ملک میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ

1059

وطن ِ عزیز میں پہلے ہی سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی اور طرح طرح کے فتنے ہیں۔ آزمائشیں اور بلائیں چہار جانب موجود ہیں۔ ایسے میں ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا ہے، اور سیلاب زدہ علاقوں میں سارا بنیادی ڈھانچہ خاک میں مل گیا ہے۔ بڑی تعداد میں گھر ڈھے گئے ہیں، املاک اور فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، لوگوں کے بستر، برتن اور بنیادی ضرورت کی دیگر اشیا کئی کئی فٹ اونچے پانی میں ڈوبے رہنے سے قابلِ استعمال نہیں رہی ہیں۔ نئی نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں، علاج معالجے کی سہولتیں ناپید ہوگئی ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیلاب سے ملک بھر کے 154 میں سے 116 اضلاع متاثر ہوئے جبکہ صحت کے کم از کم 888 مراکز کو نقصان پہنچا۔ عالمی ادارئہ صحت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ پاکستان پہلے ہی کورونا سمیت متعدد وبائوں سے لڑ رہا ہے، صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ ہوئی تو موجودہ صورت حال میں بیماریوں کے پھیلائو میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈائریا، ڈینگی بخار، ملیریا، پولیو اور کورونا جیسی بیماریوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے، یہ اضافہ خاص طور پر متاثرین کے کیمپوں اور اْن علاقوں میں دیکھنے میں آرہا ہے جہاں پانی اور صفائی کی سہولتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس تباہی اور ہلاکت کے اثرات ختم ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اور اس کے لیے بے تحاشا وسائل اور تعمیر ِنو کے ناقابل ِ شکست حقیقی جذبے سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کراچی نے بھی اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں اور بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اموات میں اضافے کی یہ لہر خدانخواستہ موجودہ اموات سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ پیما کی ٹیم اس وقت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ پیما نے ریلیف کے اس کام کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ پہلے فیز میں موبائل کلینکس اور کیمپ کلینکس میں کام جاری ہے۔ دوسرے فیز میں تشخیصی نظام کے ذریعے مختلف بیماریوں کے لیے اسپیشلسٹ اسپتالوں میں مریضوں کا علاج کروائیں گے‘‘۔ اس وقت کیونکہ صحت سے متعلق ماہرین زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں، سندھ میں صحت کی سہولتیں پہلے ہی ناپید ہیں، اندرونِ سندھ تو بدترین صورتِ حال ہے، اسپتالوں کے نام پر وہاں بڑی بڑی عمارتیں تو ہیں، لیکن سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس لیے اس بات کی فوری ضرورت ہے اور ڈاکٹروں نے بھی کہا ہے کہ حکومت ممکنہ طبی بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی کا فوری اعلان کرے، طبی ماہرین کے پینل قائم کرے، اور ان امراض خصوصاً وبائی بیماریوں سے بچائو کے لیے قومی پالیسی مرتب کرے، کیونکہ یہ کام حکومت ہی کرسکتی ہے اور فلاحی تنظیمیں اس کی مدد کرسکتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے فیلڈ اسپتال قائم کرے جن میں عام امراض کا بنیادی علاج اور بچائو کی سہولتیں میسر ہوں۔ ہر ضلع میں کنٹرول سینٹر قائم کیے جائیں تاکہ سہولتوں کے ضیاع سے بچا جاسکے۔ لیکن دوسری طرف بدقسمتی سے اس کڑے وقت میں بھی قومی یکجہتی کا بدترین بحران ہے، ہمیشہ کی طرح ہم ایسے خاص موقعوں پر بھی انتشار کا شکار ہیں، اور قوم ٹی وی اسکرین پر سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور توہین ِ عدالت کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ سیلاب کا تباہ کن طوفانی ریلا جہاں جہاں پہنچا، وہاں بھی لوگ ایک دوسرے پر اس تباہی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ہر جگہ کے طاقت ور لوگوں نے اپنے آپ کو اور اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے پانی کا رخ تبدیل کیا، اور کوشش کی کہ دوسرا برباد ہوجائے اور ہم بچ جائیں۔ بدقسمتی سے ’’سب سے پہلے میں‘‘ والا جو کلچر حکمرانوں نے دیا ہے وہ تیزی کے ساتھ قوم میں بھی منتقل ہوا ہے، اور ہم صرف اپنے آپ کو محفوظ کرنا اور اپنے لیے لینا جانتے ہیں۔ اس وقت ملک میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے، اور یہ کسی علاقے یا شہر تک محدود نہیں رہیں گے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں جہاں فوری نوعیت کے اقدامات کریں، صحت کی فوری نوعیت کی سہولتیں دیں اور لوگوں کو ریلیف فراہم کریں، وہاں اس بارے میں بھی غور و فکر کریں کہ مستقبل میں کس طرح اس تباہی سے بچا جاسکتا ہے اور کس طرح اس کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے ملک کا 76واں یومِ آزادی منا لیا لیکن آج تک بارشوں اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کرنے کے مستقل انتظامات پر خاطر خواہ کام نہیں کرسکے ہیں، کوئی قابلِ عمل اسکیم نہیں بناسکے ہیں۔ جب بھی بڑے ڈیموں کی بات ہوتی ہے وہ سیاست اور انتشار کی نذر ہوجاتی ہے اور لوگ لڑنے مرنے پر آجاتے ہیں۔ اور پھر جب چھوٹے اور درمیانے ڈیموں کی ضرورت جوش و خروش کے ساتھ بیان کی جاتی ہے تو ہم بڑے پیمانے پر ملکی سطح پر کوئی منصوبہ نہیں دیکھتے۔ دنیا کے کئی ممالک سیلاب اور آفات سے متاثر ہوتے ہیں لیکن وہاں حکمران انسانوں کی حفاظت اور بہتر زندگی کے لیے ہزارہا کامیاب تجربات کرتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری قیادت اس طرح کی سوچ نہیں رکھتی، سنجیدہ نہیں ہوتی، اور صرف نمائشی کاموں کے ذریعے قوم کو دھوکا دیتی ہے؟ اس وقت متاثرہ علاقوں میں قرضوں کی واپسی موخر کرنے، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگیوں سے چھوٹ، ضروریاتِ زندگی کی فوری فراہمی، متاثرہ افراد کی جلداز جلد آبادکاری کے مسئلے کے ساتھ دور رس اقدامات کی اشد ضرورت ہے، جس کے لیے حکومت کو اپنے وسائل اور عالمی اداروں کے تعاون سے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اور متمول افراد مدد کر بھی رہے ہیں، ہم سب کو بھی چاہیے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والی کئی رفاہی تنظیمیں بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں اور ان میں سب سے نمایاں نام الخدمت کا ہے، یہی وجہ ہے کہ جمائما گولڈ اسمتھ نے جب ایک ٹویٹ میں رائے لی کہ وہ کس فلاحی تنظیم کے ذریعے سیلاب زدگان کی مدد کریں، تو 90فی صد لوگو ں نے الخدمت کا نام لیا، جس کے بعد انہوں نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے الخدمت فائونڈیشن کو عطیات دینے کی اپیل کی ہے۔ کیونکہ تباہی بڑی ہے اور ضرورت موجودہ فراہم کردہ امداد اور سہولتوں سے کہیں زیادہ ہے۔