بلدیاتی انتخابات اور دھاندلی

529

کراچی اور حیدر آباد سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوگئے، لیکن ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ آر او کے دفاتر میں نتائج تبدیل کیے گئے ہیں، جس کے خلاف امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے۔ تاخیر سے نتائج کے اعلان پر سب نے سوال اُٹھا دیا ہے۔ کئی حلقوں کے نتائج الیکشن کمیشن درست کرنے پر مجبور ہوا جب انہیں فارم 11، 12 کو پیش کردیا گیا، ورنہ کئی حلقوں میں انتخابی عملے نے جو سرکاری ملازمتوں پر مشتمل ہوتا ہے تصدیق شدہ گنتی کے فارم دینے سے انکار کردیا اور نتائج تبدیل کردیے گئے۔ انتخابی نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر آئی ہے، جو ’’پری پول رگنگ‘‘ یعنی حلقہ جات کی حدود کی تقسیم میں بے انصافی اور ’’پوسٹ پول رگنگ‘‘ یعنی ریٹرننگ افسر کے دفتر میں نتیجے کی تبدیلی، جبکہ ووٹوں کے اعتبار سے جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں، دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے ووٹ تھے، تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کو ووٹ پڑے ہیں۔ ووٹوں کی تعداد کراچی میں سیاسی جماعتوں کی موجودگی کے زمینی حقائق کے مطابق ہے، جبکہ نشستوں کے اعتبار سے حکومتی جماعت کو سب سے بڑی پارٹی بنادیا گیا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے حکمراں جماعت نے فرار کی مسلسل کوششیں کیں، تین بار انتخابات ملتوی ہوئے، 24 جولائی کی تاریخ بھی عدلیہ کے حکم سے منعقد ہوئی تھی، صوبائی حکومت نے مجبوراً بلدیاتی انتخابات کو قبول کیا تھا لیکن سیاسی انجینئرنگ کے بعد سرکاری دفتروں میں نتائج کو تبدیل کیا گیا۔ اس طرح اس انتخاب کی شفافیت پر سوال اُٹھ گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ساکھ تو دائو پر لگی ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہی جمہوریت کے علمبرداروں کا جمہوریت پر یقین کتنا ہے یہ امر بھی بے نقاب ہوگیا۔ نتائج کے اعلان میں تاخیر نے دھاندلی کے الزام میں وزن پیدا کردیا ہے۔ جمہوری نظام حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے عوام کی پسند اور رائے کا احترام ضروری ہے، اگر اسی طرح انتخابی عمل کو اغوا کرنے کا طریقہ جاری رہا تو عوام کا نمائندہ حکومت کے نظام سے اعتبار اُٹھ جائے گا۔ غیر سیاسی قوتیں سیاسی قوتوں کی اسی دو عملی کا فائدہ اُٹھاتی ہیں۔