پاکستان کا تعلیمی و علمی بحران اور اس کے اسباب

856

پاکستان کو اگر ’’بحرانستان‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی بحران ہے۔ معاشی بحران ہے۔ نظریاتی بحران ہے۔ اخلاقی بحران ہے۔ سماجی بحران ہے۔ یہاں تک کہ ہم تعلیمی اور علمی بحران میں بھی مبتلا ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے پاس نہ کوئی بڑا عالم ہے۔ نہ بڑا دانش ور۔ ہمارے پاس کوئی بڑا شاعر ہے۔ نہ کوئی بڑا ادیب۔ ہمارے پاس نہ کوئی بڑا استاد ہے۔ نہ بڑا صحافی۔
اسلام میں علم کی اہمیت بنیادی ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد پاک ہے کہ انسان کی فضیلت صرف دو چیزوں میں ہے۔ تقوے اور علم میں۔ علم پر اس اصرار کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن کی تفسیر کا عظیم الشان علم تخلیق کیا۔ مسلمانوں نے رسول اکرمؐ کی احادیث کو جمع کرکے بے مثال علم حدیث کا تحفہ پوری انسانیت کو دیا۔ مسلمانوں نے فقہ کا تاج محل تعمیر کیا۔ شاعری کی اتنی بڑی روایت تخلیق کی کہ مولانا روم کی شاعری کو اگر ترازو کے ایک پلڑے میں دوسری اقوام کے سو بڑے شاعروں کی شاعری کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو مولانا روم کی شاعری کا پلڑا بھاری ہوگا۔ مسلمانوں نے داستان کی غیر معمولی روایت خلق کی۔ مغرب کے دانش ور بھی اب تسلیم کرنے لگے ہیں کہ آج مغرب کے پاس جتنے علوم ہیں وہ سب کے سب مغرب کو مسلمانوں کی عطا ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا پاکستان بدترین علمی و تعلیمی بحران میں مبتلا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بحران کے اسباب کیا ہیں؟
انسانی زندگی میں زبان کی اہمیت بنیادی ہے۔ انسان زبان کی مدد سے سوچتا ہے۔ زبان کی مدد سے علم خلق کرتا ہے۔ زبان کی مدد سے محسوس کرتا ہے۔ زبان کی مدد سے ابلاغ کرتا ہے۔ اسلام میں زبان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ خدا کسی بھی طرح کائنات کو خلق کرنے پر قادر تھا مگر خدا نے لفظ کُن کہہ کر کائنات کو خلق کیا۔ اسی لیے ہم نے اپنے ایک شعر میں عرض کیا ہے۔
اک لفظِ کُن سے خلق ہوئی ساری کائنات
ہر شے سے ایک لفظ کی حرمت زیادہ ہے
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی نئی نسل کی لسانی اہلیت سکڑ سمٹ کر صفر ہورہی ہے۔ بدقسمتی سے اب جس کی مادری زبان اردو ہے اُسے اردو نہیں آتی۔ جس کی مادری زبان پنجابی ہے اُسے پنجابی نہیں آتی۔ جس کی مادری زبان سندھی ہے اسے سندھی نہیں آتی اور جو بچے انگریزی ذریعہ تعلیم رکھنے والے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں انہیں انگریزی نہیں آتی۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ اخبار پڑھتے ہیں ان کا ذخیرہ الفاظ 800 سے ایک ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں اخبار پڑھنے والوں کی تعداد پچیس تیس لاکھ سے زیادہ نہیں۔ لسانی ماہرین کا اصول ہے کہ زبان اُسے آتی ہے جو اپنی زبان کی شاعری پڑھ سکتا ہے۔ سمجھ سکتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ اس معیار کو پیش نظر رکھا جائے تو ہماری نئی نسلیں گونگوں پر مشتمل ہیں۔ اس لیے کہ اب میٹرک، انٹر اور بی اے کی سطح کے نہیں ایم اے کی سطح کے طالب علم نہ شاعری پڑھ سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ اس سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ جن طلبہ کی مادری زبان اردو ہے وہ میر غالب اور اقبال کی شاعری کو سمجھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا تو دور کی بات یہ لوگ میر، غالب اور اقبال کی شاعری پڑھ نہیں سکتے۔ جن طلبہ کی مادری زبان پنجابی ہے وہ وارث شاہ، بلھے شاہ اور بابا فرید کی شاعری کو ٹھیک طرح پڑھ نہیں سکتے۔ جن لوگوں کی مادری زبان سندھی ہے وہ شاہ لطیف اور سچل سرمست کی شاعری کو پڑھنے کی اہلیت سے عاری ہیں۔ جو طلبہ انگریزی کا پس منظر رکھتے ہیں وہ کیٹس، بائرن اور شیلے کی شاعری کو سمجھنا تو دور کی بات اسے ٹھیک پڑھ بھی نہیں سکتے۔ امریکا اور یورپ میں ایسے چمپنزیز موجود ہیں جو علامتوں کی مدد سے 800 سے ایک ہزار الفاظ کو سمجھ لیتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے کروڑوں افراد کا ذخیرہ الفاظ یا تو چمپنزیز کی سطح کا ہے یا ان سے بھی کم۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اس لسانی اہلیت کے ساتھ نہ کوئی گہرا اردو متن یا Text پڑھا جاسکتا ہے نہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس اہلیت کے ساتھ نہ کوئی اچھا شعر کہا جاسکتا ہے، نہ افسانہ لکھا جاسکتا ہے، نہ ناول تحریر ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ اس لسانی اہلیت کے ساتھ کوئی اچھا مضمون کیا اخباری کالم بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نئی نسل کی لسانی اہلیت کیسے بہتر بنائی جاسکتی ہے؟
اس سوال کا جواب ہم ذاتی تجربے کی بنیاد پر دے سکتے ہیں۔ ہم جب پانچ چھے سال کے تھے تو ہمارے گھر میں کہانی سننے اور سنانے کا ماحول تھا، رات کا کھانا کھا کر ہم اپنی ممانی اور ماموں کو گھیر لیتے اور ان سے کہانی سنانے کی فرمائش کرتے۔ ان لوگوں سے ہم نے بادشاہوں یا جنوں اور پریوں کی درجنوں کہانیاں سنیں۔ ہفتے میں ایک دو بار ایسا بھی ہوتا کہ پورا خاندان رات کو جمع ہوجاتا اور سب لوگ جمع ہو کر قصہ چار درویش سنتے۔ ہماری عمر آٹھ سال ہوئی تو ہماری خالہ نے ہمیں آٹھ دس انبیا کے قصص خرید کر دے دیے۔ جو ہم نے دس سال کی عمر میں پڑھ ڈالے۔ ہمارے بڑے ماموں سید نفیس حسن کو پاکستان سے ایسی محبت تھی کہ ہمیں لگتا تھا مسلمانوں کے مقدس جگہیں تین ہیں۔ مکہ، مدینہ اور پاکستان۔ چنانچہ ماموں کے اثر سے ہمارے گھر میں اردو کے تین اخبار آتے تھے۔ چنانچہ خبریں سننے اور پڑھنے کی عادت ہمیں بچپن ہی سے پڑ گئی۔ ہمارے بڑے ماموں روز بی بی سی کی اردو سروس، ریڈیو پاکستان اور آکاش وانی کی خبریں ضرور سنتے تھے۔ اس پورے تجربے کا حاصل یہ ہوا کہ ہمارا ذخیرہ الفاظ ابتدا ہی سے عمدہ ہوگیا جو بعدازاں ہمارے بہت کام آیا۔ مگر اب بدقسمتی سے نہ گھروں میں بچوں کو کہانی سنانے کا رجحان موجود ہے، نہ کسی گھر میں پرانے قصص سنے جاتے ہیں، نہ اب بچوں کو کوئی تحفے میں کتابیں دیتا ہے، نہ اکثر گھروں میں اخبار آتے ہیں اور ایسا تو شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں تین تین ملکوں کی خبریں سنی جاتی ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسلیں گونگی ہوگئی ہیں۔
ہمارے علمی و تعلیمی بحران کی ایک بڑی وجہ سنجیدہ کتب کے مطالعے کی عدم موجودگی ہے۔ معروف شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے ایک بار بتایا کہ وہ چین کے دورے پر گئے تو انہوں نے چین کی ایک اہم شخصیت سے پوچھا کہ آپ کے یہاں ایک کتاب کتنی شائع ہوتی ہے۔ ان صاحب نے بتایا کہ چین میں نئے ادیب کی کتاب بھی ایک لاکھ کی تعداد میں شائع ہوتی ہے۔ اس چینی شخصیت نے پوچھا اور پاکستان میں کیا صورت حال ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ مجھے سچ بولتے ہوئے شرم آئی، چناں چہ میں نے کہا کہ ہمارے یہاں عام طور پر ایک کتاب دس ہزار کی تعداد میں شائع ہوتی ہے۔ حالانکہ اس وقت اکثر کتابوں کا پہلا ایڈیشن ایک ہزار کتابوں پر مشتمل ہوتا تھا مگر اب یہ صورت ہوگئی ہے کہ کتاب پانچ سو بسا اوقات تین سو کی تعداد میں شائع ہوتی ہے اور یہ کتابیں بھی برسوں تک فروخت نہیں ہوپاتیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ کتابیں مہنگی ہوگئی ہیں اور وہ غلط نہیں کہتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم پانچ ہزار روپے کے جوتے کو سستا اور دو سو روپے کی کتاب کو مہنگا کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوتا ہماری ترجیح ہے مگر کتاب ہماری ترجیح نہیں ہے۔ ہوتی تو ہم دس ہزار کی کتاب کو بھی سستا کہتے۔
