معاشرے کی تعمیر میں اساتذہ کا کردار

(یوم اساتذہ پر اساتذہ کے نام ایک پیغام)
استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے ۔ ابتدائے افرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑپودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیاتک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے ۔ اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔آپﷺ نے فرمایا’’انماانا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلمکم‘‘(میں تمہارے لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہوں)۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے ۔آپؓ نے فرمایا’’کاش میں ایک معلم ہوتا۔‘‘ استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لئے بیشک عظیم اور محسن ہے۔باب العلم خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتا یا میں اس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے تو مجھے بیچے ،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔‘‘شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال ؒ معلم کی عظمت یو ں بیان کرتے ہیں۔’’استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔‘‘ معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔باپ بچے کو جہاں اپنی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم کرتا ہے۔سکندر اعظم نے کہا کہ اس کے والدین اسے آسمانوں سے زمین پر لے آئے ہیں جب کہ استاد اس کو زمین سے آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔بطلیموس استا دکی شان یوں بیان کرتاہے ’’استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے۔‘‘
تدریس کا دگر شعبہ جات زندگی سے تعلق؛ زندگی کے تمام پیشے پیشہ تدریس کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عدلیہ ،فوج،سیاست ،بیوروکریسی ،صحت ،ثقافت،تعلیم ہو یا صحافت یہ تمام ایک استاد کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مذکورہ شعبہ جات میں عدل ،توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یہ صالح اساتذہ کی تعلیمات کا پرتو ہے اور اگر اساتذہ کی تعلیمات میں کہیں کوئی نقص اور کوئی عنصر خلاف شرافت و انسانیت آجائے تب وہ معاشرہ رشوت خوری ،بدامنی اور نیراج کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔ استاد کو ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کی وجہ سے ہی معمار قوم کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔ استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر ذرہ برابر بھی چوک جائیں تب معاشرہ کی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ حیوانیت نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے۔تعلیم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔استاد کو افراد سازی کے فرائض کی ادائیگی کے سبب معاشرے میں اسے اس کا جائزہ مقام فراہم کیا جانا ضروری ہے۔معاشرتی خدمات کی ادائیگی کے سبب معاشرہ نہ صرف استادکو اعلیٰ اور نمایا ں مقام فراہم کرے بلکہ اس کے ادب اور احترام کو بھی ہر دم ملحوظ خاطر رکھے۔ہر معاشرے اور مذہب میں استاد کو ملنے والی اہمیت اساتذہ سے خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا تقاضہ کرتی ہے۔امام اعظم ابوحنیفہؒ سے ان کی عزیز شاگرد حضرت امام یوسف ؒ نے پوچھا کہ ’’ استاد کیسا ہوتا ہے؟‘‘۔ آپ ؒ نے فرمایا ’’استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہوتو غور سے دیکھو ،اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے۔‘‘امام اعظم ؒ کے اس قول کی روشنی میں اگر اساتذہ کو پرکھا جائے تو معاشرے میں مادیت پرستی کا غلبہ ہمیں واضح نظر آئے گا۔استاد معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے والا ہوتا ہے لیکن صد افسوس کہ آج یہ پیشہ( چنداستشنات کے)اپنی عظمت اور وقار کو تقریبا کھو چکا ہے۔پیشہ تدریس آج صرف ایک جاب(نوکری)،اسکیل(تنخواہ) اور ترقی کی حد تک محدود ہوچکا ہے۔