے بغیر رشتے مرجھا،کملا جاتے ہیں۔ بچے...

انصار اللہ کیمپ

3 دسمبرکی اتوار اپنے جلو میں ایک سہانا دن لیے آئی اور کتنی ہی خوبصورت یادیں دلوں پر نقش کرتے ڈھل گئی۔ جیسے ہی نومبر...

غزہ ملین مارچ

برکت موڑ تا بھیکے وال۔۔ نیو کیمپس پل پرانسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ لوگ ہی لوگ، ایک طرف مرد اور دوسری طرف عورتیں،...

میرا حق دلائیے

زمانہ ابتدائے بعثت ہے۔ اہل مکہ کے مظالم بڑھ چکے ہیں۔ نبئ آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ کی...

نبی محترم ﷺاور دعویِٰ محبت

 کبھی کبھی یہ سوچ حیران کرتی ہے کہ اللہ کی شان نرالی ہے۔ سال کے بارہ مہینے بنائے اور ہر مہینے کے ساتھ کوئی...

وبائیں، حفاظتی تدابیر اور ہم‎

بدلتے موسم کے ساتھ ہی مختلف وبائیں سر اٹھانے لگتی ہیں۔خصوصا پچھلے چند سالوں سے یہ وبائیں  اتنی شدت اختیار کر گئی ہیں کہ...

مایوسی نہیں اُمید دلائیے

مایوسی کفر ہے۔رات کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو سویرا ہو کے رہتا ہے۔کبھی خوشی کبھی غم ،کبھی دھوپ کبھی چھاؤں، کبھی صبح کبھی...

اہم بلاگز

ڈے کئیر سنٹرز ! ممتا کا متبادل ؟

ڈے کئیر سنٹرز میں بچوں کو رکھنے کا تصور نیا اس لئے نہیں کہ جب ہمارے ہاں ملازمت پیشہ یا مصروف کاروباری خواتین کے پاس بچوں کی دیکھ بھال کا وقت نہیں ہوتا تو گھر میں ساس ( بچوں کی دادی ) یا پھوپھو ایک طرح سے بچوں کی پورا دن دیکھ بھال کرتی ہیں اور وہ بھی بلا معاوضہ ۔ میری ایک کزن اپنی بچیوں کو اپنی والدہ کے پاس پورا دن کے لئے چھوڑ کر آتی تھیں اور اس دوران وہ ان کی طرف سے بالکل بے فکر ہوجاتی تھیں ۔ بچوں کو کوئی ٹھوس غذا دینی ہو یا وہ رو رہا ہو یہ سب کام نانیاں اور دادیاں بخوشی کر لیا کرتی تھیں لیکن اب حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈے کئیر سینٹرز بن رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ایسے مراکز قائم ہیں کیونکہ یہاں کی خواتین ہی زیادہ تر نوکری کرتی ہیں ۔ ہمارے ملک کے اداروں کے قانون کے مطابق جن اداروں میں پچاس یا اس سے زیادہ خواتین ملازمت پیشہ ہوں وہاں ایسے دفاتر کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈے کئیر کی سہولت فراہم کریں ۔ سن دو ہزار سات میں جرمنی میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ڈے کئیر سینٹرز سے متعلق اہم فیصلے کرنا تھے لیکن اس کا اطلاق بہت دیر سے یکم اگست دو ہزار تیرہ میں ہوا ۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ کتنی عمر کے بچے یہاں ڈے کئیر سنٹرز میں ہوں ۔ عموما یہاں بچوں کو دو طرح کے گروپس میں بانٹا جاتا ہے جن میں ایک بہت ہی چھوٹے یعنی نوزائیدہ ہوتے ہیں جیسے فاطمہ جناح یونیورسٹی میں تین سے سات ماہ کی عمر کے بچے رکھے جاتے ہیں۔ کیوبا میں تین ماہ سے کم عمر بچے کو ڈے کئیر سنٹرز میں نہیں لیتے ۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو خود بھی ڈے کئیر سنٹرز کی سہولت فراہم کرتے ہیں جیسے کئی بڑی کمپنیاں اور تعلیمی ادارے جہاں ان بچوں کی مائیں تدریس کے فرائض سرانجام دیتی ہیں ۔ عمر کا فرق ہر جگہ پر مختلف ہے ۔ فیس کے معاملے پر آئیں تو پہلے رجسٹریشن فیس ہی اڑھائی ہزار روپے سے شروع ہو رہی ہے اور ماہانہ فیس تین سے پانچ ہزار تک یہ بھی صرف ایک اندازہ ہی ہے کیونکہ آج کل کی مہنگائی کے مطابق فیس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ جاپان میں بیس لاکھ سے زاید بچے ڈے کئیر سینٹرز میں رہتے ہیں ۔ ڈے کئیر سینٹرز کے اگر فوائد ہیں تو وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں لیکن ان کے نقصانات کی فہرست کافی طویل ہے ۔ بلاشبہ ڈے کئیر سنٹرز ایسے ہیں جہاں خواتین جو ملازمت پیشہ ہوں انہیں آسانی ملتی ہے کہ وہ وہ تمام تر تفکرات سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتی ہیں لیکن کیا وہاں موجود آیا اور دیگر خدمت گار خواتین ممتا کا نعم البدل ہیں ؟ یقیئنا نہیں ۔ بچہ بیمار ہو یا کسی بھی الجھن کا شکار ہو ماں کے ایک ہلکے سے لمس سے ہی ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ میں نے...