ہماری علمی اور تعلیمی زوال کی ایک اہم وجہ اساتذہ کا گرتا ہوا معیار ہے۔ نپولین نے کہا ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک شاندار قوم دوں گا۔ یہ بات اساتذہ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ ہم نے اشاعت القرآن گورنمنٹ بوائز اسکول ناظم آباد نمبر پانچ سے 1982ء میں میٹرک کیا۔ ہم اسکول میں اچھا استاد تلاش کرتے رہ گئے۔ ہمارا میٹرک کا رزلٹ آیا تو ہمارے ایک استاد سر عمر نے کہا۔ میاں ذرا اپنی مارک شیٹ تو دکھانا۔ وہ ہماری شاندار مارک شیٹ دیکھ کر حیران رہ گئے۔
کہنے لگے آپ کی اس کارکردگی میں اسکول کا کوئی حصہ نہیں۔ جو کچھ کیا ہے آپ نے خود کیا ہے۔ ہم نے انٹر پریمیئر کامرس کالج ناظم آباد نمبر دو سے کیا۔ پریمیئر کالج اس وقت کراچی کا دوسرا اچھا کامرس کالج تھا۔ اس کے اساتذہ کی بھی بڑی شہرت تھی۔ مگر اصل صورت حال کیا تھی اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ہم سلیم احمد کی ایک نظم ’’چاند پر نہ جائو‘‘ لے کر اپنے اردو کے استاد کے پاس پہنچے۔ ہم نے کہا سر ذرا اس نظم کا مطلب ہمیں سمجھا دیجیے۔ نظم پڑھ کر کہنے لگے کل آنا۔ ہم اگلے دن ان کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ سلیم احمد جدید شاعر ہیں چنانچہ آپ کو ان کی نظم سمجھنے کے لیے کسی نقاد سے رابطہ کرنا ہوگا۔
ہم نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں ایم اے کے آخری سال میں سلیم احمد اور مشفق خواجہ کی کالم نویسی پر مقالے تحریر کیے۔ سلیم احمد کے مقالے میں ہم نے سلیم احمد کے 750 کالموں کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا۔ مگر ہمارے استاد نے ہمیں 100 میں سے صرف 75 مارکس دیے۔ حالانکہ یہ ایک اوریجنل کام تھا۔ مشفق خواجہ کے مقالے میں ہم نے 450 کالموں کا تجزیہ کیا مگر ہماری استاد نے ہمیں اس پرچے میں بھی سو میں سے 75 نمبر دیے۔ حالانکہ انہی استاد نے ہمیں ٹی وی جرنلزم کے رّٹے کے پیپر میں سو میں سے 83 نمبر دیے تھے۔ ہم نے نمبرز پر اعتراض کیا تو خاتون کہنے لگیں تمہارا یہ مقالہ سلیم احمد والے مقالے کے برابر ضخیم ہوتا تو میں زیادہ نمبر دیتی۔ تماشا ملاحظہ کیجیے کہ دس سال بعد شعبہ ابلاغ عامہ نے یہ دونوں مقالے خود کتابی صورت میں یہ بتانے کے لیے شائع کیے کہ شعبے میں معیاری تحقیقی کام ہوتا ہے۔
ہم نے 1991ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ اس زمانے میں جامعہ کراچی پاکستان کی سب سے اچھی جامعہ تھی۔ مگر کراچی کے مرکزی کتب خانے کے نگراں نے ہمیں بتایا کہ جامعہ کے 70 فی صد اساتذہ کتب خانے آتے ہی نہیں۔ 20 فی صد اساتذہ ایسے ہیں جو دو تین کتب لے کر جاتے ہیں اور چار چار پانچ پانچ سال تک نہیں لوٹاتے۔ نگراں نے بتایا کہ صرف جامعہ کے دس فی صد اساتذہ ایسے ہیں جو تواتر سے کتب خانے آتے ہیں۔ کتابیں جاری کرتے ہیں اور دو تین ماہ میں پڑھ کر نئی کتب لے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے دینی مدارس کا حال بھی خستہ ہے۔ ہم دینی مدارس کے ذمے داروں سے پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ کے کسی طالب علم نے قرآن، حدیث، فقہ، سیرت پر کوئی کتاب تحریر کی۔ بدقسمتی سے ہر بار جواب نفی میں ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے جس طرح ہماری جامعات میں کوئی تخلیقی کام نہیں ہورہا اسی طرح ہمارے مدارس بھی صرف مکھی پر مکھی مار رہے ہیں۔