اللہ قدردانی کرنے والا، اپنے بندوں کی قربانیوں کو قبول کرنے والا اگر کوشش اللہ کے لیے ہو تو پھر اُس کا درجہ بھی انتہائی بڑا ہوتا ہے۔حضرت ہاجرہ نے کوشش کی ،جدو جہد کی ۔سعی کی اللہ نے قبول کیا،زم زم کا چشمہ جاری کردیا۔
بے آب وگیا وادی کو نخلستان بنادیا ۔وہاں انسان نہیں تھے ،انسانوں سے آباد کر دیا ۔جہاں حضرت ہاجرہ نے ایک تہذیب کی بنیاد رکھی اور تمدن کو پروان چڑھایا۔انہوں نے بتایا کہ یکسوئی کیا ہے؟ حنیفیت کیا ہے؟کیسے اپنے رب کو راضی کیا جاتا ہے۔کیسے اللہ پر توکل پر کیا جاتا ہے۔گرمیوں کی تپتی دھوپ،سایہ کا نہ ہونا، صرف آثار تھے تو بیت اللہ کے، رب تھا تو ان کے دلوں میں محبت تھی تو اللہ کی ۔اطاعت سر خم کی تو اللہ کے لیے ۔کیا آج یہ سنت ہم قائم کرسکتے ہیں ۔ہر طرف سے پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔واٹس ایپ کھولیں تو ہر کوئی پیغام بھیج رہا ہے ۔بہت اہم ایام ہیں ، بڑے قیمتی لمحات ہیں، دعائیں عبادات سب کچھ ہورہا ہے۔مگر اثر کہاں ہےبے اثرکیوں ہے ؟ یہ سب کچھ کبھی سوچا ہم نے
وہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے تو اک ٹوٹا ہوا تارا
کوئی میسج یہ نہیں آیا کہ ہم عہد کریں کہ یہ ایام اللہ صرف اللہ کی اطاعت میں گزار یں گے۔یا ایسے کہ جس میں ہم جھوٹ کو برائی کو فریب کو شکست دیں گے۔ہم سچ کا حق کا ساتھ دیں گے ۔ہم اخلاق رذیلہ کے قریب نہیں جائیں گے۔ہم حقوق العباد کا خیال رکھیں گے ۔ہم اپنے نفس کی چالوں سے اپنے آپ کو بچائیں گے۔
ہم صرف اللہ کے ہو کے رہیں گے ۔ للہیت بڑھائیں گےنفس پرستی ،غیبت طعنہ زنی،فریب ،دھوکہ،خیانت ،مذاق ،گالی ،دل آزاری سے پرہیز کریں گے۔قربانی قرب سے نکلا ہے۔ اللہ سے قربت حاصل کرنے کے لیے اپنی خواہشات نفس کو قربان کرنا ہی اصل قربانی ہے۔اللہ کی راہ میں اپنی پسندیدہ چیز کی قربانی اصل میں قربانی ہے۔
کیا یقین تھا اللہ کی ذات پر جب ہاجرہ حضرت ابراہیم ؑ سے کہتی ہیں کہ آ پ ہمیں اس وادی میں چھوڑ رہے ہیں ،جس میں نہ کوئی انسان ہے ،اور نہ کوئی چرند وپرند۔آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ رہے ہیں ؟ جواب ملتا ہے اللہ کے ۔تو زبان سے فورا نکلتا ہے کہ میں اللہ کے ساتھ راضی ہوں ۔مزید یہ پوچھا کہ کیا آپ کو اللہ نے یہ کرنے کا حکم دیا ہے ؟حضرت ابراہیم ؑ بولے ؛ ہاں یہ سنتے ہی حضرت ہاجرہ کی رضا یقین میں بدل گئی اور انہوں نے کہا یہ بات ہے تو اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔
ایمان، توکل، آزمائش آج یہ الفاظ ہماری زندگیوں میں کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ ہمیں معلوم ہے نا کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے ؟ہم جانتے ہیں کہ اللہ نے شرک کرنا ،والدین کی نافرمانی ،رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا، زنا کرنا، بد فعلی کرنا،سود لینایا سودی کاروبار کرنا ،یتیم کا مال کھانا،اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا،میدان جنگ سے بھاگنا ،حاکم کا اپنی رعایا کو دھوکہ دینا ،ان کے ساتھ خیانت کرنا ،تکبر کرنا منع کیا ہے۔