غ ز ہ ! دور حاضر کا کربلا

اللہ کریم نے مسلمانوں کو چار حرمت والے ( عزت و احترام والے) مہینے عطا کیے ہیں ۔زیقعد ،ذی الحجہ ، محرم اور رجب۔ ان میں سے محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جبکہ ذی الحجہ آخری مہینہ ہے۔ پہلے اور آخری دونوں مہینوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے" قربانی "۔ غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ،ابتدا ہے اسماعیل یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ اولاد آدم کو سب سے زیادہ عزیز اس کی اپنی اولاد ہوتی ہے۔ ذی الحجہ کے مہینے میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا اللہ کے حکم کے آگے سرنگوں ہوتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کو قربانی کے لیے لٹانا ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم بھی رب العالمین کے سامنے اپنی جان و مال اور نفس کی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ جب بھی حکم ربی ہو ہم اسے ادا کرنے میں پل بھر کی بھی تاخیر نہ کریں۔ دوسری قربانی محرم الحرام کے مہینے میں نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی، اپنے اہل و عیال کے ساتھ کربلا کے میدان میں دی گئی۔ یہ قربانی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ظالم اور جابر حکمران کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے بلکہ اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا ہے ۔جب معرکہ حق و باطل ہو تو حق کی خاطر ڈٹ جانا ہے خواہ اس راہ میں اپنی جان و مال، آل و اولاد سب کچھ قربان کر دینا پڑے ہمیں ہر وقت اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہے آج غ ز ہ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ اہل غ ذ ہ اسوہء ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنی عزیز ازجان ،اپنی متاعِ حیات یعنی اپنی اولاد کو قربان کر رہے ہیں کیوں۔۔۔۔؟ صرف اور صرف رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ۔۔۔ وہ دنیاوی لذتوں کے حصول کے بجائے جنت کے خریدار بن رہے ہیں ۔ غ زہ کا میدان آج کربلا کے میدان کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں معصوم بچوں پر پانی بند ہے، کھانا میسر نہیں، بموں کی بارش ہے جس میں ننھے بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔ آفرین ہے ان معصوم زخمیوں پر کہ جب ڈاکٹر بیہوشی کی دوا نہ ملنے پر ان کا آپریشن ہوش میں ہی کرتے ہیں تو وہ چیخیں نہیں مارتے بلکہ ان کے لبوں پر قرآن مجید کی تلاوت جاری رہتی ہے۔ الغرض کے دونوں قربانیوں کے پیغام کو اہل غ ز ہ نے نہ صرف سمجھا ہے بلکہ ان پر عمل پیرا ہو کر اپنا شمار سابقون والاولون میں کروا رہے ہیں ۔ غ زہ کے میدان میں ماؤں کی گود میں ہمکتے ہوئے پیاسے بچے معصوم علی اصغر کی یاد دلا رہے ہیں۔ کہیں مثل "جگر گوشہء حسین" سکینہ جیسی بچیاں بھوک سے بلکتی نظر آ رہی ہیں۔ کہیں خوبصورت، صحت مند اور کڑیل نوجوانوں کی کٹی پھٹی لاشیں علی اصغر اور علی اکبر شہید کی یاد دلارہی ہیں۔ اس میدان کرب و بلا میں حضرت...

