انصار اللہ کیمپ

3 دسمبرکی اتوار اپنے جلو میں ایک سہانا دن لیے آئی اور کتنی ہی خوبصورت یادیں دلوں پر نقش کرتے ڈھل گئی۔

جیسے ہی نومبر شروع ہوتا ہے کارکنان جماعت اسلامی اپنے نظم کے منتظر رہنے لگتے ہیں کہ کب بلاوا آئے اور وہ اپنے مرکز میں اکٹھے ہوں۔

ہر سال اللہ والے، اللہ کی چاہت میں اکٹھے ہوتے ہیں کچھ پیار بھری مسکراہٹیں، کچھ کھٹی میٹھی یادیں، کچھ نئے جذبے کچھ نئی باتیں اپنے اپنے دامن میں سمیٹے۔۔۔۔۔روشنی کی نئی کرنیں لیے معاشرے کے اندھیروں کو ختم کرنے کے لیےبکھر جاتے ہیں۔

اس مرتبہ غزہ مارچ لاہور میں شرکت کی بناء پر نشست دسمبر کے آغاز میں کرنی پڑی۔۔۔۔۔۔بہر کیف جیسے ہی مرکز میں پہنچے سجا سجایا پنڈال، ایک طرف بنی طعام گاہ، کونے میں مختص نماز کی جگہ، داخل ہوتے ہی استقبالیہ اور بک اسٹال ۔۔۔۔۔۔ سبھی چیزیں ایک منظم اور ڈسپلنڈ جماعت کا نقشہ پیش کر رہی تھیں۔ یہ خوبصورتی، یہ سجاوٹ، یہ تزئین و آرائش جامعۃالمحصنات کی پیاری پیاری بیٹیوں کی محبتوں کا ثبوت تھیں۔

خواتین آتی جارہی تھیں اور اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو رہی تھیں۔ ایسے میں بہت پیار آیا اپنی ننھی اطفال کی ٹیم پر جو ہر تھوڑی دیر بعد پنڈال کا راؤنڈ لیتی اور ماؤں سے ان کے بچے لے جاتیں تاکہ مائیں توجہ سے پروگرام سن سکیں۔

چلتے پھرتے مسکراہٹ کا تحفہ دیتے نظم و ضبط کی ڈیوٹی والے ساتھی بھی اپنی ذمہ داری باحسن نبھاتے نظر آئے۔

نشست کا آغاز محترمہ سارہ صہیب کے پر فسوں لب و لہجے کے ساتھ ہوا جنہوں نے گیارہ بجتے ہی اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سنبھالے۔ تلاوت کا شرف بخت نور کو حاصل ہوا اور حمد کی سعادت جامعہ کی طالبہ عائشہ بتول کے حصے میں آئی۔ نعت رسول مقبول سے محفل کو معطر کرنے کی سعادت نادیہ بتول کارکن جماعت و ٹیچر جامعہ کو ملی۔ پھر باری تھی ناظمہ پی پی  127 غزالہ عمر   کی جنہوں نے افتتاحی خطاب کے ساتھ ساتھ شرکاء نشست کو ھدایات دیں۔ اب باری تھی نائب ناظمه ضلع  ثوبیہ عمار کی جنہوں نے قرآنی آیات واحادیث کی روشنی میں “عبد اور معبود “کے رشتے کی وضاحت کی،اس تعلق کو بڑھانے کے طریقے بتائے اور صرف اللہ ہی کے ہو کر رہو کا پیغام دیا۔

دوسرا پروگرام تھا بہن تحریم خالد کا جو رکن جماعت اور ایڈووکیٹ ہیں۔ انہوں نے احادیث صحیحہ کی روشنی میں نبوت، خلافت، جبر اور دور نفاذ اسلام کی وضاحت کی۔ انہوں نے بتایا کہ نبوت کا دور بھی ختم ہوا، خلافت کا دور بھی گذر گیا اب جبر کا دور ہے جس میں ہم اور آپ جی رہے ہیں اس کے بعد ان شاءاللہ وہ دور جلد آنے والا ہے جب اسلام کی بہاریں ہماری نسلیں دیکھیں گی لیکن ہم نے اس دور کو لانے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ اور اس کے بعد پرنسپل جامعہ و رکن جماعت محترمہ *لبینہ باجی* نے اسلام غالب آئے گا ترانہ پڑھ کر ایک نیا جذبہ اور نئی روح پھونک دی۔

