اقبال نے کیا خوب کیا،،،
وہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
یہ تو درست ہے کہ جسے اللہ نے نبی چننا ہوتا ہے اس کی اللہ بچپن سے نگہبانی کرتا ہے مگر آداب فرزندی کا عمیق مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ عظیم ماں کے عظیم بیٹے تھے۔ آئیے جانتے ہیں کہ وہ فرمانبرداری و اطاعت کی روشن مثال کیسے بنے۔۔۔ ابراہیم کا بیٹا جسے وہ فرمانبرداری رب کی خاطر اس کی ماں کے ساتھ بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ گیا مگر آفرین ہے شیر خوار کی ماں پر جس نے اطاعت شعاری اور وفاداری کی مثال قائم کر دی اور سمجھ گئی کہ اس کا عظیم شوہر ایک بار پھر اہل و عیال کے حوالے سے آزمایا جا رہا ہے اور اسے اپنے شوہر کے مشن کی کامیابی کے لئے یہیں رہنا ہو گا، اسے یقین ہو گیا کہ اللہ اسے اور اس کے بچے کو ضائع نہ ہونے دے گا۔ رہتی دنیا تک کی بیویوں اور ماؤں کے لئے سیرت ہاجرہ اسوہ بن گئی کہ شوہروں کے مشن کو کامیاب کرنے کے لئے کیسے اندیشوں اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسمٰعیل کو آداب فرزندی سکھانے کے لئے کتنی استقامت اور اولو العزمی درکار ہوتی ہے۔
عید الاضحٰی ہر سال آ کر سیرت ہاجرہ کی جھلک دکھا جاتی ہے مگر کتنی مائیں اور کتنی بیویاں یا کتنی عورتیں ہیں جو اس سیرت کو فریم میں ٹانگ کر پوجا پاٹ کرنے کی بجائے عظیم الشان مشن کے لئے اپنا آپ وقف کرتی ہیں؟
کیا آج کی ماں کامیاب بیٹا اسے ہی نہیں سمجھتی جو لاکھوں میں کھیلتا ہو یا جو ہر دنیاوی مطالبہ پورا کرنے کے لئے اپنے آپ کو کولہو کا بیل بنائے رکھے؟ کیا خود ساختہ واہموں اور اندیشوں میں گھری آج کی مائیں اولاد کو بلیک میل کر کے جہنم کی راہیں ان کے لئے ہموار نہیں کر رہیں،،، معذرت۔۔۔ مگر آج مجھے ایسی بیویاں خال ہی نظر آتی ہیں جو صالح شوہر کے مشن کو سمجھیں، کامیاب شوہر وہی ہے جو بیوی کو برانڈڈ لباس، میکڈونلڈ، ہائی سوسائٹی فراہم کر سکتا ہو۔ افسوس ہے آج کے والدین پر بھی جو داماد کی آمدنی کی تو رشتہ کرتے وقت خوب کھوج لگاتے ہیں مگر اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اس کے مقاصد کتنے بلند ہیں۔۔ اکثر عائلی جھگڑوں کی بنیاد پست معیار زندگی اور ناکافی سہولتوں کی فراہمی ہوتا ہے.
سیرت ہاجرہ جہاں بہادر اور نڈر عورت، وفاشعار اور اطاعت شعار بیوی، جرات مند، استقامت اور اولوالعزم ماں بننا سکھاتی ہے وہیں کعبے کے اماموں کو پیدا کرنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے، صدق دل سے بتائیے۔ کیا وومن امپاورمنٹ کے اس نمونے کی،،، جو سیرت ہاجرہ سے ملتا ہے، کا عشر عشیر بھی وہ لوگ دے سکتے ہیں جو عورت کی سیلف اسٹیم اور چاردیواری سے نکال کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی بات کرتے ہیں۔۔
کیا عورت کی عزت اس سے بڑھ کر ممکن ہے جو ابراہیم نے اپنی بیوی کو دی اور کیا ایسی عظمت آج کی سپر وومن کہلانے والی عورت پا سکتی ہے جو اسمعیل کی ماں کو سعی کے نتیجے میں ملی. یہ وہ عورت ہے جس کی عظیم سنت کی “سعی” کی صورت میں مرد بھی پیروی کرنے کے پابند ہیں۔۔ پھر سیرت ہاجرہ کی راہ چن کر کامیاب عورت بننا ہے یا اعتماد اور بے باکی کے نام پر رائج الوقت سپر وومن کی راہ پر چلنا ہے جس کے لئے اسمٰعیل تیار کرنا دقیانوسیت اور غیروں کے قائم کردہ کامیاب عورت کے معیار کو چھونا ہی عروج کی ضمانت ہے۔