 امریکی کانگرس کے بعد اقوام متحدہ!۔

امریکی ایوان نما ئندہ گان کے بعد جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری حراست ، انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے بھی پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قید کیا گیا مناسب یہ ہو گا کہ مسٹر خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں معاوضے کا حق دیا جائے۔ ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں سائفر اور پہلے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو بنا کسی قانونی جواز کے گرفتار اور نظر بند کیا گیا اور ان پر مقدمات چلائے گئے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے تاکہ سابق وزیرِاعظم اور ان کی جماعت کو انتخابات کی دور سے باہر رکھا جا سکے۔ سائفر کیس میں عمران خان کو ہونے والی سزا کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔’بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ ان (عمران خان) کے اقدامات سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی۔‘   ورکنگ گروپ کا مزید کہنا ہے کہ پٹیشن دائر کیے جانے کے بعد انہوں نے حکومتِ پاکستان سے ان الزامات کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی تاہم پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔حکومت کی جانب سے کسی بھی طرح کی تردید کی غیر موجودگی میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے خلاف قائم مقدمات کا تعلق ان کی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے ہے اور ان مقدمات کا مقصد سابق وزیرِ اعظم اور ان کے حامیوں کو خاموش کروانا اور انھیں سیاست سے دور رکھنا ہے۔‘ امریکی ایوان نما ئندہ گان کے بعد جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ بانی تحریکِ انصاف عمران خان کے خلاف اقدامات اور مقدمات سے متعلق سب کچھ بخوبی جانتے ہیں ، اس لئے کہ جو کچھ عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف ہوا ، ایبسلوٹلی ناٹ، کے بعد ان کی خواہشات کے مطابق ہوا اور ہو رہا ہے ، امریکہ اور اس کے درباری نہیں جانتے تھے کہ عمران خان ایک عوامی قوت ہیں ، وہ پاکستانیوں کے دل پر راج کرنے والے پاکستان سے مخلص قائد عوام ہیں ۔ لیکن آج امریکہ اور اس کے درباری جان گئے ہیں کہ ہم نے جو کیا غلط کیا ، دنیا کی نظروں میں وہ اپنے منافقانہ کردار میں ننگے ہو گئے ہیں۔ اگر آج امریکہ اور اس کے حواری عمران خان کے حق میں بول رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عمران خان یا پاکستان کی عوام سے مخلص ہیں، دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اپنے کردار میں ہاتھی کی مثال ہے ، اس کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور ہیں ، ، اس لئے پاکستان کی محب وطن عوام کو ایسی کوئی غلط فہمی نہیں کہ امریکی کانگرس اور اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ عمران خان او ر تحریک انصاف کے زخموں پر مرحم رکھے گا ۔  امریکہ اور اقوام متحدہ نے وقت کے شیطان اسرائیلی حکمران...

