غیبت اوربدگمانی کا زہر

غیبت کرنا اور کسی کے دل میں بدگمانی پیدا کرنا، کسی کو زہر گھول کر پلانے سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔

سعدیہ جب بھی منیرہ سے ملتی تو وہ اسے بہت پیار اور عزت دیتی لیکن منیرہ کی ایک بری عادت یہ تھی کہ وہ اس ملاقات میں ضرور کسی نہ کسی کی برائی یا غیبت کرتی یا کہتی کہ فلاں ملی تھی وہ آپ کے لیے یوں کہہ رہی تھی شروع میں تو سعدیہ اس کی محبت اور اخلاق دیکھ کر اسکی بات کو سچ سمجھتی اور اسے انتہائی دکھ ہوتاکہ فلاں نے میرے بارے میں یہ بات کہی ہے جبکہ میں نے تو کبھی اس کے لیے ایسا نہیں کہا اور نہ سوچا ہے پھر وہ سوچتی کہ منیرہ جھوٹ کیوں بولے گی؟ ایک بات اور سعدیہ نے نوٹ کی جب وہ فلاں رشتہ دار خاتون اس کے ساتھ ملتی تو وہ گرم جوشی سے نہیں بلکہ سرسری طور پر ملتی، سعدیہ ایک پڑھی لکھی سمجھدار خاتون تھی وہ سمجھ گئی کہ اس رشتے میں دوری کی وجہ منیرہ ہے لہٰذا اس نے ذرا اس سلسلے میں معلومات کی تواسے منیرہ کی یہ خامی نظر ائی پہلے تو اسنے منیرہ کو مثبت طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا آخر اس نے بہتری یہی سمجھی کہ وہ اس سے ضرورت کے لحاظ سے کم سے کم ملے تاکہ خاندان میں کوئی رنجش نہ پیدا ہو، کیونکہ سعدیہ کا اس کے ساتھ ایسا سسرالی رشتہ تھا جس کی وجہ سے اسے عزت ضرور دیتی، لیکن ناطہ نہیں توڑ سکتی تھی۔

سعدیہ نے مجھے اپنی اس رشتہ دار کے بارے میں بتایا تو فورا میری آنکھوں کے سامنے بھی ایسے کئی چہرے آگئے جن کی خصلت منیرہ جیسی تھی ایسے لوگ آستین کے سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں اور ان کی اصلیت بھی فوراً سامنے نہیں آتی، لیکن ہم ان کی اصلیت احکامات الٰہی کے ذریعے جان سکتے ہیں جیسا سورہ الحجرات میں میرے الله رب العزت نے ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا ہے کہ۔۔۔

اے مسلمانوں اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔

اس آیت ربانی میں واضح پیغام اور نصیحت ہے ہمارے لئے کہ ہم ہر سنی سنائی بات پر فورا یقین نہ کر لیں بلکہ اسکی تحقیق کریں کہ آیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں، کیونکہ اس کی باتیں اگر دوسروں کے خلاف کی گئی ہونگی تو ہم ان سے بدگمان ہوجائیں گے یا ہم اس بات کرنے والے سے دور ہوجائیں گے کیونکہ بدگمانی رشتوں اور تعلقات میں زہر گھول دیتی ہے اور دیکھا جائے تو ایک انسان کے لئے یہ سب سے بڑا نقصان ہے کہ اس سے اس کے اپنے دور ہو جائیں۔

لہٰذا ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنا نادانی ہے جس سے اپنی ذات کو اور دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