مغرب میں نئے دور کا آغاز

گزشتہ کئی ماہ سے فلسطین میں جاری ظلم اور بربریت کے خلاف جہاں مسلم حکمران خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں وہیں مسلمانوں کے اسرائیلی مصنوعات کے شدید بائیکاٹ کے باعث کم از کم اسرائیل اور ان کے حواریوں کو یہ پیغام پہنچ گیا کہ مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ حال ہی میں فلسطین کے حق...

انمول سائبان

پچھلے دنوں کسی نے بتایا کہ انکے پڑوس میں بھائیوں میں جائیداد کا بٹوارہ ہوا دونوں بھائیوں نے الگ الگ گھر بسالئے اب دونوں بھائیوں کی بیویاں سسر کو...

آزاد اسلامی ملک

یونیورسٹی میں ہر طرف آوازوں کی گونج تھی۔ لڑکیوں کے قہقوں کی آوازیں اور کہیں باتوں کا شور اور کوئی گھر سے لایا ہوا ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔...

ڈے کئیر سنٹرز ! ممتا کا متبادل ؟

ڈے کئیر سنٹرز میں بچوں کو رکھنے کا تصور نیا اس لئے نہیں کہ جب ہمارے ہاں ملازمت پیشہ یا مصروف کاروباری خواتین کے پاس بچوں کی دیکھ بھال...

ایک چھت تلے رہنے والوں میں دوریاں

امی گھر میں داخل ہوئیں تو چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا,کمروں کی لائیٹس جل رہی تھیں لاونج میں داخل ہوئیں تو وہاں بھی سناٹا، یہ پانچوں بہن بھائی...

سکون کی تلاش

فی زمانہ ہر شخص سکون کی ہی تلاش میں ہے۔ امیر سے امیر شخص کو دیکھیں چاہے وہ بل گیٹس ہو یا دنیا کا کوئی اور امیر شخص، کسی...

تمدنی شعور

بحیثیت قوم اگر ہمارا جائزہ لیا جائے تو ہمارے معاشرے میں تمدنی شعور کا فقدان پایا جاتاہےہم خود کو اجتماعی ذمہ داریوں سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ہمارا رویہ یہ...

استقامت کی دعا‎

انسان جس کے لئے محنت کرتاہے وہ اسےمل جاتی ہے۔ فی زمانہ دین اوردینی رویوں کےحصول کےلیے محنت کرنےوالوں کی تعدادنہایت کم ہے۔ اپنےطویل تحریکی سفرمیں ایسےلوگوں کوبھی دیکھا...

غ ز ہ ! دور حاضر کا کربلا

اللہ کریم نے مسلمانوں کو چار حرمت والے ( عزت و احترام والے) مہینے عطا کیے ہیں ۔زیقعد ،ذی الحجہ ، محرم اور رجب۔ ان میں سے محرم الحرام...

اسکول کھول دیں

جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔...

جینے کا ہنر

تمدنی شعور

بحیثیت قوم اگر ہمارا جائزہ لیا جائے تو ہمارے معاشرے میں تمدنی شعور کا فقدان پایا جاتاہےہم خود کو اجتماعی ذمہ داریوں سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ہمارا رویہ یہ...

استقامت کی دعا‎

انسان جس کے لئے محنت کرتاہے وہ اسےمل جاتی ہے۔ فی زمانہ دین اوردینی رویوں کےحصول کےلیے محنت کرنےوالوں کی تعدادنہایت کم ہے۔ اپنےطویل تحریکی سفرمیں ایسےلوگوں کوبھی دیکھا...

غ ز ہ ! دور حاضر کا کربلا

اللہ کریم نے مسلمانوں کو چار حرمت والے ( عزت و احترام والے) مہینے عطا کیے ہیں ۔زیقعد ،ذی الحجہ ، محرم اور رجب۔ ان میں سے محرم الحرام...

“شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن”

قرآن میں اللہ نے شہید کو مردہ کہنے سے منع کیاہے۔ شہید میں حاضر ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ شہید کو حب الٰہی کی وجہ سے شہادت کے وقت درد...

 امریکی کانگرس کے بعد اقوام متحدہ!۔

امریکی ایوان نما ئندہ گان کے بعد جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری حراست ، انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے بھی پاکستان کے سابق...

اپنا آپ بھلائے بس خدمت

بعض اوقات مریم بہت اداس ہوجاتی۔ اسے ایسے لگتاجیسے اس کا کوئی ہے ہی نہیں۔ وہ دکھ سے سوچتی کہ زندگی کیا ایسے ہی گزر جائے گی؟  کیا خوشی،...