استاد اور شاگرد کامقدس رشتہ کہیں کھو گیا ہے۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ اس قوم کو عروج اور ترقی نصیب ہوئی جس نے اپنے اساتذہ کی قدر و منزلت کی۔ مشہور پاکستانی ادیب ،دانشور ماہر تعلیم جناب اشفاق احمد صاحب مرحوم جب اٹلی میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تب ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ان کا چالان کیا گیا ۔اپنی مصروفیت کی وجہ سے جب انھوں نے چالان ادانہ کیا تب ان کو چالان کی عدم ادائیگی اور عدم حاضری کے سبب عدالت میں پیش کیا گیا ۔جج نے چالان کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ دریافت کی تو اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں اور اپنی تدریسی سرگرمیوں کی وجہ سے چالان کی بروقت ادائیگی سے قاصر رہے۔ جج کو جب پتہ چلا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں تب وہ اپنی کرسی سے احتراما کھڑا ہو گیا اور حیرت و استعجاب سے کہنے لگا “A teacher in the Court( ایک استاد عدالت میں) ، یہکہتے ہوئے ان کا چالان معاف کردیا۔ اٹلی میں بھی ہمارے وطن عزیز کی طرح اساتذہ کی تنخواہیں دلکش نہیں ہیں لیکن وہاں آج بھی تمام رتبے جج،بیوروکریٹس،تجار،پولیس،سیاستدان وغیرہ سب استاد کے پیچھے یو ں چلتے ہیں جیسے ماضی میں غلام اپنے آقاؤ ں کے پیچھے چلتے تھے۔ استاد کی یہی تعظیم مغربی معاشر ے کی عروج کی داستان ہے۔ وہیں مشرقی معاشرے جو اساتذہ کے ادب و احترام کی بنا بام عروج پر تھے اساتذہ کے ادب و احترام کے اعراض کے سبب تنز ل کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔استاد کا مقام مادیت پرستی اور ماہانہ مشاہیرہ سے بالاہے۔اس سے یہ مراد ہر گز نہ لی جائے کہ اساتذہ کی اپنی ضروریا ت نہیں ہوتی ہیں۔اساتذہ کے ہاتھوں میں معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ کی کلید ہونے کی وجہ سے ان کا مقام نمایا ں و بلند ہوتا ہے۔معاشرہ استاد کو ایسے نمایا ں مقام پر فائز کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ دنیا کے باقی شعبوں کی طرح اپنے ہاتھمنفعتاور مراعات کی لالچ میں آلودہ نہ کریں ۔
استا د کی ذمہ داریاں؛ استاد نسل نو کی تربیت کا اہم کام انجام دیتا ہے ۔ہر قوم و مذہب میں استاد کو اس کے پیشے کی عظمت کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔استاد طلبا کو نہ صرف مختلف علوم و فنون کا علم دیتاہے بلکہ اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ ان کی تربیت کا کام بھی انجام دیتا ہے۔معاشرے کی زمام کار سنبھالنے والے افراد خواہ وہ کسی بھی شعبے اور پیشے سے وابستہ ہوں اپنے استاد کی تربیت کے عکاس ہوتے ہیں۔استاد کا اہم اور بنیادی فریضہ انسان سازی ہوتا ہے۔اگرچیکہ اس کام میں نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کے اثرات بھی شامل ہوتے ہیں لیکن یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا مرکز و محور ایک استاد ہی ہوتا ہے۔نصاب تعلیم جو بھی لیکن استاد اسے جس طرح چاہے پڑھا سکتا ہے۔ایک مسلمان معلم پر عام اساتذہ سے دوگنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے چونکہ وہ پہلے تو ایک مسلمان ہے اوردوسرا ایک مدرس بھی۔فلسفہ اسلام کی رو سے استاد ایک مربی ،مزکی ،رہنما و رہبر ہوتاہے۔ جو نہ صرف نسل نو کی تربیت کرتا ہے بلکہ نسل نو کو اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی تعلیمی نظریا ت سے وابستہ بھی کرتا ہے۔ کیونکہ نظریہ کے بغیر کوئی بھی قوم حمیت سے عاری بے تربیت افراد کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ مسلم معلمین کے لئے نبی اکرم ﷺ کی سخت وعید ہے ’’جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا پھر ان کے لئے ایسی خیر خواہی اور کوشش نہ کی جتنی وہ اپنی ذات کے لئے کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈال دیں گے۔‘‘ اس فرمان نبوی ﷺ کی روشنی میں اگر مسلم اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ذرہ بھر بھی کوتاہی برتیں گے تو روز قیامت ان کا سخت مواخذہ کیا جائے گا۔ روز قیامت عدم ساز گار حالات ،مادی وسائل کی کمی،والدین اور طلباء کی عدم توجہی و دیگر عذر مسلم اساتذہ کے لئے کسی کام نہیں آئیں گے۔اساتذہ اپنی اہمیت اور ذمہ دار ی کو محسوس کریں خاص طور پر مسلم اساتذہ اپنے مقام کو پہچانے کہ اول تو وہ مسلمان ہیں اور پھر ا سلامی طرز معاشرت اوردین فطرت کے نفاذ کے لئے نئی نسل کو تیار کرنے والے معلم، استاد مربی او ر رہبر ہیں۔ نامساعد حالات میں بھی مسلم اساتذہ کا منشاء و مقصد نسل نو کی اسلامی تعلیم و تربیت ہوتا ہے۔پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے لئے چار عملی میدان ہوتے ہیں (1) تعمیر ذات (2) اپنے علم میں مسلسل اضافہ (3) طلباء کی شخصیت و کردار سازی اور (4) تعلیم گاہ اور استاد۔
تعمیر ذات:نئی نسل کی تعمیر کا کام انجام دینے والے استاد کے لئے سب سے پہلے اپنی ذات کی تعمیر ضروری ہوتی ہے۔طلباء کے لئے استاد کی ذات افکار و اقدار کا اعلی معیار ہوتی ہے۔اساتذہ اپنی شخصیت کی تعمیر میں نبی اکرم ﷺ کی ذات کو پیش نظر رکھیں۔ہر انسان کے لئے نبی اکرم ﷺ کی ذات پاک بہترین نمونہ ہے۔آپ ﷺ معلم اعظم ہیں اسی لئے اساتذہ اپنے پیشے سے انصاف کرنے کے علاوہ درس و تدریس میں اثر و تاثیر پیدا کرنے کے لئے آپﷺ کے اسوہ حسنہ کی لازمی پیروی کریں۔ایک معلم کا قلب جب رب حقیقی کی عظمت و کبریائی سے معمور ہوگا ،احکام خداوندی کا پابند اور سنت نبویﷺ پر عامل ہوگا تب اس کا درس شاگردوں کے لئے باران رحمت اور زندگی کی نوید بن جائے گا۔معلم کا خوش اخلاق ،نرم خو،خوش گفتار،ملنسار،ہمدرد،رحمدل،غمگسار و مونس اور مدد گار ہونابہت ضروری ہوتا ہے۔استاددرس و تدریس کو صرف حصول معاش کا ذریعہ نہ سمجھے بلکہ اس کو رضائے الہی کا ایک ذریعہ مانے۔اسلامی نقطہ نظر سے حصول علم کا مقصد خو دآگہی اور خدا آگہی ہے ہمیشہ یہ نظریہ اساتذہ کے ذہنوں میں پیوست رہے۔۔علوم کی ترویج و تدریس کو ذریعہ معاش نہ سمجھیں بلکہ علو مکی تدریس، ترویج و اشاعت کو اخلاق کی بلندی اور کردار کی تعمیر کے لئے استعمال کریں۔ایک حقیقی استاد اسلاف سے حاصل شدہ علوم(نظریات،تہذیب،عقائد،افکار،عادات ،رجحانات،اور خصائل) کو بالکل اسی طر ح بغیر کسی کم و کاست اگلی نسلوں کو صحت و عمدگی سے منتقل کر ے۔استاد کمرۂ جماعت یا مدرسہ کی چار دیواری تک ہی استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ہر پل اپنی رفتار،گفتار،کردار غرض ہر بات میں معلم ہوتا ہے۔معلم کی ہر بات و حرکت طلبا پر اثر انداز ہوتی ہے۔طلباء صرف استاد سے کتاب یا اسباق ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ استاد کی ذات وہ شخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔استاد مدرسہ ،کھیل کا میدان، گھر اور بازار ہر جگہ طلباء کے لئے ایک زندہ نمونہ ہوتا ہے۔طلباء کو فسق و فجور سے منع کرنے والا استاد اگر خود ان افعال میں ملوث ہو تب اس کے اعمال خود فسق و فجور کی طلباء کو خاموش تعلیم دیتے ہیں۔ایک بے صبر اور بدمزاج استاد اگر صبر و تحمل کی تعلیم دے تب اس کاعمل طلباء کوچڑچڑے پن اور عدم تحمل کی طرف مائل کرتا ہے۔ایک عظیم استاد اپنی شخصیت کو نہ صرف نکھار تا ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعہ معاشرے کوبہتر ین انسان فراہم کرتا ہے۔ایک استاد کوصبر و تحمل ،معاملہ فہمی،قوت فیصلہ،طلبہ سے فکری لگاؤ،خوش کلامی اور موثر اندازبیان جیسیاوصاف سے متصف ہونا چاہیے۔ایک استاد کی شخصیت اور بھی دلکش ہوجاتی ہے جب وہ اخلاص ،لگن ،ہمدردی ،دلسوزی اور اصلاح کے جذبے سے نظم و ضبط قائم کرے (2)علم میں مسلسل اضافے کی جستجو؛ انگریزی کا معروف قول ہے کہ “Teaching is nothing but learning”یہ بالکل حقیقت ہے کہ تدریس کے ذریعہ کئی تعلیمی راز عیا ں ہوتے ہیں اور تدریس ہر پل اساتذہ کے علم میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے ۔