ہائے ! غریب الوطنی

علی الصبح بیدار ہونا ، گھر والوں کے ساتھ ناشتہ اور پھر اپنے کام پر روانہ ہونا۔ گھر کے بچوں کا اسکول کالج یونیورسٹی کی راہ لینا اور خاتونِ خانہ کا گھر کے کاموں میں مصروف ہوجانا۔ ایک بہترین تصویر ہے جس میں معاش کی فکر سے آزادی ہے، گھر کا سکھ ہے تعلیم اور صحت کی دستیابی ہے اور ایسی مصروفیت ہے جس میں طمانیت کا احساس ہے۔

ایک منظر یہ بھی کہ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ جبری طور پر گھروں سے بےدخل کیا جا رہا ہے۔ تعلیم صحت اور خوراک ایک سوالیہ نشان ہے۔ اجنبی دیس، اجنبی لوگ، اجنبی زبان ! ۔ آپ درست سمجھے یہ لوگ اپنے وطن اپنے گھر سے جان بچا کر بھاگے ہیں، بے یار و مددگار تن پر موجود لباس کے علاؤہ جن کے پاس کچھ نہیں جو قریبی ملک کی سرحد میں داخل ہوئے ہیں۔ جہاں انہیں خوشی سے خوش آمدید نہیں کہا گیا بلکہ معیشت پر بوجھ کا رونا رویا گیا۔ ان پر پناہ گزین کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے۔

ہر سال 20 جون کو پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ UNHCR پناہ گزینوں کے حقوق کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتا ہے۔ دسمبر 2000 میں ایک اجلاس میں 20 جون کو عالمی پناہ گزینوں کا دن مقرر کیا گیا۔ اس سے قبل اسے افریقہ کے پناہ گزینوں کا دن کہا جاتا تھا۔ جبکہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتداء 1997 میں فلپائن سے ہوئی۔

سال 2022 میں پناہ گزینوں کے عالمی دن کا موضوع:

”محفوظ پناہ گاہ کی تلاش انسان کا بنیادی حق ہے”۔

پناہ گزین کون ہیں؟

ایسے افراد جو جنگ، آفات یا جبری طور پر اپنے وطن سے نکالے گئے ہوں اور ان کو واپس وطن جانے پر جان کا خطرہ ہو۔ ریفیوجی کنونشن 1967 کے مطابق پناہ گزین وہ شخص جو اپنے وطن سے دور ہو، جسے واپس وطن جانے پر ریاست، خاندان، مذہبی فرقے، کسی مخصوص طبقہ فکر یا سیاسی جماعت سے خطرہ ہو، یا وہ شخص وطن واپس جانا نہ چاہتا ہو پناہ گزین شمار ہو گا۔ UNHCR کے مطابق پناہ گزینوں کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں

1: مہاجرین، ایسے افراد جو کہ اپنی رضا سے وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں بہتر معیار زندگی کے لئے منتقل ہو جائیں۔ امریکہ اور آسٹریلیا اس کی مثال ہیں جہاں پوری دنیا سے لوگ نوکری کے لئے جا کر بسے ہیں۔

2: سیاسی یا مذہبی پناہ گزین، ایسے افراد جو اپنے ملک سے بھاگ کر کسی دوسرے ملک میں قانونی پناہ حاصل کریں۔

3: لا قومیت، (stateless person)

ایسے افراد جن کو کوئی بھی ملک اپنے قانون کے تحت اپنا شہری نہ مانتا ہو۔ یا جن کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہ ہو۔ مثلاً میانمار میں روہنگیا، شام، ایران، ترکی اور عراق میں رہنے والے کرد وغیرہ

4: بے گھر افراد(آئی ڈی پیز )، ایسے افراد جو کسی ملک کی سرحدوں کے اندر موجود ہوں مگر اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوں۔ ان کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جن میں ایک جنگ اور فسادات بھی ہیں۔

گزشتہ دو دھائیوں میں پوری دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد آبادی کا ایک فیصد ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سو افراد میں سے ایک پناہ گزین ہے۔ اس وقت دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد ساڑھے 8 کروڑ ہو چکی ہے۔ جس میں ڈھائی کروڑ افراد وہ ہیں جو کہ اٹھارہ سال سے کم عمر ہیں۔