میڈیا واچ

معاشرے میں علماء کا کردار

کسی بھی معاشرے کا بنیادی یونٹ اس معاشرے کا خاندانی نظام ہے اور اس معاشرے کو بنانے کے لیے تین بہت اہم کردار ہیں جو اسے مہذب اور تعلیم...

الیکٹرانک میڈیا اور تبلیغِ اسلام

کائنات میں ہر لحظہ ارتقاء کا عمل جاری ہے۔ ہر صبح جب طلوع ہوتی ہے تو اپنے جلوؤں میں ترقی کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے اور...

مائی ری

أج اس فتنے کے دور میں ہم جن جن مشکلات کا شکار ہیں ان میں سر فہرست اولاد کی اچھی تربیت کرنا ہے۔ الحمدللہ ہمارے گھروں کا ماحول اچھا...

کوئی روکنے ٹو کنے والا نہیں؟

ٹیلی ویژن پر صبح کی ابتدائی نشریات بہت ہی اچھی ہوتی ہیں، تلاوت، حمد و نعت اور مختلف چینلز سے قرآن مجید ترجمے، خلاصے تفسیر اور دیگردینی پرگرامز پیش...

آپ کا مثبت انداز

گرچہ اس موضوع پر میں کافی مرتبہ لکھا جاچکاہے، لیکن جب کوئی اس نوعیت کی بات دیکھتی ہوں تو دل چاہتا ہے کہ چند جملے ہی سہی ضرور لکھوں،...

زندگی کا مقصد کیا یہی ہے؟

جب بھی کبھی ٹی وی کے کسی ڈرامے کے کچھ سین دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو بے اختیار کچھ لکھنے کو دل چاہتا ہے؛ یعنی کچھ ایسا دیکھنے...

مباحث

 امریکی کانگرس کے بعد اقوام متحدہ!۔

امریکی ایوان نما ئندہ گان کے بعد جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری حراست ، انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے بھی پاکستان کے سابق...

کوئی تو دیکھے گا

موبائل آن کریں، تو ! غزہ اور فلسطین کی خبریں منتظر نگاہ ہوتی ہیں ان نوجوانوں کی خبریں ہوتی ہیں، جنہوں نے اسرائیل کی قید میں ناقابل بیان ظلم سہے ان نوجوانوں...

بچوں کی شادی کے فیصلے

اولاد کی تعلیم و تربیت والدین کی ذمہ داری ہے ۔جس میں یہ مقدس ہستیاں اپنی تمام  effort serve كرتی ہیں ۔جیسے جیسے اولاد جوان ہورہی ہوتی ہے اب...

خطرناک نفسیاتی مسائل

ہمارے بچے ہمیں عزیز ہیں ہم انھیں خوش و خرم اور تندرست و توانا دیکھنا چاہتے ہیں ۔لیکن کبھی ہم نے غور کیایہ خواہش پوری کرنے کے لیے ہمیں...

ہیومن ملک بنک

تاریخ گواہ ہے کہ یہود بادشاہ ہیروٹ اینٹی پس جب روم کا بادشاہ بن چکا تو اس نے اپنے بھائی کے زندہ ہونے کے باوجود اپنی بھابی ہیرودیس سے...

بچوں کو رشتوں سے محبت سکھائیں

مصروف ترین دور میں کسی کے پاس دوسرے کے لیے وقت نہیں ایک نفسانفسی کا عالَم ہے ۔غرض اور مفاد کی دنیا میں انسان اس قدر  گُم ہوگیاہے کہ...

عشق ویکسوئی کی داستان

اللہ قدردانی کرنے والا، اپنے بندوں کی قربانیوں کو قبول کرنے والا اگر کوشش اللہ کے لیے ہو تو پھر اُس کا درجہ بھی انتہائی بڑا ہوتا ہے۔حضرت ہاجرہ ...

اُمت کی مائیں‎

اقبال نے کیا خوب کیا،،، وہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی یہ تو درست ہے کہ جسے اللہ نے نبی چننا ہوتا...

قربانی قرب الٰہی کا ذریعہ‎

مسلم معاشرے کی روح قربانی ہی ہے۔ ایمان تو سچے مومن میں فوری یہ روح پیدا کر دیتا ہے۔ فرعون کے دربار کے جادوگر جو بحثیت جادوگر فرعون سے...

