مسلم عوام کی معصومانہ خواہش

665

 

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے دورہ سعودی عرب کا اعلان کیا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق استنبول میں ایک تقریب میں صدر اردوان نے کہا کہ وہ فروری میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے جس میں سعودی فرماں روا شاہ سلمان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔ اس سے پہلے حیران کن طور پر ابوظبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کے اصل حکمران کے طور پر دیکھے جانے والے محمد بن زید النہیان گزشتہ سال نومبر میں ترکی کا دورہ کرچکے ہیں اور اسی موقع پر صدر رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ وہ فروری میں متحدہ عرب امارات کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک برسوں کے کشیدہ تعلقات کو پس پشت ڈالنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس دورے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان کی موجودگی میں دونوں ممالک کے درمیان کئی معاہدے بھی ہوئے تھے۔ ویسے تو سعودی عرب اور ترکی کے درمیان بنیادی طور پر سلطنت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے وقت سے ہی تاریخی اختلافات موجود رہے ہیں، لیکن ان میں شدت اْس وقت پیدا ہوئی جب 2018ء میں استنبول میں سعودی سفارت خانے میں صحافی جمال خاشق جی قتل ہوئے۔ اس پس منظر میں صدر رجب طیب اردوان کا سعودی عرب کا دورہ خاصی اہمیت کا حامل ہوگا، جس کے پس منظر میں یہ کہا جارہا ہے کہ اردوان اب خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں تلخی ختم کرنے کی حکمت عملی پر کام کررہے ہیں۔ ترکی کے وزیر خارجہ میولوت چاوسولو نے گزشتہ سال اکتوبر میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اردوان سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز السعود سے فون پر بات چیت بھی کرچکے ہیں۔ اس نئی اور اہم پیش رفت کے پردے کے پیچھے کیا ہے، یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا، کیونکہ یقینا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی سے پریشانی ہے، اس لیے علاقائی شراکت داری کا تقاضا ہے کہ دونوں ترکی کے قریب ہوں، اور یہ ترکی کی بھی اقتصادی ضرورت ہے۔ ترکی کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اسے سیکورٹی میں شراکت بڑھانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ ترکی سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان مثلاً ڈرون فراہم کرسکتا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی اپنی معیشتوں کے ساتھ عالمی تجارت اور سرمایہ کاری میں ایک دوسرے کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتے رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کے مابین تجارت بنیادی طور پر تیل، پلاسٹک، الیکٹرونک سامان، نامیاتی کیمیائی مادہ، اور ادویہ کی ہے۔ بے شک یہ پیش رفت تجارتی اور علاقائی مفادات کے دائرے میں ہے لیکن خوش آئند ہے۔ اسلامی ممالک میں ہم آہنگی اور دوستی عالمِ اسلام کی ضرورت اور امت ِ مسلمہ کی خواہش ہے، لیکن بدقسمتی سے عالمی استعماری سیاست کے کھیل میں ایسا ہو نہیں پا رہا ہے، اور مغرب بالخصوص امریکا اور برطانیہ نے تاریخی طور پر مسلم ممالک میں انتشار برپا رکھا ہے، اور مشرقِ وسطیٰ میں ان کا اسٹرٹیجک حلیف اور دماغ اسرائیل ہے۔ ماضی میں جب خلافت ِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور ترکی، سعودی عرب تعلقات خراب رہے تو عالمِ اسلام میں بھی بے چینی رہی، جس کے بعد موتمر عالمِ اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ مفتی ِ اعظم فلسطین موتمر عالمِ اسلامی کے پہلے صدر تھے، سیکرٹری جنرل ایران کے ڈاکٹر ضیا الدین طباطبائی تھے، مولانا محمد علی جوہر بھی رکن رہے، لیکن یہ تنظیم بھی مغرب کے نشانے پر رہی، جس کے بعد ایک کثیرالجہتی تنظیم او آئی سی کا قیام عمل میں آیا جس میں مسلم ممالک کے اہم دانشور اور شخصیات بھی شریک ہوئی تھیں، پاکستان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی شریک تھے۔ اس کانفرنس میں 50 کے قریب اسلامی سربراہان شریک ہوئے تھے، لیکن پھر یہ تنظیم اْس وقت سے غیر موثر ہوگئی جب امریکی کھیل کے نتیجے میں ایران عراق جنگ ہوئی۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری موجودہ تاریخ بہت اچھی نہیں ہے، اس میں انتشار اور اختلافات موجود ہیں، لیکن ان تنظیموں اور اداروں کی ناکامی کے باوجود اسلامی ممالک اب بھی متحد ہوسکتے ہیں اور ایک مضبوط بلاک بن سکتے ہیں۔ اسلام اس وقت متحد عالمی استعماری قوتوں کے شکنجے میں ہے، مغرب کا غلبہ ہے، اس غلبے نے مسلمانوں کو ان کی آزادی اور خودمختاری سے محروم کررکھا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمِ اسلام کشمیر سے لے کر فلسطین تک ظالموں کے نرغے میں ہے۔ امت ِ مسلمہ کو گن گن کر اور چن چن کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مسلم حکمران مغرب کے کھیل کا دانستہ، نادانستہ حصہ ہیں۔ جب جب مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، مسلم حکمران استعمال ہوئے ہیں۔ اس وقت پوری مغربی دنیا ایک ہی سمت میں ہے، لیکن مسلم دنیا کی قوت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ آج مسلم ممالک کی تعداد 57 ہے، دنیا کی کْل آبادی کا موجودہ تخمینہ 7 ارب 80 کروڑ سے زائد ہے۔ جس میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب90 کروڑ سے زیادہ ہے اس طرح ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان، ایران اور افغانستان کی سرحدیں ہیں، ایشیا و یورپ کی سرحد پر واقع ترکی تک، اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک سے شمالی افریقا کے مسلم اکثریتی ممالک تک اسلامی ممالک کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ اہم ترین آبی گزرگاہیں جو تجارت و دفاع وغیرہ میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں وہ سب عالمِ اسلام میں واقع ہیں۔ اسلامی ممالک کے پاس تیل کے معلوم ذخائر کا 60 فی صد اور گیس کے ذخائر کا 70 فی صد ہے۔ عالمی سطح پر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تعداد 20 ہے، جن میں سے 12 اسلامی ممالک ہیں۔ سونے، چاندی، کوئلے اور دیگر معدنیات سمیت مسلم دنیا کے پاس کیا نہیں ہے؟ نہیں ہے تو اتحاد، یکجہتی اور یگانگت نہیں ہے۔ ہمارے مقابلے میں یہودیوں کی تعداد نہایت قلیل ہے، وہ مسلمانوں کی تعداد کا ایک فی صد بھی نہیں ہیں، لیکن جہاں ہیں متحد ہیں اور پوری دنیا کے مسلمان دشمنوں کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ ہم بڑی طاقت اور ایک عظیم امت ہیں، دنیا کا نظام ہمارے بغیر نہیں چل سکتا، لیکن تقسیم ہیں، اور احساس ِ زیاں بھی نہیں ہے۔ اسی لیے جہاں سعودی عرب اور ترکی میں اچھے تعلقات ضروری ہیں اور اردوان کا دورہ سعودی عرب جہاں اس پس منظر میں اہمیت کا حامل ہے، وہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام اسلامی ممالک کے حکمراں وقتی، تجارتی، علاقائی، اسٹرٹیجک ضرورت کی سطح سے اٹھ کر بڑے ویژن اور خیال اور امت ِ مسلمہ کے تصور کے ساتھ اسلامی تحریکوں کے ساتھ مل کر اپنی حکمت ِ عملی وضع کریں، مغرب کو چیلنج کریں اور اپنی افرادی قوت اور بہترین جغرافیائی قرابتوں سے فائدہ اٹھاکر ایک مضبوط قوم بنیں، کیونکہ اسلام کا ہی سیاسی، اقتصادی، سماجی اور اخلاقی نظام نہ صرف مغرب کو چیلنج کرسکتا ہے بلکہ شکست بھی دے سکتا ہے، اور یہی وقت مغرب کو اپنے ارادوں اور اتحاد کے ساتھ آنکھیں دکھانے کا ہے۔ اگر ہم آج بھی امت ِ مسلمہ کے عالمی تصور کے ساتھ آگے نہیں بڑھے تو ہمارے زوال کا سفر اور طویل ہوتا چلے جائے گا۔ یہی وقت کھڑے ہونے اور کچھ کرنے کا ہے۔ یہی مسلم عوام کی اپنے مسلم حکمرانوں سے معصومانہ خواہش ہے، اور ترکی اور سعودی عرب کی قیادت کو اس زاویے سے کم از کم سوچنا تو چاہیے۔