اب وقت ہوا تھا نئے بننے والے اراکین کے حلف کا۔ سو سارا باجی نے ناظمه ضلع محترمہ معراج فاطمہ کو دعوت دی کہ وہ آ کر حلف لیں۔ محترمہ رابعہ شہزاد، محترمہ صائمہ مظہر، محترمہ پروین اختر،محترمہ عظمیٰ امجد، محترمہ تسنیم رفیع، محترمہ سندس کاشف اور محترمہ آسیہ یوسف نے حلف رکنیت اٹھا کر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے نفاذ اسلام کے لیے کی جانے والی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کا اعلان کیا۔

محترمہ نادیہ صدف صاحبہ سابقہ ناظمۂ ضلع اور نگران سیاسی سیل نے اس موقع کو یادگار بناتے ہوئے نئے اراکین کو کتاب کا تحفہ دیا ۔ اس کے ساتھ ہی ظہر و ظہرانہ کا وقفہ ہوا۔ نماز اور کھانے کی ادائیگی کے بعد ایک مرتبہ پھر نشست گاہ سجنے لگی۔نظم ضلع اور *سارہ باجی* نے سٹیج پر اپنی اپنی نشست سنبھالی۔

اب وقت تھا نئے اراکین کے تعارف کا۔جن سے باقی ساتھیوں میں نئے جذبوں نے اڑان لی۔ بہت سے افراد نے خود کو عہد رکنیت تک لانے کا عزم باندھا۔ اتنے میں طعام کی ڈیوٹی پر موجود ساتھیوں نےگرما گرم چائے پیش کر کے شرکاء میں نئی توانائی بھر دی۔ سبھی تازہ دم ہو کر سٹیج کی طرف متوجہ ہوئے جہاں نائب ناظمہ ضلع محترمہ طیبہ صدیقی اپنے پروگرام کے لیے ڈائس پر موجود تھیں۔ اپنے مخصوص ٹھہرے ٹھہرے،اور دھیمے دھیمے انداز میں نصب العین اور اسکے مطلب کو دلوں میں اتارتی چلی گئیں۔ انہوں بتایا کہ یہ نصب العین بالکل وہی مشن ہے جس کے لیے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی۔ اس ملک کو اسلامی ریاست بنانے کا موجودہ حل الیکشن کے ذریعے صالح قیادت کا چناؤ ہے۔اس لیے ہم میں سے ہر فرد کو 8 فروری کے الیکشن میں اپنی چونچ بھر حصہ ڈالنا ہو گا۔ ایسے موقع پر کچھ نئے کارکنان کا اضافہ ہوا جو جماعت اسلامی کا فارم بھر کر اس مشن کا حصہ بنے ۔

قرارداد رکن بہن صائمہ مظہر نے پیش کی اور اختتامی کلمات ناظمۂ ضلع محترمہ معراج بہن کہتے ہوئے سب کی آمد و اعتماد کا شکریہ ادا کیا۔ لبینہ باجی کی پررقت دعا کے ساتھ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ دن شروع ہوا اور یادوں کا اک نیا نگر آباد کرتے ہوئے ڈھل گیا۔

ایسے ہی زندگی شروع ہوتی ہے اور انجام کو پہنچ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔خوش بخت ہے وہ جو زندگی کے شب و روز رب کی طلب میں اور رب کی طلب کرنے والوں کے ساتھ کی طلب میں گزار دیتا ہے۔ زندگی کی ہر ڈھلتی شام العصر کا پیغام دے جاتی ہے پھر کوئی ہے جو نصیحت پکڑے۔ امانت تھیں یہ بیتی گھڑیاں ان چاہنے والوں کی جنہوں نے زندگی کی جوانی ،صلاحیتیں ،وقت اور اپنا تن من دھن جماعت اسلامی اور نفاذ دین کی کوششوں میں وار دیا۔ اب وقت پیری باوجود خواہش کے ایسی نشستوں میں شریک نہیں ہو پاتے۔

البتہ نگاہیں بہت سے ان ساتھیوں کو تلاشتی رہیں جو نہ جانے کیوں آج کی نشست میں نہ آسکے۔ بہر حال ان کے لیے غائبانہ دعاؤں کے ساتھ اجازت دیجئے۔۔۔۔۔۔ اس دعا کے ساتھ کہ رب العزت ! روز حشر جب رب کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ہمیں اپنے عرش کے سائے میں ایسے ہی اکٹھا کر لینا جیسے آج کے دن اکٹھا کیا۔ اور ہماری ان ٹوٹی پھوٹی کوششوں کو اپنی بارگاہ میں اپنے لیے خالص کر کے قبول فرمانا ہمیں ہماری کوششوں میں دوام بخش دینا۔ آمین