اہم بلاگز

ڈے کئیر سنٹرز ! ممتا کا متبادل ؟

ڈے کئیر سنٹرز میں بچوں کو رکھنے کا تصور نیا اس لئے نہیں کہ جب ہمارے ہاں ملازمت پیشہ یا مصروف کاروباری خواتین کے پاس بچوں کی دیکھ بھال کا وقت نہیں ہوتا تو گھر میں ساس ( بچوں کی دادی ) یا پھوپھو ایک طرح سے بچوں کی پورا دن دیکھ بھال کرتی ہیں اور وہ بھی بلا معاوضہ ۔ میری ایک کزن اپنی بچیوں کو اپنی والدہ کے پاس پورا دن کے لئے چھوڑ کر آتی تھیں اور اس دوران وہ ان کی طرف سے بالکل بے فکر ہوجاتی تھیں ۔ بچوں کو کوئی ٹھوس غذا دینی ہو یا وہ رو رہا ہو یہ سب کام نانیاں اور دادیاں بخوشی کر لیا کرتی تھیں لیکن اب حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈے کئیر سینٹرز بن رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ایسے مراکز قائم ہیں کیونکہ یہاں کی خواتین ہی زیادہ تر نوکری کرتی ہیں ۔ ہمارے ملک کے اداروں کے قانون کے مطابق جن اداروں میں پچاس یا اس سے زیادہ خواتین ملازمت پیشہ ہوں وہاں ایسے دفاتر کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈے کئیر کی سہولت فراہم کریں ۔ سن دو ہزار سات میں جرمنی میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ڈے کئیر سینٹرز سے متعلق اہم فیصلے کرنا تھے لیکن اس کا اطلاق بہت دیر سے یکم اگست دو ہزار تیرہ میں ہوا ۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ کتنی عمر کے بچے یہاں ڈے کئیر سنٹرز میں ہوں ۔ عموما یہاں بچوں کو دو طرح کے گروپس میں بانٹا جاتا ہے جن میں ایک بہت ہی چھوٹے یعنی نوزائیدہ ہوتے ہیں جیسے فاطمہ جناح یونیورسٹی میں تین سے سات ماہ کی عمر کے بچے رکھے جاتے ہیں۔ کیوبا میں تین ماہ سے کم عمر بچے کو ڈے کئیر سنٹرز میں نہیں لیتے ۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو خود بھی ڈے کئیر سنٹرز کی سہولت فراہم کرتے ہیں جیسے کئی بڑی کمپنیاں اور تعلیمی ادارے جہاں ان بچوں کی مائیں تدریس کے فرائض سرانجام دیتی ہیں ۔ عمر کا فرق ہر جگہ پر مختلف ہے ۔ فیس کے معاملے پر آئیں تو پہلے رجسٹریشن فیس ہی اڑھائی ہزار روپے سے شروع ہو رہی ہے اور ماہانہ فیس تین سے پانچ ہزار تک یہ بھی صرف ایک اندازہ ہی ہے کیونکہ آج کل کی مہنگائی کے مطابق فیس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ جاپان میں بیس لاکھ سے زاید بچے ڈے کئیر سینٹرز میں رہتے ہیں ۔ ڈے کئیر سینٹرز کے اگر فوائد ہیں تو وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں لیکن ان کے نقصانات کی فہرست کافی طویل ہے ۔ بلاشبہ ڈے کئیر سنٹرز ایسے ہیں جہاں خواتین جو ملازمت پیشہ ہوں انہیں آسانی ملتی ہے کہ وہ وہ تمام تر تفکرات سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتی ہیں لیکن کیا وہاں موجود آیا اور دیگر خدمت گار خواتین ممتا کا نعم البدل ہیں ؟ یقیئنا نہیں ۔ بچہ بیمار ہو یا کسی بھی الجھن کا شکار ہو ماں کے ایک ہلکے سے لمس سے ہی ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ میں نے...

