بے اصول سیاسی محاذ آرائی اور تباہ حال معیشت

566

مرکز اور صوبوں میں پی ڈی ایم پی ٹی آئی حکومتوں اور اپوزیشن میں کھینچا تانی اور بے اصول سیاست کے نتیجے میں ملکی نظام تلپٹ ہوتا جا رہا ہے ۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی ۔استعفوں کا معاملہ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں ۔ اب سیاسی حلقوں میں اس بات پر گفتگو ہورہی ہے کہ کیا حکومت اپنے وقت پر انتخابات کرانے کے لیے خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس لیے کہ عمران خان کے تمام دبائو کے باوجود حکومت اپنے وقت پر انتخاب کرانے کے فیصلے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ گویا سیاسی بحران گہرا ہوتا چلا جارہا ہے، انتشار اور تصادم کی شدت بڑھ رہی ہے۔ قومی زندگی پر سیاسی ٹکرائو کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی بحالی کے لیے حکومتی سطح پر کوئی قدم سامنے نہیں آرہا ہے۔ سب کی نظریں آئی ایم ایف پر لگی ہوئی ہیں، یعنی قرضہ پروگرام بحال ہوتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ پاکستانی معیشت کو دیوالیہ پن کے خطرے سے نکالنے کے لیے ایک ارب ستر کروڑ ڈالر کی قسط ملے گی۔ معیشت وینٹی لیٹر سے باہر آئے گی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے جنیوا میں آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ پاکستانی معیشت کے جائزے کو حتمی شکل دینے کے لیے آئی ایم ایف کا جائزہ مشن دو تین روز میں اسلام آباد پہنچ جائے گا۔ لیکن آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونے میں تاخیر ہوتی جارہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر معیشت پر منفی اثراور مزید تباہ کن ہوا ہے، اس کا فوری اثر حصص کے بازار پر پڑا ہے اور منگل کو پاکستان کے سب سے بڑے حصص بازار میں مندی دیکھی گئی۔ اس کا سبب آئی ایم ایف مذاکرات میں تاخیر کی مزید اطلاعات تھیں سیاسی بے یقینی میں اضافے کے باعث بھی سرمایہ کاروں میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ بڑے پیمانے پر سرمائے کا انخلا ہورہا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق صنعتی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، بلاشبہ معیشت مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے، قوم حالات کی اصلاح کے لیے اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں، جمہوریت کے دعویدار حکمراں اپنی جنگ اقتدار میں مصروف ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے دبئی کے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ معاشی ترقی کا خواب پورا ہوگا۔ انتخاب اپنے وقت پر ہوں گے۔ وزیراعظم کے بڑے بھائی مسلم لیگ (ن) کے اصل سربراہ میاں نواز شریف نے بھی اعلان کیا ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے، مخلوط حکومت اور معزول حکومت کے درمیان ایک دوسرے کو گرانے کے لیے چالوں کا تبادلہ ہورہا ہے، پاکستان کے سیاست دانوں کی ذہنی پستی کا حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے بیٹے نے اپنی ہی جماعت کے وزیرخزانہ کو ’’معاشی جوکر‘‘ قرار دیا ہے، اپنی حکومت کی پالیسی کی ناکامی کا ملبہ اپنے ہی ساتھی پر ڈال دیا ہے، جبکہ ان کے جانشین جو ان کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کے آنے کے بعد تباہی میں تیزی آئی ہے۔ ڈالر کی اُڑان مسلسل بڑھ رہی ہے، صرف اسی ایک مسئلے نے ہر شعبے کو متاثر کردیا ہے۔ اس کے باوجود بجلی، گیس کے نرخ بڑھیں گے، نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ ان حالات میں متحارب سیاسی جماعتوں کے پاس معیشت کے اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ قوم ایسے موقع پر اپنی قیادت کی طرف دیکھتی ہے، زبانی طور پر ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ معاشی مسئلہ نمبر ایک ہے، عالمی ادارے بھی اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ بہت بڑی آبادی کے لیے غذائی ضرورت بھی پوری نہیں ہورہی ہے۔ یہ صورت قحط یا خشک سالی کی وجہ سے نہیں بلکہ عالمی نظام زر نے قوت خرید اتنی کم کردی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی اشیا حاصل نہیں کرسکتے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن حکمران سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت اجتماعی دانش و بصیرت سے محروم ہیں۔ ذہنی افلاس کا سبب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہیں، اس کی علامت وزیراعظم کے بیٹے کی اپنی ہی جماعت کے رہنما کی توہین ہے۔ خود حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سعد رفیق بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ موجودہ جمہوریت چیچک زدہ ہے کیونکہ سیاست پر خاندانوں کا قبضہ ہے، معاشی بحران کے اس خطرناک دور میں سیاسی انتشار حالات کو مزید خرابی میں ڈالنے کا سبب بن رہے ہیں، سیاسی قوتیں بے اصولی، محاذ آرائی کے ذریعے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہی ہیں، یہ جنگ پاکستان میں سیاسی قوتوں کی بالادستی کے تصور کو کمزور کرے گی۔