الوداع نہیں کہتے

بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔

ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔

یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔

یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ نے پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی کی قیادت کی۔

ایشیاء کی سب سے بڑی این جی او الخدمت فاؤنڈیشن کے سربراہ رہے۔صوبائی وزیر خزانہ رہے۔ سینیٹر رہے آپ کے دامن کی پاکی آپ کو تحریک اسلامی کا بہترین اہل بتاتی ہے۔

اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرنے والے کرپشن کے معمولی داغ سے بچے ہوئے ستھرے کردار کو ہاں ہم پہچانتے بھی ہیں۔اور تحریک اسلامی اپنے اثاثوں کی قدر کرنا بھی جانتی ہے۔جماعت کا ہر نگینہ اپنی جگہ فٹ ہے۔جس کی جہاں ضرورت وہاں ہے۔

باطل چاہتا ہے ہم مایوس ہوں اس رستے کو چھوڑیں۔اپنا اعتماد کسی دوسرے رستے کی طرف بڑھائیں۔ باطل کی یہ پریشانی اور ایوانوں میں جماعت سے خوفزدگی اس بات کی علامت ہے کہ رستہ بالکل درست ہے۔وہ چاہتا ہے بارہا کی شکست سے تحریک اسلامی کو مایوس کرے۔کشمکش میں ڈالے آپس میں الجھائے۔کارکن قیادت پر سوال اٹھائیں تحریک اسلامی کمزور ہو جائے۔ہمارے امیر اس ایماء پر نہیں بنتے کہ جس نے لوگوں میں فیم لے لیا۔ہمارے ہاں امارت کرائٹیریا دنیاوی پیمانے نہیں ہیں۔

ہمارا پیغام قیادت کو کہ سراج صاحب کے اس وقت جانے سے جماعت کو نقصان ہوگا۔

ہم اپنے لیڈر کی رہنمائی میں اک مضبوط پارٹی ہیں۔الحمدللہ ہم صحیح راستے پر ہیں۔

امیرِ محترم ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ مرد درویش مجاہد ہیں۔ تحریک کا اس وقت فرنٹ پیج ہیں۔انمول ہیرا ہیں۔ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے ادا کی اور تحریک کےلیے بروقت بہترین فیصلے کیے۔اللہ تعالی تحریک کے لیے آپ کی طویل جدوجہد قبول فرمائیں۔ہم آپ کے ہر فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن آپ کو الوداع نہیں کہتے۔

‏تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سرِدارا