غ ز ہ ! دور حاضر کا کربلا

اللہ کریم نے مسلمانوں کو چار حرمت والے ( عزت و احترام والے) مہینے عطا کیے ہیں ۔زیقعد ،ذی الحجہ ، محرم اور رجب۔ ان میں سے محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جبکہ ذی الحجہ آخری مہینہ ہے۔ پہلے اور آخری دونوں مہینوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے" قربانی "۔ غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ،ابتدا ہے اسماعیل یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ اولاد آدم کو سب سے زیادہ عزیز اس کی اپنی اولاد ہوتی ہے۔ ذی الحجہ کے مہینے میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا اللہ کے حکم کے آگے سرنگوں ہوتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کو قربانی کے لیے لٹانا ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم بھی رب العالمین کے سامنے اپنی جان و مال اور نفس کی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ جب بھی حکم ربی ہو ہم اسے ادا کرنے میں پل بھر کی بھی تاخیر نہ کریں۔ دوسری قربانی محرم الحرام کے مہینے میں نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی، اپنے اہل و عیال کے ساتھ کربلا کے میدان میں دی گئی۔ یہ قربانی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ظالم اور جابر حکمران کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے بلکہ اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا ہے ۔جب معرکہ حق و باطل ہو تو حق کی خاطر ڈٹ جانا ہے خواہ اس راہ میں اپنی جان و مال، آل و اولاد سب کچھ قربان کر دینا پڑے ہمیں ہر وقت اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہے آج غ ز ہ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ اہل غ ذ ہ اسوہء ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنی عزیز ازجان ،اپنی متاعِ حیات یعنی اپنی اولاد کو قربان کر رہے ہیں کیوں۔۔۔۔؟ صرف اور صرف رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ۔۔۔ وہ دنیاوی لذتوں کے حصول کے بجائے جنت کے خریدار بن رہے ہیں ۔ غ زہ کا میدان آج کربلا کے میدان کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں معصوم بچوں پر پانی بند ہے، کھانا میسر نہیں، بموں کی بارش ہے جس میں ننھے بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔ آفرین ہے ان معصوم زخمیوں پر کہ جب ڈاکٹر بیہوشی کی دوا نہ ملنے پر ان کا آپریشن ہوش میں ہی کرتے ہیں تو وہ چیخیں نہیں مارتے بلکہ ان کے لبوں پر قرآن مجید کی تلاوت جاری رہتی ہے۔ الغرض کے دونوں قربانیوں کے پیغام کو اہل غ ز ہ نے نہ صرف سمجھا ہے بلکہ ان پر عمل پیرا ہو کر اپنا شمار سابقون والاولون میں کروا رہے ہیں ۔ غ زہ کے میدان میں ماؤں کی گود میں ہمکتے ہوئے پیاسے بچے معصوم علی اصغر کی یاد دلا رہے ہیں۔ کہیں مثل "جگر گوشہء حسین" سکینہ جیسی بچیاں بھوک سے بلکتی نظر آ رہی ہیں۔ کہیں خوبصورت، صحت مند اور کڑیل نوجوانوں کی کٹی پھٹی لاشیں علی اصغر اور علی اکبر شہید کی یاد دلارہی ہیں۔ اس میدان کرب و بلا میں حضرت...

 امریکی کانگرس کے بعد اقوام متحدہ!۔

امریکی ایوان نما ئندہ گان کے بعد جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری حراست ، انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے بھی پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قید کیا گیا مناسب یہ ہو گا کہ مسٹر خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں معاوضے کا حق دیا جائے۔ ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں سائفر اور پہلے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو بنا کسی قانونی جواز کے گرفتار اور نظر بند کیا گیا اور ان پر مقدمات چلائے گئے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے تاکہ سابق وزیرِاعظم اور ان کی جماعت کو انتخابات کی دور سے باہر رکھا جا سکے۔ سائفر کیس میں عمران خان کو ہونے والی سزا کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔’بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ ان (عمران خان) کے اقدامات سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی۔‘   ورکنگ گروپ کا مزید کہنا ہے کہ پٹیشن دائر کیے جانے کے بعد انہوں نے حکومتِ پاکستان سے ان الزامات کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی تاہم پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔حکومت کی جانب سے کسی بھی طرح کی تردید کی غیر موجودگی میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے خلاف قائم مقدمات کا تعلق ان کی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے ہے اور ان مقدمات کا مقصد سابق وزیرِ اعظم اور ان کے حامیوں کو خاموش کروانا اور انھیں سیاست سے دور رکھنا ہے۔‘ امریکی ایوان نما ئندہ گان کے بعد جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ بانی تحریکِ انصاف عمران خان کے خلاف اقدامات اور مقدمات سے متعلق سب کچھ بخوبی جانتے ہیں ، اس لئے کہ جو کچھ عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف ہوا ، ایبسلوٹلی ناٹ، کے بعد ان کی خواہشات کے مطابق ہوا اور ہو رہا ہے ، امریکہ اور اس کے درباری نہیں جانتے تھے کہ عمران خان ایک عوامی قوت ہیں ، وہ پاکستانیوں کے دل پر راج کرنے والے پاکستان سے مخلص قائد عوام ہیں ۔ لیکن آج امریکہ اور اس کے درباری جان گئے ہیں کہ ہم نے جو کیا غلط کیا ، دنیا کی نظروں میں وہ اپنے منافقانہ کردار میں ننگے ہو گئے ہیں۔ اگر آج امریکہ اور اس کے حواری عمران خان کے حق میں بول رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عمران خان یا پاکستان کی عوام سے مخلص ہیں، دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اپنے کردار میں ہاتھی کی مثال ہے ، اس کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور ہیں ، ، اس لئے پاکستان کی محب وطن عوام کو ایسی کوئی غلط فہمی نہیں کہ امریکی کانگرس اور اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ عمران خان او ر تحریک انصاف کے زخموں پر مرحم رکھے گا ۔  امریکہ اور اقوام متحدہ نے وقت کے شیطان اسرائیلی حکمران...