عُمَرؓ بن خطاب

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان اسلام سے پہلے غلافِ کعبہ سے لپٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت چھپ کر سن رہے تھے تودل میں سوچنے لگے یہ شاعر ہیں ۔ نبی کریم ﷺسُورۃ الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہ کسی شاعر کا قول نہیں۔ عمر نے پھر سوچا یہ ضرور کاہن ہیں۔ نبی کریم نے پھر تلاوت کی اور نہ کسی کاہن کا قول ھے۔ قرآن کی حقانیت اسی وقت دل میں گھر کر گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےدعا کی اے اللّٰہ! عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابو جہل ) میں سے کسی ایک کو میرا مدد گار بنا دے۔ ہدایت ملنے نہ ملنے کا سارا فلسفہ اسی دعا سے ملتا ھے۔ دونوں کرداروں کا جائزہ صرف ہجرت حبشہ سے لیں تو عمر بن خطاب خالہ زاد بہن کے جانے پر ان کے گھر گئے تو اتنی قدآور شخصیت اپنے آنسو نہ چھپا سکی۔ دوسری طرف عمر بن ہشام ہجرت کر نے والوں کو مار نے کے درپے تھا، ان کی زمینوں پر قبضے کر رھا تھا۔ حضرت عمر ایمان لائے تو پہلی بار علی الاعلان نماز پڑھی گئی۔ حضرت عمر کی حکومت کے چند واقعات کا موجودہ جمہوری حکومت سے موازنہ کریں تو اللّٰہ کی زمین پر اللّٰہ کے نظام کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ ھوتا ھے۔ جب کسرٰی کاتاج حضرت عمر کے پاس لایا گیا تو فرمایا کیسے ایمان دار لوگ ھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا قوم نے آپ کو پاکیزہ پایا تو پاکیزہ ہو گئی۔ آج حکمران کرپٹ ہیں تو عوام بھی کرپٹ ۔ ایک مرتبہ گورنر مصر عمرو بن العاص کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلا قصور کوڑے مارے تو گورنر مصر کوان کے بیٹے سمیت واپس بلوالیا اور قبطی سے اتنے ہی کوڑے بیٹے کو اور دو کوڑے عمرو بن العاص کو مارنے کا حکم دیا اور فرمایا اے عمرو ! ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا تم نے کب سے ان کو غلام بنا لیا۔ آج ایک کرنل کی بیوی ناحق سرکاری اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دیتی ھے کہ اس کی گاڑی کو کیوں روکا گیا۔ ایک گورنر سے جب بیت المال کا حساب مانگا تو اس نے کہا یہ بیت المال کا اور یہ میرے تحائف ہیں تو گورنری سے معزول کر کے بکریاں چَرانے پر لگا دیا۔ ایک دن بکریاں چرا رھے تھے حضرت عُمَرؓ پاس سے گزرے تو پوچھا کوئی تحفے آئے وہ شرمندہ ہو گئے تو فرمایا تحفے تمہاری ذات کو نہیں سرکار کو ملے اور سرکاری خزانے میں جمع کرنے ہوتے ہیں، آج کروڑوں کے سرکاری تحائف بیچ کر کھانے والے بھی خود کوصادق اور امین سمجھتے ہیں۔ ایک خاتون نےپانی ابلنے کو رکھا کہ بچے کھانا سمجھ کر بہل جائیں اور سو جا ئیں۔ ایسے میں حضرت عمر رات کو گشت پر تھے یہ صورتحال دیکھی تو بیت المال سے کھانے کا سارا سامان لا کر دیا خاتون کہنے لگی اس عمر کو تو میں قیامت میں پوچھوں گی حکمرانی کے لائق تو تم ہو حضرت عمر...