وجوہات: دنیا میں موجود مختلف جنگیں ہر سال پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس صدی کے ابتداء سے ہی امریکہ کا افغانستان و عراق پر حملہ، شام کی صورت حال،فلسطین میں بڑھتا ہوا اسرائیلی قبضہ، روہنگیا میں مسلم کش فسادات، ہندوستان اور کشمیر میں نئے آرٹیکل کا نفاذ، سوڈان اور دیگر ممالک کے حالات یہ سب بے گھر افراد کی تعداد میں روز بروز اضافے کا سبب ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ سال کی ابتداء سے اب تک روس اور یوکرین کے تنازعہ میں تقریبا 3.7 ملین لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ اس کی بہ نسبت اپنے وطن لوٹنے والوں کی تعداد صرف ایک فیصد ہے۔ کچھ ممالک میں تو پناہ گزین کئی دھائیوں سے موجود ہیں جیسے افغان پانچ دھائیوں سے پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

پناہ گزین اور میزبان ممالک: اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان پانچ ممالک کے پناہ گزینوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

شام:6.8 ملین

وینزویلا:4.1 ملین

افغانستان: 2.1 ملین

سوڈان : 2.2ملین

میانمار:1.1ملین

ان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک میں ترکی سر فہرست ہے جہاں پناہ گزینوں کی تعداد 3.7 ملین ہے۔ اس کے علاوہ کولمبیا 1.7 ملین، یوگینڈا 1.5ملین، پاکستان1.4 ملین اور جرمنی میں 1.2 ملین پناہ گزین موجود ہیں۔

کیا پناہ گزینوں کے حقوق ہوتے ہیں: جی ہاں پناہ گزینوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ جن میں ایک اہم حق محفوظ پناہ گاہ بھی ہے۔ ایسے افراد جو کہ قانونی طور پر پناہ گزین کا درجہ اختیار کرتے ہیں تو میزبان ملک ان کو مختلف حقوق ادا کرتا ہے۔ جس میں صحت و علاج کی سہولت، ڈاکخانے کی سہولت، رہائش اور خوراک کی فراہمی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ البتہ وہ افراد جو کہ کسی ملک میں غیر قانونی پناہ گزین ہوتے ہیں وہ بنیادی حقوق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ تاریخ میں کئی مشہور شخصیات پناہ گزینی کی زندگی گزار چکی ہیں جن میں البرٹ آئنسٹائن ، ہنری کسنجر ، سگمنڈ فرائڈ ، میڈلین البرائٹ وغیرہ شامل ہیں۔

یہ دن کیسے منایا جائے؟

پناہ گزین/ بےگھر افراد اور خاندانوں کے ساتھ تعاون کریں۔ پناہ گزینوں کے عالمی دن کی تقریبات میں حصہ لیں۔ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں۔ ان کا معیار زندگی بہتر بنانے میں ان کی مدد کریں۔ صحت، صفائی اور تعلیم کے لئے ان کو مدد فراہم کرنا۔ ان تک مناسب خوراک پہنچانا اور ان کے لئے فنڈ جمع کرنا۔ اور سب سے اہم کسی ایک پناہ گزین تک ذاتی طور پر پہنچیں ان کی زندگی میں بدلاؤ لائیں ان کو دھتکاریں نہیں بلکہ ان کا ہاتھ تھامیں۔ ایک انسان کی زندگی میں بہتری لانا ایک خاندان اور ایک نسل کی مدد کرنا ہے۔

یاد رکھیں ! یہ ہم بھی ہو سکتے تھے یہ ہم بھی ہو سکتے ہیں۔ کل یہ سب بھی گھر بار والے تھے، ان کا بھی کوئی وطن تھا ان کی بھی کوئی شناخت تھی۔ گردش ایام نے ان کو کسی اور کے در پر لا پٹخا ہے۔ اپنے وطن اپنے گھر کو دیکھ کر اللّٰہ کا شکر ادا کریں۔

کن منزلوں لٹے ہیں محبت کے قافلے
انساں زمیں پہ آج غریب الوطن سا ہے