عُمَرؓ بن خطاب

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان اسلام سے پہلے غلافِ کعبہ سے لپٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت چھپ کر سن رہے تھے تودل میں سوچنے لگے یہ شاعر ہیں ۔ نبی کریم ﷺسُورۃ الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے یہ کسی شاعر کا قول نہیں۔ عمر نے پھر سوچا یہ ضرور کاہن ہیں۔ نبی کریم نے پھر تلاوت کی اور نہ کسی کاہن کا قول ھے۔ قرآن کی حقانیت اسی وقت دل میں گھر کر گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےدعا کی اے اللّٰہ! عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابو جہل ) میں سے کسی ایک کو میرا مدد گار بنا دے۔ ہدایت ملنے نہ ملنے کا سارا فلسفہ اسی دعا سے ملتا ھے۔ دونوں کرداروں کا جائزہ صرف ہجرت حبشہ سے لیں تو عمر بن خطاب خالہ زاد بہن کے جانے پر ان کے گھر گئے تو اتنی قدآور شخصیت اپنے آنسو نہ چھپا سکی۔ دوسری طرف عمر بن ہشام ہجرت کر نے والوں کو مار نے کے درپے تھا، ان کی زمینوں پر قبضے کر رھا تھا۔ حضرت عمر ایمان لائے تو پہلی بار علی الاعلان نماز پڑھی گئی۔ حضرت عمر کی حکومت کے چند واقعات کا موجودہ جمہوری حکومت سے موازنہ کریں تو اللّٰہ کی زمین پر اللّٰہ کے نظام کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ ھوتا ھے۔ جب کسرٰی کاتاج حضرت عمر کے پاس لایا گیا تو فرمایا کیسے ایمان دار لوگ ھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا قوم نے آپ کو پاکیزہ پایا تو پاکیزہ ہو گئی۔ آج حکمران کرپٹ ہیں تو عوام بھی کرپٹ ۔ ایک مرتبہ گورنر مصر عمرو بن العاص کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلا قصور کوڑے مارے تو گورنر مصر کوان کے بیٹے سمیت واپس بلوالیا اور قبطی سے اتنے ہی کوڑے بیٹے کو اور دو کوڑے عمرو بن العاص کو مارنے کا حکم دیا اور فرمایا اے عمرو ! ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا تم نے کب سے ان کو غلام بنا لیا۔ آج ایک کرنل کی بیوی ناحق سرکاری اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دیتی ھے کہ اس کی گاڑی کو کیوں روکا گیا۔ ایک گورنر سے جب بیت المال کا حساب مانگا تو اس نے کہا یہ بیت المال کا اور یہ میرے تحائف ہیں تو گورنری سے معزول کر کے بکریاں چَرانے پر لگا دیا۔ ایک دن بکریاں چرا رھے تھے حضرت عُمَرؓ پاس سے گزرے تو پوچھا کوئی تحفے آئے وہ شرمندہ ہو گئے تو فرمایا تحفے تمہاری ذات کو نہیں سرکار کو ملے اور سرکاری خزانے میں جمع کرنے ہوتے ہیں، آج کروڑوں کے سرکاری تحائف بیچ کر کھانے والے بھی خود کوصادق اور امین سمجھتے ہیں۔ ایک خاتون نےپانی ابلنے کو رکھا کہ بچے کھانا سمجھ کر بہل جائیں اور سو جا ئیں۔ ایسے میں حضرت عمر رات کو گشت پر تھے یہ صورتحال دیکھی تو بیت المال سے کھانے کا سارا سامان لا کر دیا خاتون کہنے لگی اس عمر کو تو میں قیامت میں پوچھوں گی حکمرانی کے لائق تو تم ہو حضرت عمر...