اس کے باوجود اساتذہ بہتر تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لئے جدید معلومات کے حصول کو یقینی بنائیں تاکہ درس و تدریس کے دوران کسی خفت اور تحقیر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔اپنے علم میں اضافے کے ذریعہ اساتذہ نہ صرف اپنی شخصیت کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اپنی تدریس کو بھی بااثر بنانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔عربی کا مقولہ ہے کہ ’’علم حاصل کرو گود سے گور تک ‘‘اساتذہ کو اس قول پر ہمیشہ کار بند رہنا چاہیئے۔استاد میں علمی لیاقت ،تدریسی صلاحیتوں کے ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریق تعلیم سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔(3) طلباء کی کردار و شخصیت سازی؛تعلیم میں کیرئیر سازی کے رجحان نے طلباء کو علم کے عین مقصد سے دور کردیا ہے۔طلباء کی کردار سازی میں اور شخصیت کے ارتقاء میں معلم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے۔ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کی کردار سازی کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے۔اپنے طلباء کے دلوں سے کدورتوں،آلودگیوں اور تمام آلائشوں کو دور کرتے ہوئے اس کو ایمان ،خوف خدا ،اتباع سنت اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور کرتا ہے۔طلباء کی کرداری سازی کے لئے خود بھی تقوی و پرہیز گاری کو اختیار کرتا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ایک اچھا معلم اپنے شاگردوں میں مقصد سے لگن و دلچسپی پیدا کرتا ہیطلباء کوبیکار و لایعنی مشاغل سے دور رکھتا ہے۔دنیا سے بے نیازی اور مادہ پرستی سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے۔اپنے شاگردوں کو محنت اور جستجو کا عادی بناتا ہے۔کاہلی سستی اور تضیع اوقات سے طلباء کو باز رکھتا ہے۔(4) تعلیم گاہ اور استاد؛آج اسکول ،کالجس ،یونیورسٹیز تعلیم کی اصل غرض و غایت سے انحراف کرتے ہوئے مادہ پرستی کے فروغ میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔یہ ادارے ڈاکٹر ،انجینئر ،سائنسدان ،سیاست دان،پروفیسر،ٹیچرز،اور فلاسفرز بنانے میں تو کامیابی حاصل کر رہے ہیں لیکن ایک آدمی کو انسان بنانے میں (جو کہ تعلیم کا اہم مقصد ہے ) ناکام ہورہے ہیں۔تعلیمی ادارے انسان سازی کے کار حمیدہ سے آج عاری نظر آرہے ہیں اساتذہ کی ان حالات میں ذمہ دار اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ طریقہ تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی کی سعی و کوشش کریں ۔مادہ پرست نصاب تعلیم و تعلیمی اداراجات میں دانشوری سے تدریس افعال کو انجام دیں تاکہ طلباء میں دہریت اور مادہ پرستی جیسے جذبات سر نہ اٹھا سکیں۔ اپنے عمل و کردار سے تعلیمی اداروں کے انتظامیہ کو مثبت تعلیمی نظام کی طرف راغب کریں۔بنر مندی کے ساتھ دیانت داری اور امانت پسندی کا ایک اعلی نمونہ قائم کریں۔تعلیم ادارہ جات سے دھوکے باز سیاست دانو ں کے بجائے باکردار و امانت دار سیاست دان پیدا کریں۔ایسے انجینئر اور ڈاکٹر تیار کریں جو لوگو ں کے علاج کو نہ صرف اپنا ذریعہ معاش بنائیں بلکہ اس خدمت کو عباد ت کے درجہ تک پہنچادیں۔اساتذہ اپنے شاگردوں کی اس طرح تربیت کر یں کہ وہ اپنے پیشوں میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ انسان بھی باقی رہیں۔اساتذہ تعلیمی ادارجات اور نصاب تعلیم کو بلند مقصد حیات اور فکر سازی کے رجحان سے آراستہ کریں
اساتذہ سے معاشرے کے تقاضے:نوجوان نسل کی کوتاہیاں اپنی جگہ ،والدین کا تغافل نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کی خامیاں بھی اپنی جگہ مگرکار پیغمبری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اور قوم و ملت کے ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہونے کی بناء پر اساتذہ اس بحران کا جائزہ لیں اور خود اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا تعین کریں ۔اگراساتذہ سینکڑوں مسائل اور اسباب و علل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی کوتاہیوں کا تھوڑا سابھی ادارک کر لیں تب یقیناًیہ احساس قوم و ملت کی ترقی کی جانب پہلا قدم ہوگا۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