بچوں کی شادی کے فیصلے

اولاد کی تعلیم و تربیت والدین کی ذمہ داری ہے ۔جس میں یہ مقدس ہستیاں اپنی تمام  effort serve كرتی ہیں ۔جیسے جیسے اولاد جوان ہورہی ہوتی ہے اب والدین کو ان کی شادیوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ۔لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ فقط شادی کروادینا ہی کمال ہے یا  شادی کروانے سے پہلے اہم اور ضروری باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ شادی  جیسا بڑاایونٹ تو سجا لیا سرمائیہ بھی صرف ہوا۔لیکن بعد میں معلوم ہواکہ وہ بیٹے یا بیٹی کا رشتہ کسی طور پر بھی معقول نہیں تھا ۔ قارئین:بعد کے رونے سے پہلے والدین  کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں ۔یہاں ہم کچھ باتیں آپ سے shareكرنے جارہے ہیں جو بچوں کے رشتے اور شادی کے حوالے سے والدین کے لیے کافی مددگار ثابت ہوں گیں ۔آئیے جانتے ہیں ۔ کھلی بات چیت:Open Communication:ْ  ایک ایسے ماحول کو فروغ دیں جہاں والدین اور ان کے بچے کے درمیان کھلی بات چیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔منگنی ،شادی وغیرہ کے معاملے میں بچوں کے  خیالات، خواہشات اور خدشات کو سنیں۔ باخبر فیصلہ کرنے میں ان کے نقطہ نظر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ انفرادی انتخاب کا احترام کریں:Respect Individual Choices: اپنے بچوں کو اقرار و انکار اور انتخاب کا حق دیں ۔تاکہ وہ آپ کے سامنے اپنی ترجیحات، اقدار اور خواہشات کا اظہارکرسکیں ۔ ان کی خودمختاری کا احترام کریں اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں فعال طور پر حصہ لینے کی اجازت دیں۔ اس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ فیصلہ ان کی خوشی اور بھلائی کے مطابق ہے۔نیز پھر آئندہ یہ اپنی ذمہ لیتے ہوئے اس رشتے کو بھرپورانداز میں نبھانے کی کوشش بھی کریں گے ۔ مطابقت پر غور کریں: Consider Compatibility: اپنے بیٹے و بیٹی کا رشتہ طے کرتے ہوئے اس بات کا ضرور اندازہ کرلیجئے کہ آپکے بیٹے یا بیٹی اور سامنے والے بچے بچی میں کس حد تک خیالات و طبیعت میں کس حد تک مطابقت ہے ۔یہ  مطابقت شادی کی کامیابی اور خوشی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ خاندانی پس منظر کا اندازہ کریں:Evaluate Family Dynamics: آپ والدین ہیں آپکی ذمہ داری بھی اہم ہے ۔چنانچہ اپنے بچوں کے ہمسفر کا انتخاب کرنے چلے ہیں تو ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ آپ اس خاندان کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کریں تاکہ آپ کو ان کی طبیعت ،مزاج ،ترجیحات کا اندازہ ہوسکے ۔یہ معلومات آپ کو رشتوں کو سمجھنے اور بچوں کی ازدواجی زندگی بحال رکھنے میں بہترین  مددگار ثابت ہوگی ۔ مشورہ طلب کریں: Seek Advice: ہم اس دنیا میں تنہا نہیں جی سکتے چنانچہ کہیں ہمارے خونی رشتے ہوتے ہیں اور کہیں ہمارے سماجی رشتے ہوتے ہیں چنانچہ آپ بچوں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے چلے ہیں تو لازمی لازمی خاندان کے بھروسہ مند افراد، دوستوں، یا بزرگوں سے مشورہ لیں جنہیں اسی طرح کے فیصلے کرنے کا تجربہ ہے۔ان کی بصیرت اور نقطہ نظر ممکنہ شادی کے ساتھی کی مناسبت  کا اندازہ لگانے میں قابل قدر رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ان کا تجربہ ،ہمدری اور دعائیں آپ کے اہم اور ذمہ داری...

خبر لیجیے زباں بگڑی - اطہر ہاشمی

طنز و مزاح

اسکول کھول دیں

جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں  آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔  خالہ،  پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔  بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔  اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔ اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ  سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش  ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں  حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں  بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو  کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...

کہاں کی بات کہاں نکل گئی

قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔ اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔ دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔ گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ 2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...

والدین اور بیٹیاں

آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے"  جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔ اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔ تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو  leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔

زندگی بدل گئی !

شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔ فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔ خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔ ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...

بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان

بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔ ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔ کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔ ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔ ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔ نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔ I am vaccinated کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔ یہ بلائے ناگہانی ہے بس...

ہمارے بلاگرز