بچوں کی شادی کے فیصلے

اولاد کی تعلیم و تربیت والدین کی ذمہ داری ہے ۔جس میں یہ مقدس ہستیاں اپنی تمام  effort serve كرتی ہیں ۔جیسے جیسے اولاد جوان ہورہی ہوتی ہے اب والدین کو ان کی شادیوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ۔لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ فقط شادی کروادینا ہی کمال ہے یا  شادی کروانے سے پہلے اہم اور ضروری باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ شادی  جیسا بڑاایونٹ تو سجا لیا سرمائیہ بھی صرف ہوا۔لیکن بعد میں معلوم ہواکہ وہ بیٹے یا بیٹی کا رشتہ کسی طور پر بھی معقول نہیں تھا ۔ قارئین:بعد کے رونے سے پہلے والدین  کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں ۔یہاں ہم کچھ باتیں آپ سے shareكرنے جارہے ہیں جو بچوں کے رشتے اور شادی کے حوالے سے والدین کے لیے کافی مددگار ثابت ہوں گیں ۔آئیے جانتے ہیں ۔ کھلی بات چیت:Open Communication:ْ  ایک ایسے ماحول کو فروغ دیں جہاں والدین اور ان کے بچے کے درمیان کھلی بات چیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔منگنی ،شادی وغیرہ کے معاملے میں بچوں کے  خیالات، خواہشات اور خدشات کو سنیں۔ باخبر فیصلہ کرنے میں ان کے نقطہ نظر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ انفرادی انتخاب کا احترام کریں:Respect Individual Choices: اپنے بچوں کو اقرار و انکار اور انتخاب کا حق دیں ۔تاکہ وہ آپ کے سامنے اپنی ترجیحات، اقدار اور خواہشات کا اظہارکرسکیں ۔ ان کی خودمختاری کا احترام کریں اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں فعال طور پر حصہ لینے کی اجازت دیں۔ اس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ فیصلہ ان کی خوشی اور بھلائی کے مطابق ہے۔نیز پھر آئندہ یہ اپنی ذمہ لیتے ہوئے اس رشتے کو بھرپورانداز میں نبھانے کی کوشش بھی کریں گے ۔ مطابقت پر غور کریں: Consider Compatibility: اپنے بیٹے و بیٹی کا رشتہ طے کرتے ہوئے اس بات کا ضرور اندازہ کرلیجئے کہ آپکے بیٹے یا بیٹی اور سامنے والے بچے بچی میں کس حد تک خیالات و طبیعت میں کس حد تک مطابقت ہے ۔یہ  مطابقت شادی کی کامیابی اور خوشی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ خاندانی پس منظر کا اندازہ کریں:Evaluate Family Dynamics: آپ والدین ہیں آپکی ذمہ داری بھی اہم ہے ۔چنانچہ اپنے بچوں کے ہمسفر کا انتخاب کرنے چلے ہیں تو ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ آپ اس خاندان کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کریں تاکہ آپ کو ان کی طبیعت ،مزاج ،ترجیحات کا اندازہ ہوسکے ۔یہ معلومات آپ کو رشتوں کو سمجھنے اور بچوں کی ازدواجی زندگی بحال رکھنے میں بہترین  مددگار ثابت ہوگی ۔ مشورہ طلب کریں: Seek Advice: ہم اس دنیا میں تنہا نہیں جی سکتے چنانچہ کہیں ہمارے خونی رشتے ہوتے ہیں اور کہیں ہمارے سماجی رشتے ہوتے ہیں چنانچہ آپ بچوں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے چلے ہیں تو لازمی لازمی خاندان کے بھروسہ مند افراد، دوستوں، یا بزرگوں سے مشورہ لیں جنہیں اسی طرح کے فیصلے کرنے کا تجربہ ہے۔ان کی بصیرت اور نقطہ نظر ممکنہ شادی کے ساتھی کی مناسبت  کا اندازہ لگانے میں قابل قدر رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ان کا تجربہ ،ہمدری اور دعائیں آپ کے اہم اور ذمہ داری...

سب سے زیادہ پڑھے جانے والے بلاگ

حضرت علی ؓکی شہادت

حضرت علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود خنجر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا، علی ؓبن ابی طالب زخمی ہوئے، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی، آپؓ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہٖ وآلہٖ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے۔حضرت علی ؓ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، حضرت علی ؓ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ؐ ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی ﷺمیں موجود ہیں کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ حضرت علیؓ کا حسبِ نسب: آپ ؓکے والد حضرت ابو طالب اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اوروہیں پرورش پائی۔ پیغمبرکی زیرنگرانی آپ کی تربیت ہوئی، وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضورؐ ان کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔آپ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ حضرت علیؓ سے منسوب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چند احادیث: عالم ِ اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درجہ ذیل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ”علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں“ ”تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علیؓ ہے“ ”علیؓ کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی“ ”یہ (علیؓ) مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے“ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تین فضیلتیں: وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علیؓ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا۔آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔ 19حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ...