58 تبصرے

  1. Hello there, I do believe your web site might be having browser compatibility issues.

    When I look at your site in Safari, it looks fine but when opening in I.E., it has
    some overlapping issues. I simply wanted to give you a quick
    heads up! Other than that, fantastic site!

  2. I think this is among the most significant information for me.
    And i am glad reading your article. But want to remark on few general things, The web site style is wonderful, the articles is really excellent :
    D. Good job, cheers

  3. I’m amazed, I must say. Rarely do I encounter a blog that’s both equally educative and amusing, and let me tell you, you’ve hit
    the nail on the head. The problem is something which not enough men and women are speaking intelligently about.
    I’m very happy I came across this during my search for something concerning
    this.

  4. Hey there would you mind letting me know which web host you’re working with?
    I’ve loaded your blog in 3 different internet browsers and I must say this blog loads a
    lot quicker then most. Can you suggest a good web hosting provider at
    a fair price? Thanks, I appreciate it!

  5. Hey this is somewhat of off topic but I was wondering if blogs use WYSIWYG
    editors or if you have to manually code with
    HTML. I’m starting a blog soon but have no coding know-how
    so I wanted to get advice from someone with experience.

    Any help would be greatly appreciated!

  6. You are so awesome! I do not suppose I have read through anything like this before.
    So great to discover someone with some genuine thoughts on this subject matter.
    Really.. many thanks for starting this up. This web site is one thing that is required on the web, someone with
    a bit of originality!

  7. You’ve made some decent points there. I looked on the web
    to find out more about the issue and found most people
    will go along with your views on this site.

  8. Hi there, I found your site by the use of Google whilst looking for
    a comparable topic, your site got here up, it seems to be good.

    I have bookmarked it in my google bookmarks.

    Hi there, just changed into alert to your weblog via Google,
    and found that it is truly informative. I’m gonna watch out for brussels.
    I will be grateful if you continue this in future.
    Lots of folks might be benefited out of your writing.
    Cheers!

  9. Wow, amazing weblog layout! How long have you been running a blog for?
    you make running a blog glance easy. The overall glance of your website is wonderful,
    let alone the content!

  10. Greetings from California! I’m bored at work so I decided to check out your
    site on my iphone during lunch break. I enjoy the info you provide here and can’t wait
    to take a look when I get home. I’m shocked at how fast your blog loaded on my
    cell phone .. I’m not even using WIFI, just
    3G .. Anyhow, awesome site!

  11. You have made some decent points there. I
    looked on the net to find out more about the issue and found most
    people will go along with your views on this site.

  12. Heya i’m for the first time here. I came across this board and I find It really useful & it
    helped me out a lot. I hope to give something back and
    help others like you aided me.

  13. Good day! I know this is somewhat off topic but I was wondering which blog platform are you
    using for this website? I’m getting fed up of WordPress because I’ve had problems with hackers and I’m
    looking at alternatives for another platform. I would be great if you could point me in the direction of a good
    platform.

  14. Definitely believe that which you said. Your favorite reason seemed to be on the net the simplest thing to
    be aware of. I say to you, I certainly get annoyed while people consider worries
    that they plainly don’t know about. You managed to hit the nail upon the top as well as
    defined out the whole thing without having side effect , people
    could take a signal. Will likely be back to get more. Thanks

  15. Hey there! I know this is kinda off topic
    however , I’d figured I’d ask. Would you be interested in exchanging links or maybe guest authoring a blog post or vice-versa?
    My site covers a lot of the same topics as yours and I think we could greatly benefit from each other.
    If you happen to be interested feel free to send
    me an email. I look forward to hearing from you!
    Fantastic blog by the way!

  16. Today, I went to the beachfront with my kids.
    I found a sea shell and gave it to my 4 year old daughter and said “You can hear the ocean if you put this to your ear.” She
    placed the shell to her ear and screamed. There was a hermit crab inside and it pinched her ear.
    She never wants to go back! LoL I know this is completely off topic but I had to tell someone!

  17. Just want to say your article is as surprising. The clarity for your post is just excellent and that
    i can suppose you are a professional on this subject. Well with your permission allow me to grab your RSS feed to keep updated with imminent post.
    Thanks a million and please keep up the enjoyable work.

  18. This design is incredible! You certainly know how to
    keep a reader amused. Between your wit and your videos,
    I was almost moved to start my own blog (well, almost…HaHa!) Fantastic
    job. I really loved what you had to say, and more than that, how you presented it.
    Too cool!

  19. Your style is unique in comparison to other people I’ve read stuff from.

    Thank you for posting when you have the opportunity, Guess I’ll just book mark this web
    site.

  20. I’m not positive the place you’re getting your info, however great topic.
    I must spend some time finding out more or working out more.
    Thank you for excellent info I was looking for this information for my mission.

    Stop by my blog post: vpn special code

  21. I was wondering if you ever thought of changing the page layout of your website?
    Its very well written; I love what youve got to say.
    But maybe you could a little more in the way of content so people could connect with it better.
    Youve got an awful lot of text for only having one or two images.
    Maybe you could space it out better?

جواب چھوڑ دیں