الخدمت: خدمت کا استعارا

349

تقسیم ہند کے بعد جب مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے ہجرت کرکے پاکستان داخل ہورہے تھے تو ان کی آباد کاری اور خدمت اس وقت ایک بہت بڑا قومی مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ نوزائدہ ریاست کو اس وقت چاروں اطراف سے مسائل نے گھیر رکھا تھا۔ جماعت اسلامی بھی اس وقت ایک چھوٹی سی جماعت تھی مگر بانی جماعت سید ابولاعلیٰ مودودی نے مہاجرین کی آبادکاری اور ان کی خدمت کی ضرورت اور ریاست کے ایک بہت اہم مسئلے کو حل کرنے میں پیش قدمی کی اور اپنی قلیل تعداد اور وسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنے کارکنان میدان میں ایک عزم کے ساتھ اتارے پھر لوگوں نے دیکھا کہ مہاجرین کے کیمپوں میں لوگ آتے جو کہ صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ہوتے۔ وہ صبح سویرے ہی کیمپوں میں آتے کیمپوں میں صفائیاں کرتے۔ زخمی اور بیمار مہاجرین کی تیمار داری کرتے۔ لباس اور خوراک کا بندوبست کرتے۔ ان کا وژن بڑا تھا انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ مسئلہ چند دنوں کا نہیں بلکہ اس کو حل ہونے میں برسوں لگیں گے لہٰذ انہوں نے بڑے منّظم طریقے سے اس کام کوکرنا شروع کیا ان میں جو لوگ ڈاکٹر تھے انہوں نے زخمیوں اور بیماروں کا علاج معالجہ شروع کیا، جو جسمانی مشقت کے خوگر تھے انہوں نے سخت محنت سے کیمپوں میں مہاجرین کی خدمت کی جو لوگ پڑھے لکھے تھے انہوں نے وہاں نہ صرف بچّوں کو پڑھانا شروع کیا بلکہ وہاں بڑے لوگوں کو بھی دینی تعلیم و تربیت دینی شروع کی۔ مولانا مودودی خود اس کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے کام کی نگرانی کرتے اور صرف ہدایت نہیں دیتے بلکہ ملک کے اندر صاحب ثروت لوگوں کو اس کام میں شریک ہونے کی دعوت دیتے۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ لاہور کے مہاجر کیمپ سے نکل کر یہ کام کراچی تک پھیل گیا کیونکہ یہاں سے مہاجرین ملک کے مختلف حصّوں میں جاکر آباد ہوتے رہے مگر جماعت اسلامی الخدمت ان کے ساتھ رہی۔ جماعت اسلامی کے لوگ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان بھی رہے مگر ان مہاجرین کو نہ بھولے وہ اسمبلوں میں بھی جاتے مگر نئے آنے والے مہاجرین کے گھر مٹی کے گارے سے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرتے ان کے گھروں میں خوراک پہنچاتے۔ کہتے ہیں کام کے اندر اگر اخلاص موجود ہو تو پھر خدا کی مدد بھی آسمانوں سے اترتی ہے۔

آج الخدمت صرف ملکی ہی نہی بلکہ بین الاقوامی فلاحی تنظیم ہے جو ایک نمایاں پہچان رکھتی ہے۔ ملک کے اندر جب بھی کبھی کوئی ارضی و سماوی آفت آئی الخدمت کے رضاکار سب سے آگے نظر آئے۔ جو کام ریاست کے کرنے کے ہیں الخدمت ایک ریاست کے طور پر اس کام کو خود کرتی ہوئی نظر آئی ہے چاہے 2005 میں زلزلے کی وجہ سے تباہی اور متاثرین کی آباد کاری و امداد ہو۔ ملک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں قائم شفاخانے، مدارس، اسکول، یتامیٰ پروجیکٹ، ملک کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مدارس اور اسکول ایک وسیع نیٹ ورک کی شکل میں موجود ہیں اور عوام کی خدمت بلا رنگ و نسل اور بلا امتیاز مذہب کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں بھی ایسی جگہ جہاں انسانوں کو مدد کی ضرورت ہو مثال کے طور پر اسرائیل کی جارحیت کی وجہ سے اہل غزہ کی صورتحال ہے۔ وہاں بھی الخدمت اپنے فرائض ادا کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کار خدمت عوام دیے گئے عطیات بغیر کے بغیر ممکن نہیں اس میں سب اہم بات یہ ہے کہ الخدمت پر عوام کا اعتماد ہے جب بھی الخدمت کے کاموں کے لیے جماعت اسلامی عوام کو پکارتی ہے عوام دل کھول کر دام ِ درمِ سخن اس کام میں الخدمت کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔

یقینا الخدمت کا یہ سفر اٹھتّر سال کا ہے اس کو یہاں ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ اسلام کی تاریخ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ نبی برحق کی سیرت مبارکہ بھی خدمت خلق کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ خدمت کے ذریعے آپؐ نے کتنے ہی انسانوں کی زندگی کا رخ موڑ دیا آپؐ نے اپنے ساتھ چلنے والے صحابہ کرام کو بھی اس کی طرف خاص توجہ کرائی۔ نیکیوں کا موسم بہار شروع ہو گیا ہے اندرون ملک اور بیرون ملک تمام انسانیت کا درد رکھنے والے انسانوں سے یہ اپیل ہے کہ خدمت کے اس سفر کو الخدمت کے ساتھ جاری رکھیں اور اپنا ہر ممکن تعاون پیش کریں تاکہ خلق خدا کی خدمت کل جنّتوں میں درجات کی بلندی کا ذریعہ بن سکے۔