معاشرے کی تعمیر میں اساتذہ کا کردار

(یوم اساتذہ پر اساتذہ کے نام ایک پیغام) استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے ۔ ابتدائے افرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑپودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیاتک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے ۔ اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔آپﷺ نے فرمایا’’انماانا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلمکم‘‘(میں تمہارے لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہوں)۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے ۔آپؓ نے فرمایا’’کاش میں ایک معلم ہوتا۔‘‘ استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لئے بیشک عظیم اور محسن ہے۔باب العلم خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتا یا میں اس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے تو مجھے بیچے ،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔‘‘شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال ؒ معلم کی عظمت یو ں بیان کرتے ہیں۔’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔‘‘ معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا...

موثر تدریسی خصوصیات 

تدریسی اصولوں کا موثراستعمال:۔تدریس ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک فن ہے۔ پیشہ وارانہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے لئے استاد کا فن تدریس کے اصول و ضوابط سے کم حقہ واقف ہوناضروری ہے۔ ایک باکمال استاد موضوع کو معیاری انداز میں طلبہ کے ذہنی اور نفسیاتی تقاضوں کے عین مطابق پیش کرنے کے فن سے آگاہ ہوتا ہے۔ معیاری اور نفسیاتی انداز میں نفس مضمون کو پیش کر نا ہی تدریس ہے۔ موثر تدریس کے لئے ،کسی بھی موضوع کی تدریس سیقبل، استاد کا موضوع سے متعلق اپنی سابقہ معلومات کا تشفی بخش اعادہ ا ور جائزہ بے حد ضروری ہے۔ سابقہ معلومات کے اعادہ و جائزہ کے علاوہ موضوع سے متعلق جدید تحقیقات و رجحانات سے لیس ہوکر اساتذہ اپنی شخصیت کو باکمال اور تدریس کو بااثر بنا سکتے ہیں۔ موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کا تدریسی مقاصد سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعے اساتذہ مقاصد تعلیم کی جانب کامیاب پیش رفت کر سکتے ہیں۔ موثر تدریس اورتعلیمی مقاصد کے حصول میں تدریسی اصول نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔تدریسی اصولوں سے اساتذہ کیوں، کب اور کیسے پڑھانے کا فن سیکھتے ہیں۔تدریسیاصولوں کا علم اساتذہ کو تدریسی لائحہ عمل کی ترتیب اور منظم منصوبہ بندی کا عادی بناتا ہے۔کیوں، کب ، اورکیسے پڑھا نے کااصو ل اساتذہ کی مسلسل رہنمائی کے علاوہ تدریسی باریکیوں کی جانکاری بھی فراہم کرتا ہے ۔ تدریسی اصولو ں پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ موثر اور عملی تدریس کو ممکن بناسکتے ہیں۔تدریسی اصول بامقصد تدریس،نئے تعلیمی رجحانات ، تجزیہ و تنقید، مطالعہ و مشاہدہ ،شعور اور دلچسپی کو فروغ دیتے ہیں۔ تدریسی اصولوں پر قائم تعلیمی نظام نتیجہ خیز اور ثمر آورثابت ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پرکاربند استا د معلم سے زیادہ، ایک رہنما اور رہبرکے فرائض انجام دیتاہے۔ جدید تعلیمینظریات کی روشنی میں استاد ایک مدرس اور معلم ہی نہیں بلکہ ایک رہبر اور رہنما بھی ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے عدم آگہی کی وجہ سے ہم اس نظریہ تعلیم کو جدیدیت سے تعبیر کر رہے ہیں جب کہ یہ ایک قدیم اسلامی تعلیمی نظریہ ہے جہا ں استاد کو معلومات کی منتقلی کے ایک وسیلے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک مونس مشفق مربی رہنما اور رہبر کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ تدریسی اصولوں سے باخبر استاد بنیادی تدریسی و نفسیاتی اصولوں کی یکجائی سے تعلیم و اکتساب کو طلبہ مرکوز بنادیتا ہے۔ذیل میں اہمیت کے حامل چند نمایاں تدریسی اصولوں کو بیان کیا جارہاہے ۔ (1) ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کیئے بغیر موثر تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میلان ترغیب و تحریک کے مرہون منت جاگزیں ہوتاہے۔ حصول علم، پائیدار اکتساب اور علم سے کسب فیض حاصل کرنے کے لئے طلبہمیں دلچسپی اور تحریک پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔تدریس میں ہر مقام پر طلبہ میں محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا کیئے کامیاب اکتساب ممکن ہی...

