معاشرے کا ناسور ! کرپشن

آج ہمارا وطن تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے وجہ صرف اور صرف۔۔۔۔۔۔ حق تلفی، رشوت اور بدعنوانی ہے۔تعلیم کے شعبے میں دیکھیں  تو بچے پڑھنے کی بجائے رشوت دیکر نمبر لگوا رہے ہیں گویا مقصد علم کا حصول نہیں ڈگری مطلوب ہے۔۔۔۔۔۔ استاد پڑھانے کو نہیں رزلٹ اچھا دکھانے کے چکر میں نقل، پیسے لیکر پاس کر دینا یا پہلے سے پرچہ لیک کرنے جیسے جرائم میں مبتلا ہے۔استاد اعلیٰ ڈگری یافتہ تو ہے لیکن اخلاقی زوال کا شکار ہے۔وہ مانیٹرنگ ٹیموں سے تو ڈرتا ہے لیکن رب کا ڈر کہیں گھر رکھ آتا ہے۔اسکول، کالجز، یونیورسٹیز۔۔۔۔۔۔۔ کردار سازی جیسا اہم کام چھوڑ کر ڈگری فروش بن چکے ہیں۔ نتیجتا نسلیں اخلاق و احساس سے عاری اور نفس پرستی میں ڈھل چکی ہیں۔

زبان کے چسکے، آرام و آسائش کی خواہش، شہرت کی ہوس اور  دنیا کی چکا چوند نے انسان کو انسان کے مرتبے سے گرا دیا ہے وہ اپنا مقصد زندگی بھلائے اس چار روزہ زندگی کے ہر جائز، ناجائز کے چکر میں خود اپنا انجام بھول بیٹھا ہے۔”اے انسان! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف بڑھا چلا جارہا ہے”(الحشر)”کثرت کی دھن نے انہیں ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ حتی کہ یہ قبروں کا منہ دیکھ کر رہیں گے۔”( التکاثر )جیسی تنبیہات کو سن کر بھی نظر انداز کیے اپنی ہی روش پر اڑے کھڑے ہیں۔تعلیم ہی وہ میدان ہے جہاں سے وہ ڈاکٹر،انجینئر،عالم،پروفیسر،جج،وکیل،سائنسدان اور سیاستدان وجود میں آتے ہیں۔اسی پہلے قدم پر ٹیڑھا ہونے والے تاحیات ٹیڑھے ہی رہتے ہیں۔اور اسی ٹیڑھے پن نے معاشرہ تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔کسان کی کاشت زہریلی، ڈاکٹر کا طریق علاج غلط، میڈیسن کمپنی کی دوائی بےکار، دکان دار کا سامان ناخالص اور ناپ تول میں کمی، سبزی والے کی سبزی خراب، دودھ والے کا دودھ ملاوٹ شدہ، جج کا فیصلہ تعصب زدہ، حاکم کی حکومت ظلم سے بھرپور۔

جو جس مقام پر ہے وہ زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے اپنا حق سمجھ کر۔ہم ظلم کرنے اور سہنے کے اتنے عادی ہو چلے ہیں کہ اب اگر ہمیں کوئی احساس بھی دلائے تو ہمیں سمجھانے والا ہی ظالم دکھائی دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔۔۔ان اللہ علی کل شیء بصیر۔۔بے شک اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔کاش اس کی اس بصارت کا یقین ہمارے اندر اتر جائے۔ رب کی آنکھ کا تصور ہی ہمیں تباہی سے بچا سکتا ہے۔کرپشن کی وہ دلدل جس سے نکلنے کے چکر میں ہم اور دھنستے چلے جارہے ہیں اس سے بچنے کا واحد راستہ رب کا تقویٰ ہے۔ اس ذات پر یقین کامل ہی ہمیں ایماندار افسر، انصاف پسند حاکم ، ذمہ دار والدین، محبت کرنے والے زوجین، پورا تولنے والے دکاندار  اور کردار تراشنے والے استاد بنا سکتا ہے۔

ہم نصاب کی کتابوں میں ایک سبق corruption رکھ کر معاشرے کی اصلاح نہیں کر سکتے اور نہ ہی سال میں ایک دن اس کے خاتمے کے لئے مخصوص کر کے عہدہ برا ہو سکتے ہیں۔کرپشن کو ختم کرنے کے لیے سال کے 365 دن کام کرنا ہو گا۔سوچوں اور ذہنوں کو بدلنا ہو گا۔صرف کتابی نہیں عملی سبق دینا ہوں گے۔لوگوں کو شارٹ کٹ سے نکال کر محنت کا عادی بنانا ہو گا ۔حق والوں کو حق دینا ہوگا۔زندگی کےہر میدان میں میرٹ کو زندہ کرنا ہو گا۔استاد کو اپنا منصب سنبھالنا ہو گا۔اپنے مناصب کو اللہ کی نگرانی میں ادا کرنا ہو گا۔اور جب ایسا ہو گا۔۔۔۔تو پھر نہ تو خزانہ لٹنے کا ڈر ہو گا نہ ملک ڈوبنے کا۔پھر رشتے بھی متوازن ہوں گے اور رتبے بھی حدوں میں۔پھر نہ کسی ملامت کرنے والے کا ڈر ہو گا نہ خدا کی پکڑ کا۔