کچے اور پکے کے ڈاکو

272

سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی جانب سے یہ شکوہ سامنے آنے کے بعد ہی سے صوبائی حکومت کی اہلیت اور وجود پر سوالات اٹھ گئے تھے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس فوج جیسا اسلحہ کہاں سے آتا ہے۔ یہ بات کرنے کے پندرہ روز بعد بھی سندھ حکومت یہ نہیں معلوم کرسکی کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے اب سندھ کی پولیس نے تحقیقات شروع کردی ہے اسلحہ کہاں سے آتا ہے لیکن حیرت ہے کہ جس حکومت اور پولیس سے شکایت کی کہ اس نااہلی یا ملی بھگت کے نتیجے میں یہ اسلحہ ڈاکوئوں کے پاس پہنچتا ہے وہی اس معاملے کی تحقیقات کررہی ہے۔ نااہل پولیس نااہل حکومت کو رپورٹ دے گی۔ لہٰذا یہ کام بھی شروع ہوگیا ہے کہ معاملے کو بلوچستان حکومت کے سر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سندھ پولیس کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ کی بااثر شخصیات بلوچستان اسے اسلحہ خریدتی ہیں اور بلوچستان پولیس کے پروٹوکول میں اسلحہ ڈاکوئوں کو پہنچتا ہے۔ سندھ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ مراد جمالی اور نصیرآباد سے اسلحہ دیا جاتا ہے یہ تو بتادیا گیا کہ جیکب آباد کی بااثر شخصیات اسلحہ کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں صرف ایک نام سامنے آیا ہے وہ وزیراعلیٰ سندھ ہی کے مشیر بابل خان بھٹو ہیں کہ ان کے زیر استعمال پولیس گاڑی سے اسلحہ ملا ہے۔ لیکن پولیس کی گاڑی کی ڈیوٹی میسر نہیں خود پولیس لگاتی ہے۔ اصل تحقیقات تو پولیس کے بارے میں ہونی چاہیے کہ وزیراعلیٰ کے مشیر کے پروٹوکول والی موبائل اسلحہ کی اسمگلنگ میں کیسے استعمال ہوئی۔ جتنی چاہیں جوائنٹ انویسٹی گیشن کرلین سندھ کا معاملہ سب کے سامنے ہے کچے کے ڈاکو ہوں یا پکے کے دونوں کا کام عوام کو لوٹنا ہے کچے کے ڈاکوئوں کی یہ عیاشی اقتدار کے پکے ایوانوں میں بیٹھے ڈاکوئوں کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی یہ پکے کے ڈاکو عوامی نمائندوں کے حق پر ڈاکا مارکر مسلط ہوئے ہیں اور کچے کے ڈاکوئوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ قوم کو ان کچے پکے کے ڈاکوئوں سے جان چھڑالینی چاہیے جس طرح بابل خان بھٹو نے استعفیٰ دیا ہے اسی طرح آئی جی سندھ اور وزیراعلیٰ سندھ سے بھی استعفیٰ لے کر عدالتی سطح پر معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے ورنہ تحقیقاتی رپورٹ میں سارا ملبہ کسی اور پر ڈال دیا جائے گا۔ سندھ پولیس میں اتنی خرابیاں گھس گئی ہیں کہ ان میں اور کچے کے ڈاکوئوں میں فرق کرنا کبھی کبھی مشکل ہوجاتا ہے۔