اردو ادب کی تاریخ

اردو زبان کی ابتداء زبان اردو کی ابتداءو آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداءکی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی ۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ دکن میں اردو:۔ نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالا بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں ۔ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ” عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اسلیے دکن میں اردو کی ابتداءکا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد وشمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطینکی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کےارتقاءسے ہے۔ ابتداءسے نہیں۔“ اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن ) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے ، یہاں سے کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے ۔ طلو ع اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر ، مال تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقینا پیدا ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا...

نبی امُیﷺ بحیثیت معلم 

چودہ سو سال پہلے عرب کے قبائلی معاشرے میں عمر کے چالیس برس گذارنے والے امی ( غیر پڑھے )فرد  کے قلب پر وحی کا نزول  ہوتا ہے اور وہ رہتی دنیا کے لیے معلم اعظم بن جاتے ہیں ۔آپ ﷺ نوید مسیحا اور دعاۓ خلیل ہیں ۔ابراہیم ؑ،بیت اللہ کی دیواریں اٹھاتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔ "اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیے جو انھیں تیری آیات سنائے ،ان کو کتاب اور حکمت کی  تعلیم  دےاور ان کی زندگیاں سنوارے " البقرہ  129 لفظ اقرا سے نبوت کا آغاز ہوا۔آپﷺ کی ذات تمام انسانوں کے لیے نمونہ قرار پائی۔آپ ﷺنے "انما بعثت معلما""مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے" کے ذریعے  اپنا مقام واضح کر دیا۔ اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا       اوراک  نسخہ کیمیا   ساتھ لایا تہذیب و تمدن سے عاری  انسانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ صبر آزما کام تھا۔ مگر آپ ﷺ نے تعلیم  کے جو اصول ،تکنیک استعمال کیے وہ آج بھی عین حق ہیں ۔ جن کے بنا سیکھنے سکھانے کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ  بحیثیت معلم  درج ذیل نکات  پر عمل پیرا رہے۔ مقصد کی لگن : ایک معلم  کا   بلندمقصد ہمیشہ اس کے مطمح نظر رہتا ہے ۔"اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کر نا  " اس عظیم مقصد کے لئے غار حرا سے اتر تے ہی آپ ﷺ  ہمہ تن مصروف عمل ہوگئے۔ پہلے  گھر اور خاندان  کودعوت دی پھر قبیلہ کو متوجہ کیا ۔ دور نبوت کا ہر لمحہ گواہ ہے کہ آپ اپنے مقصد میں کبھی مصلحت یا مداہنت کا شکار نہیں ہوئے  قران  میں اس کیفیت کی تصویر کشی   ہے ۔ " کہ دو  کہ اے کافروں  میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن  کی عبادت تم کرتے ہو،  نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں  اور نہ  میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت  میں کرتا ہوں، تمھارے لیئے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین" سورہ الکافرون لوگوں کا مذاق سہا،گالیاں سنیں ،پتھر کھائے،شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیے گئے ،حتی کہ اپنے محبوب شہر  مکہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ دنیا وی ترغیبات ،تخت وتاج  پیش کیے گئے جن کو آپﷺ نے ٹھکرا دیا مگر مقصد سے ایک لمحہ کو بھی غافل نہ ہوئے ۔ درد مندی : انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کررب واحد کی بندگی پر آمادہ  کرنے کے لیے آپ ﷺ پیغمبرانہ  صفت دلسوزی اور تڑپ سے مزین تھے۔اپنی قوم کو گمراہی سے نکالنے کے لیے شب و روز دل گداز  کیفیت میں گذارتے رہے۔ حدیث میں ہے " میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے ۔وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اسکی ایک نہیں چلنے دیتے ۔ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن...

خبر لیجیے زباں بگڑی - اطہر ہاشمی

طنز و مزاح

اسکول کھول دیں

جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں  آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔  خالہ،  پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔  بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔  اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔ اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ  سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش  ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں  حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں  بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو  کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...

کہاں کی بات کہاں نکل گئی

قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔ اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔ دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔ گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ 2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...

والدین اور بیٹیاں

آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے"  جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔ اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔ تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو  leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔

زندگی بدل گئی !

شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔ فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔ خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔ ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...

بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان

بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔ ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔ کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔ ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔ ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔ نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔ I am vaccinated کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔ یہ بلائے ناگہانی ہے بس...

ہمارے بلاگرز