اور اللہ کایہ وعدہ بھی یاد کرلیں کہ اگر اعمال صالحہ پر کار بند رہیں گے اور بڑی برائیوں سے بچنے کی کو شش کریں گے تو اللہ تعالی قادر مطلق ہے ۔ اُس کا وعدہ ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی برائیوں سے درگزر فرمادے گا۔
یہ نفس اور شیطان کی دشمنیوں میں پھنسے ہوئے بندوں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے بہترین حوصلہ افزائی ہے۔
چونکہ انسان کے اندر خیر کے ساتھ شر کا مادہ بھی رکھا گیا ہے ۔نفس انسانی،جو اکثر انسانوں کو برائیوں کی طرف آمادہ کرتا ہے ۔اور ہمارا ازلی دشمن شیطان جس کو یہ قوت دی گئی کہ وہ انسان کے اندر دوڑنے والے خون کی مانند غلبہ رکھتا ہے ،اور وہ انسان پر دائیں ،بائیں آگےاور پیچھے سے حملہ آور ہوتا ہے ۔
اور یہ قربانی انسان کو یہ بھی سکھارہی ہے ۔کہ جو خاندان اپنے رب کی رضا پہ راضی رہے ۔جس نے یکسو ہو کر توکل الی اللہ کیا،ہر آزمائش میں شیطان کو مات دی اور اور اپنے رب کی بندگی میں سر تسلیم خم کر دیا تو اللہ نے ان کی قربانی کو قبول کیا۔اللہ نے ابراہیم ؑ کی دعا کوقبول کیااور اسحاق ؑ کی خوشخبری دی۔اللہ نے بیت اللہ کو آباد کیا ،جہاں کھیتی نہیں تھی وہاں اس سرزمیں کو ہرا بھرا کر دیا۔انسان نہیں تھے انسانوں سے آباد کر دیا۔اور حضرت ہاجرہ کیسی ماں ثابت ہوئی ؟کس طرح اپنے بیٹے کی پرورش والد کی عدم موجودگی میں کی ،یہ آج کی ماں کے لیے ایک اہم رول ماڈل ہے ۔ کہ جب باپ بیٹے سے ذبح کرنے کی بات کرتا ہے تو بیٹا سر تسلیم خم کردیتا ہے۔پرورش اولاد کے طریقے اس پوری داستان میں نظر آتے ہیں ۔
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
یہ ماں کی تربیت تھی جس کی آج کی ماؤں کو ضرورت ہے ،وہ سات چکر جس کو اللہ نے ہر عمرہ کرنے والے کے لیے ہر مسلمان کے لیے جو بیت اللہ جاتا ہے لازمی کر دیا
اللہ کو اپنی بندگی کا یہ عمل کتنا پسند آیا کہ قیامت تک اس کو دین کو حصہ بنادیا۔اور ابراہیم ؑ کو کہا گیا کہ ابراہیم تم نے خواب سچا کر دکھایا یعنی آپ امتحان میں پورے اُتر چکے ہیں آپ کی اطاعت اور فوری تعمیل ظاہر ہو چکی ہے۔
جس طرح آپ نے اپنا جسم آگ میں ڈال دیا اور مال مہمانوں پر خرچ کر دیا اسی طرح آپ نے اپنا بیٹا قربانی کے لیے پیش کر دیا۔یہ ایک آزمائش تھی اور اللہ نے حضرت اسماعیل کی جگہ بڑی آنکھوں والا اور سینگوں والا سفید مینڈھا ذبح کروادیا ،اور آنے والی نسلوں کے لیے یہ سنت ابراہیمی قائم کردی گئی اور رہتی دنیا تک یہ سنت قائم رہے گی۔