چائے کی پیالی

تھکن سے چور ہو کر ایک مزدور چائے کی پیالی کی طرف بڑھتا ہے کہ اپنی تھکاوٹ دور کر سکے، ارے یہ کیا؟ احسن اقبال صاحب کی عوام سے اپیل ہے کہ چائے کی ایک ایک دو دو پیالی کم کردیں۔ واہ کیا خوبصورت بات کہی ہےکہ چائے کم کر دیں وہ بھی عوام، یعنی کہ ہر چیز عوام کرے، ہر طرح کا ٹیکس دے عوام، ہر مہنگی چیز کا بوجھ اٹھائے عوام، اسی اپیل سے متعلق لوگوں سے سوال کیا گیا تو بہت سے لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ایک صاحب بولے کہ ایک غریب انسان چائے پیتا ہے تو وہ بھی کم کر دے؟، ایک صاحب کا کہنا تھا کہ ہمیں چائے کم کرنے کا کہہ رہے ہیں اپنی عیاشیاں کیوں نہیں کم کرتے؟بات تو ٹھیک ہے ویسے۔

یہ امیر لوگ، یہ سیاست دان، یہ حکمران اپنی کوئی آسائش کم نہیں کرنا چاہتے اور غریب کے تن سے کپڑے تک اتروا لینا چاہتے ہیں غریب عوام تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اوپر سے آئے دن بڑھتا ہوا مہنگائی کا طوفان کسی طرح بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے غریب عوام چائے پینی تو کم کر دے لیکن یہ حکمران اپنے لاکھوں کے سیرو سیاحت کے دورے ترک کرنے کے روادار نہیں، اپنے دسترخوان پر سادہ کھانا یا کوئی بھی ایک ڈش نہیں رکھ سکتے ان کی گاڑیوں میں پیٹرول حکومت کی طرف سے ڈالا جاتا ہے، ان کے بچوں کی شادیوں میں کروڑوں، اربوں روپے لگا دیے جاتے ہیں، سوٹ میں ہیرے جواہرات جڑوائے جاتے ہیں سونے چاندی سے کشیدہ کاری کروائی جاتی ہے اس وقت ان کو معیشت کی بحالی کا خیال نہیں آتا ان کی تجوریاں اسی طرح بھری رہتی ہیں جو ٹیکس جمع ہوتا ہے اس سے عوام کے کام کرنے کی بجائے اپنے ذاتی کام انجام دیئے جاتے ہیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے بڑے بڑے جاگیر دار، زمیندار، سیاسی حکمران کوئی بھی تو ٹیکس دینے کے حق میں نہیں ایک غریب عوام ہی ہے جو ہر چیز پر ٹیکس دے رہی ہے۔ آج عوام کا یہ عالم ہے کہ کسی کے پاس ایک وقت کے کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے تو کسی کے گھر میں بمشکل ایک وقت کا کھانا بنتا ، کوئی بھوک سے نڈھال ہے تو کوئی بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے پریشان ہے، کسی نے تھانے جا کر اپنے آپ کو حوالات میں بند کر نے کی ضد پکڑی ہوئی ہے کہ میں گھر کیا منہ لے کر جاؤں بچوں کو کیا کھلاؤں کوئی مزدوری نہیں لگتی، لیکن ہمارے حکمرانوں کو تو بس مہنگائی بڑھانے اور بڑھاتے چلے جانے کا بھوت سوار ہے۔

مہنگائی پر قابو پانے کے لیے پیٹرول کا استعمال کم کرنے، دہی، روٹی کم کھانے کے مشورے دینے والے اور چائے کم پینے کی اپیل کرنے والے خود پہلے اپنے گھر سے شروع کریں۔ اپنے لگژری اپارٹمنٹ چھوڑ کر ایک 80 گز کے مکان میں رہیں، برانڈڈ کپڑے چھوڑ کر عام لباس پہنیں، سادہ کھانا کھائیں بجائے اس کے کہ دس طرح کے کھانے لگا کر پھر آدھی سے زیادہ پلیٹ میں کھانا چھوڑ کر ضائع کرکے کھانے کی بے حرمتی کریں، اعلیٰ قسم کی گاڑیاں چھوڑ کر ضرورت کے مطابق گاڑی کا استعمال کریں یا عام انسان کی طرح چنگچی رکشوں اور بسوں میں سفر کریں تاکہ کرایہ ادا کرکے ان کو بھی معلوم ہو کہ کیسا لگتا ہے۔

اپنی تمام تر سہولیات جو حکومت کی جانب سے دی گئی ہیں ان کو چھوڑ کر ایک مزدور کی طرح زندگی گزاریں اور ایسا اگر ایک سال کے لیے بھی کر لیں تو ملک کی معیشت کو کافی حد تک فائدہ ہو سکتا ہے تمام حکمران جنہوں نے عوام کا پیسہ اپنی تجوریوں میں بھرا ہوا ہے اسے قومی خزانے میں جمع کروا دیں تو ہمارا ملک نہ صرف قرض سے نجات حاصل کر لے گا بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

تمام سرمایہ دار حکمرانوں کو چاہیے کہ انہوں نے جو اپنے بنگلے، محلات اور حویلیاں بنائی ہوئی ہیں ان میں سے ایک ایک اپنے پاس رکھ کر باقی سب کچھ قومی خزانے میں جمع کروا دیں تاکہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ سکے، الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ہم اپنے اللّٰہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں یہودی کبھی بھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا، ہمیں ان کی سازشوں کو سمجھ کر عقل مندی سے کام لینا چاہیے قرض پہ قرض لے کر ہم کبھی بھی اپنے ملک کو ترقی نہیں دے سکتے۔ اللہ پاک پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ثم آمین۔