ٹیلی ویژن پر صبح کی ابتدائی نشریات بہت ہی اچھی ہوتی ہیں، تلاوت، حمد و نعت اور مختلف چینلز سے قرآن مجید ترجمے، خلاصے تفسیر اور دیگردینی پرگرامز پیش کئے جاتے جو اچھے ہوتے ہیں۔ مگر جیسے ہی یہ دینی پروگرام ختم ہوتے ہیں پھر وہی لوفر قسم کے اشتہارات اور بے ہودہ ڈرامے اور ان کی جھلکیاں دکھا کر سارا ہی ماحول بدبودار کر دیا جاتا ہے۔
صبح کے ناشتے کے بعد بڑوں کے دفاتراوربچوں کے اسکو لز، کالجز جانے کے بعد جب ذرا ٹی وی کھولو توتو بہ توبہ ! مجرے لگے ہوتے ہیں! اتنے واحیات بے ہودہ پروگرامزڈنکے کی چوٹ دکھائے جارہے ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی دین ایمان اور حیا موجود ہی نہیں۔ اورایسے ایسے بے حیائی کے پروگرامز آتے ہیں کہ اللہ معاف کرے، ان کو نشر کرنے کی جیسے کھلی چھٹی مل گئی ہو کوئی روکنے ٹو کنے والا نہیں۔
پر وگرامزبنانے والوں کے ساتھ ایکٹرز، اینکرز، مہمان، میزبان سب بالکل ہی اسلامی معاشرت کے تضاد ہوجاتے ہیں نہ لباس کے تقاضے پورے ہوتے ہیں نہ کسی مقدس تہوار کا خیال رکھا جاتا ہے، یہ بے حیائی اور ہٹ دھرمی کیوں ہے؟
برائی دیکھا نے اوردیکھنے والے سب بے حس ہوگئے ہیں، معذرت کے ساتھ پارٹی میک اپ سے لیکر مایوں مہندی اور نہ جانے دلہنوں کی تیاری وہ بھی۔ لباس سے لیکر جیولری ہار سنگھار بڑے اعتماد سے نوجوان (لڑکوں) میک اپ آرٹسٹ کے سپرد؟ وہ بال بنائے، سجائے، میک اپ کرے، دوپٹہ تک سیٹ کرنے کی آزادی دے دی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ دیگر کٹ پتلی مہمانوں اور میزبانوں کے نخریلے انداز اور بے تکے سوال جواب جیسے انتہائی اہم اور ضروری معلومات ہوں! چل رہے ہوتے ہیں مزید عوام کوبھی ویڈیو کالزکے ذریعے شامل کیا جاتا ہے۔
کیا کوئی چیک بیلنس نہیں ؟ ایمان کی ڈیمانڈ کیا ہے، معاشرے کے اقدار کیا ہیں اور ہماری اسلامی تہذیب اور کلچر کیا کہتا ہے؟ اس کی کسی کو کوئی فکر نہیں ۔پھر جب برائی کو اتنی کھلی آزادی سے معصومانہ سمجھ کر پیش کیا جائیگا تو کیوں نہ برائی پر وان چڑھے گی اور وہ المناک واقعات ہونگے جنکی وجہ سے نہ صرف ملک بدنام ہو رہا ہے۔
آج اسلام اورمسلمانوں پر ساری دنیا اعتراض کر رہی ہے پھر ہم خود اپنا انجام بالکل ہی بھولے بیٹھے ہیں۔ ہماری زندگی کیا چاہ رہی ہے اورہم کیا کررہے ہیں۔
اتنی برائی پھیلتی جارہی ہے کہ ایک دن میں نے پڑوسن کی بڑی بیٹی سے بات کی جس کی سات بہنیںہیں سب شادی شدہ ہیں ، ا س نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ آنٹی میں تو خود بلکہ ہم سب جینٹس سے بال کٹواتے ہیں۔کسی اور سے ہمیں سمجھ نہیں آتا،جب امائیں ایسی ہونگی تو نسلوں کی کیا تربیت ہوگی کیسے پروان چڑھیں گی ؟ کون ذمہ دار اس تباہی کا، اس آزادی کا، ہم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں، عذاب کو دعوت دے رہے ہیں، وہ ہے کہ ہمیں ڈھیل دیئے جا رہا ہے۔
میری گزارش ہے ان میڈیا والوں سے خدارا اپنا قیمتی وقت اور صلاحیت معاشرے کے سدھار اور اپنی آخر ت کے لئے لگائیے۔ معاشرے کو برائی سے بچائیے اور حیا امن و آشتی کا پودا لگائیے کیونکہ آپ جتنا اچھا پیغام پہنچا سکتے ہیں یہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ آپ کی گرفت میں ہے اور موقع بار بار نہیں ملتا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں آنکھ، کان، زبان، دل سمیت اپنے جسم کے تمام اعضاء کا صحیح اور جائز استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین