کشمیریوں کی 90 سالہ جدوجہد ِآزادی

831

وادی کشمیر، ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ اس وقت یہ خطہ 3 ممالک میں تقسیم ہے، جس میں پاکستان کے زیرانتظام (شمالی علاقہ جات وآزاد کشمیر)، بھارت کے زیر قبضہ ( وادی کشمیر، جموں اور لداخ ) اور چین کے زیرانتظام (شمال مشرقی علاقے، اسکائی چن اور بالائے قراقرم وغیرہ) شامل ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان لائن کو برطانوی دور میں یکطرفہ طور پر نافذ کیا گیا تھا، اس لیے چین اسے تسلیم نہیں کرتا۔ 1962ء سے اکسائی چن پر چین کا کنٹرول ہے، بھارت سیاچن گلیشیر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتاً کم اونچے پہاڑوں پر موجود ہے۔
تین صدی قبل مسیح، وادی کشمیر بدھ حکمران آشوکا کی اس ریاست کا حصہ تھی، جو دکن سے افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ آشوکا کی موت کے بعد کشمیر پر مقامی قبائل کی حکومت رہی۔ پہلی صدی عیسوی میں کشمیر کو شمال مغربی چین سے آئے بدھ مہاراجہ کانیشکا نے فتح کیا۔ پانچویں صدی عیسوی میں ہندو مہارجہ ماہیراکولا نے بدھ حکومت کا خاتمہ کر کے برہمن ہندوئوں کی حکومت کی بنیاد رکھی اور رعایا پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ ساتویں صدی عیسوی میں کشمیر کے ہندو راجہ لالی تادتیا نے ترقی اور فلاح و بہود کے کام کیے۔ کشمیر میں ہندوئوں کا اقتدار، چودہویں صدی عیسوی میں مسلم حکومت کے قیام کے ساتھ ختم ہوا۔
ہندوستان میں جب صوفیائے کرام کی کاوشوں سے اسلام کی اشاعت ہوئی تومختلف علاقوں میں اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں۔ اسی دور میں ایک صوفی بزرگ سید شمس الدین شاہ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر ہندو بادشاہ رنچن نے اسلام قبو ل کیا اور وہ صدرالدین شاہ کے نام سے کشمیر کے پہلے مسلمان حکمران بنے۔ ان کے بعد صوفی بزرگ شمس الدین شاہ، کشمیر کے دوسرے مسلم حکمران تھے جو حضرت بلبل شاہ کے نام سے مشہور ہوئے اور آپ کا مزار سرینگر میں ہے۔ اس خاندان کےحضرت میر کبیر شاہ ہمدان، میر سید علی ہمدانی اور ان کے پیروکاروں نے کشمیر میں تبلیغ اسلام جاری رکھی۔ کشمیری اسلامی روایت میں سب سے معزز روحانی عُہدہ ’’میر واعظ‘‘ کا سمجھا جاتا ہے۔ اِس مقام پر شاہِ ہمدان کے خاندان کا وہی نوجوان فائز ہو سکتا ہے جو قرآن و سنت اور صوفیا کی تعلیمات سے مکمل طور پر آشنا ہو۔ اس خاندان کے 200سالہ اقتدار کا خاتمہ اس وقت ہوا جب مغل بادشاہ اکبر نے 1586ء میں کشمیر کو مغل سلطنت میں شامل کر لیا۔
مغلیہ دور کے بادشاہ کشمیر کی خوبصورتی سے بہت متاثر تھے۔ اورنگز یب عالمگیرنے اِ سے زمین پر جنت قرار دیا، جہانگیرنے کشمیر میں شالیمار اور نشاط باغ تعمیر کروائے۔ مغلیہ سلطنت کمزور ہونے کے بعد کشمیر میں مغلیہ گورنر نے ظلم و ستم شروع کیے جن کی روک تھام کے لیے احمد شاہ درانی (ابدالی، افغانی) نے 1751ء میں کشمیر پر تصرف حاصل کیا اور پھر 70 سال تک یہاں افغان حکومت قائم رہی۔ 1819ء میں کشمیر پر سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے قبضے کے ساتھ ہی یہاں 500 سالہ مسلم دورِ حکومت کا اختتام اور سکھ دور حکومت کا آغاز ہوا۔
سکھ گورنر دیوان موتی رام کے دور میں مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے۔ اذان پر پابندی لگا دی گئی، مساجد گرادیں یا بند کرا دی گئیں اور مسلمانوں کو ٹیکسوں کے انبار تلے دبا دیا گیا۔ ریاستِ جموں کے ڈوگرا مہاراجہ گلاب سنگھ نے لداخ، ہنزہ اور بلتستان پر حملے کیےاور ان علاقوں کو رنجیت سنگھ کے قبضے میں دے دیا۔ اس طرح گلاب سنگھ نےسکھ ریاست کو وسعت دینے میں مدد کی۔ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی سکھ ریاست کو انگریزوں کے تسلط سے بچانے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی سے سرحدی حدود کے احترام کا معاہدہ کیا۔ 1839ء میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد انگریز حکومت اور سکھ ریاست کے تعلقات خراب ہو گئے۔ 1846ء کو ان کے درمیا ن پہلی جنگ ہوئی جِس میں سکھ حکمران، ڈوگرا مہاراجہ گلاب سنگھ کی مدد کے بغیر لڑے، شکست کھائی اور سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ نے تختِ لاہور برطانوی حکومت کے حوالے کر دیا جِس سے انگریز راج پورے برِصغیر پر چھا گیا۔
ریاست جموں کا مہاراجہ گلاب سنگھ ، سکھوں کی مدد کرنے کے بجائے اپنے مفادات کی خاطر انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے جنگ سے دُور رہا۔ اُس وقت کے انگریز وائسرائےنے کشمیر کو براہِ راست کنٹرول کرنے کے بجائے سکھوں کے خلاف مدد کرنے پر مہاراجہ گلاب سنگھ کو معاہدہ امرتسر کے تحت وادیِ کشمیر بشمول سکھ ریاست کے علاقے بلتستان، گلگت ایجنسی اور لداخ 7 کروڑ 50 س لاکھ کے عوض فروخت کر دیے۔ 1935ء میں برٹش حکومت نے سوویت، چائنا اور افغان افواج کی پیش قدمی کو روکنے کی خاطر گلگت اور بلتستان کو کشمیر کی ڈوگرا حکومت سے براہِ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ تقسیم ہند سے ذرا پہلے برٹش حکومت نے گلگت، بلتستان کا علاقہ کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ کو واپس کر دیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ یہ علاقہ بشمول کشمیر بھارت کے کنٹرول میں چلا جائے لیکن گلگت ایجنسی کے لوگوں نے ڈوگرا راج سے بغاوت کر دی۔ برطانوی افسر میجر ولیم برائون اور کیپٹن مرزاحسن خان نے مسلم آبادی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ڈوگرا آرمی کمانڈ اورگورنر گھنسارا سنگھ کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے یکم نومبر 1947ء کو پاکستان کا سبز ہلالی پرچم گلگت ایجنسی میں لہرا دیا اور 3 دن بعد گلگت نے ولیم برائون کی قیادت میں پاکستان کے ساتھ قانونی الحاق کر لیا۔
ڈوگرا مہاراجوں نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے اور بے پناہ قتل و غارت کی۔ 1931ء میں پونچھ کے کشمیریوں نے ان مظالم سے تنگ آ کر مہاراجہ کی فوج سے بغاوت کرتے ہوئے آزادی، خود مختاری اور حریت کی جد و جہد شروع کردی۔ اِس بغاوت کو دبانے کے لیے بے شمار کشمیریوں کو قتل کیا گیا اور گرفتار کرکے قید میں ڈالا گیا۔ 13 جولائی 1931ء کی صبح سرینگر جیل میں قید مسلمان کشمیری رہنما کا نعرۂ آزادی لگانے کے جُرم کی پاداش میں ٹرائل ہو رہا تھا جِس کے حق میں ہزاروں مسلمان سرینگر کی سنٹرل جیل کے باہر جمع تھے۔ مجمع میں سے ایک مسلمان نوجوان نے فجر کی اذان دی اورڈوگرا فوجی نے اُس نوجوان کو گولی مار کر شہید کر دیا اور پھر اس اذان کو مکمل کرنے کی خاطر 21 لوگوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اسی روز سے ریاست میں مہاراجہ سے آزادی کی جد و جہد کا باقاعدہ طور آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ کشمیری عوام آج بھی 13 جولائی، یومِ شہداکے طور پر مناتے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کے پیش کردہ قانون آزادیِ ہند 1947ء کے تحت مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے پاکستان اور ہندو اکثریت والے علاقے بھارت میں شامل ہوناتھے۔ اس قانون کے تحت دیسی ریاستوں کے مہا راجوں کو کہا گیا تھا کہ وہ زمینی اور مذہبی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یہ بات کانگریسی رہنمائوں کے لیے پریشان کن تھی کیوں کہ ریاست کی مسلم آبادی اکثریت میں تھی اوراُس وقت تک مجوزہ بھارتی ریاست کا رابطہ کشمیر سے نہیں تھا۔ کانگریسی قیادت نے لارڈ مائونٹ بیٹن اور پلان تقسیمِ ہند پراثر انداز ہونا شروع کر دیا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن، تقسیم ِ ہند کے کمیشن کے سربراہ ریڈکلف اور کانگریس کی ملی بھگت سے قانون کی خلاف ورزی کر تے ہوئے ضلع گورداسپورکو بھارت میں شامل کر دیا گیا جب کہ بائونڈری کمیشن کی رپورٹ 8 جولائی 1947ء کے تحت یہ پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ بھارت کی چال کشمیر پر بھی کاگر ثابت ہوئی اور کشمیر کے مہاراجہ ِہری سنگھ نے تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ کیے گئے اسٹینڈ اسٹل معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت سے غیر قانونی الحاق کرلیا۔ اس سے کشمیر پر بھارتی قبضے کا راستہ ہموار ہوا اور بالآخر بھارت نے اکتوبر 1947ء کو اپنی فوجیں کشمیر میں اتار کر قبضہ کر لیا۔
کشمیریوں نے مسلم دورِ حکومت کے خاتمے کے بعد کبھی کسی غیر مسلم حکومت کو تسلیم نہیں کیا اورتقسیمِ ہند کے وقت بھی وہ بھارت کے ساتھ الحاق کے مخالف تھے چنانچہ کانگریس کی سازش اور مہاراجہ کے غیر قانونی فیصلے کی وجہ سے ریاست میں بغاوت نے جنم لیا۔ کشمیریوں کی اِس جدوجہد کو کچلنے کی بہت کوشش کی گئی مگر ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریک نے کشمیری مسلمانوں کو حوصلہ دیا۔ قائد اعظم کی قیادت میں مطالبہ پاکستان نے کشمیر ی حقوق کی جدوجہد کو بھی آزادی کی جنگ میں تبدیل کر دیا۔ مہاراجہ کے سرینگر سے جموں بھاگ جانے کے بعد 24 اکتوبر کو کشمیریوں نے ریاست کا بڑا حصہ کنٹرول کر لیا اور ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ بھارت نے لداخ، وادی، جموں اور پونچھ پر 27 اکتوبر کو فوج کشی کرتے ہوئے 2 لاکھ کشمیریوں کو شہید کرکے قبضہ کر لیا۔ چنانچہ یہ ریاست سمٹ کر موجودہ آزاد کشمیر تک محدود ہو گئی اور کشمیر دولخت ہو گیا۔ بھارتی قبضہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ختم نہ کر سکا اور آج بھی کشمیری عوام بھارتی مظالم کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کشمیر کی پاکستان سے الحاق کی جدوجہد نسل در نسل چلی آ رہی ہے اور چلتی رہے گی کیوں کہ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کا دل و خون کارشتہ پاکستان کے مسلمانوں سے جڑا ہے۔ دونوں طرف کے مسلمانوں کی ایک تاریخ، تہذیب، دین اور ثقافت ہے اور ہر حوالے سے یہ پاکستان کا حصہ ہے۔ پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے کیونکہ یہاں سے بہنے والے دریا پاکستان کی جانب جاتے ہیں اور اس اعتبار سے قدرت نے اس کا تعلق پاکستان سے جوڑا ہے۔ تاریخی، تہذیبی، مذہبی، ثقافی، سیاسی، سماجی اور ہر ایک رشتے کی گہرائی میں کشمیر کا کوئی تعلق بھارت سے نہیں بنتا لیکن پھر بھی وہ کشمیر پرقابض ہے۔ 74 سال گزرنے کے باوجود، پاکستان کے لیے کشمیریوں کے جوش و جذبہ میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔
1948ء میں بھارت نےسلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف شکایت درج کرائی کہ پاکستان نے کشمیر میں بھارتی بالادستی کے خلاف جارحیت کی حمایت کی۔ بھارت نے یہ جھوٹا وعدہ بھی کیا کہ جب حالات معمول پر آجائیں گے تو کشمیر کاحتمی الحاق کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔ پاکستان نے جوابی شکایت میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی قانوی حیثیت کو چیلنج اورکشمیر میں بھارتی فوج کشی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عالمی برادری کو یہ باور کروایا کہ بھارت نے کِس طرح مسلمانوں کا حق چھینا اور ان کے علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کیا۔ سلامتی کونسل نے اس سلسلے میں 20 قراردادیں منظور کیں اورقرار داد نمبر 47 کے تحت کشمیر سے فوجوں کے انخلا اور اس ریاست کا مستقبل طے کرنے کے لیے رائے شماری جیسی 2 سفارشات کیں۔ بعد ازاں یہ قرارداد مسئلہ کشمیر کے حل کی تمام بین الاقوامی کوششوں کا مرکزی حوالہ بن گئی۔ 1948ء میں اقوام متحدہ کے کمیشن نے فوجی انخلا کا مطالبہ دہرایا تاکہ رائے شماری کروا کر کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے لیکن بھارت نے تعاون سے انکار کر دیا۔ اس دوران پاکستان کو بھی یہ خدشہ تھا کہ شیخ عبداللہ کی قیادت میں عبوری حکومت اور بھارتی فوج، رائے شماری پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ پھر یہ معاملہ آج تک عمل پذیر نہ ہو سکا۔
ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے ساتھ الحاق کے جس معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس کے تحت صرف دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کا اختیار بھارت کو دیا گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد آرٹیکل 370 اور 35A بھارتی آئین میں شامل کیےگئے۔ یہ آرٹیکلز  ڈوگرا حکمرانوں کے ان وعدوں کی عکاسی کرتے تھے جو کشمیریوں کی سرکاری نوکریوں، زمین کے استعمال اور حقوق ملکیت کے حوالے سے تھے اور جن کا غیر کشمیری آبادی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس وقت بھارت اس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ کشمیر دیگر معاملات میں خود مختار رہے گا۔ اقوام متحدہ میں کئی قراردادیں منظور کی گئیں جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو پابند کرتی ہیں کہ وہ جموں کشمیر کی حیثیت کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام کرائے جانے والی آزاد انہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے تحت کرے۔
بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کےوقت ڈوگرامہاراجہ نے یہ تسلیم نہیں کیا تھا کہ کشمیر مستقبل کے کسی بھارتی آئین میں شامل ہوگا۔ وہ معاہدہ الحاق سے مطابقت رکھنے والا ایک ایسا منصوبہ چاہتے تھے جس میں ان کو کشمیر کے اندرونی معاملات پر مکمل اختیار ہو۔ اس وقت شیخ عبد اللہ بھی کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے تو خلاف تھے مگرخودمختار کشمیر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ بھارت نے نومبر 1947ء میں مہاراجہ پر دبائو ڈالا کہ جموں کشمیر آئین ایکٹ 1939ء کے تحت شیخ عبداللہ کو ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر بنایا جائے۔ 5 مارچ 1948ء کو ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا گیا، جس کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ تھے۔ شیخ عبداللہ کو یہ منصب بھارت کی حمایت کے صلے میں دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس، جموں و کشمیر کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔
مسلم کانفرنس کی بنیاد 1931ء میں ڈوگرہ راجہ کے خلاف منظم مزاحمت کرنے کے لیے رکھی گئی اور اس کی قیادت شیخ عبداللہ نے سنبھال رکھی تھی۔1933ء میں شیخ عبداللہ نے کسانوں کی زمین پر حق ملکیت کی حمایت کی جس پر انہیں جیل میں ڈالا گیا۔ 1935ء میں شیخ عبداللہ نے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا جس میں ڈوگرہ حکومت کے مظالم کی خبریں چھپتی تھیں۔ 1938ء میں شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کے درمیان اختلافات کی وجہ سے شیخ عبداللہ نے اپنی تنظیم کا نام نیشنل کانفرنس رکھ لیا۔ 20 مئی 1946ء کو شیخ عبداللہ کو غداری کے جرم میں 3 سال کی قید سنائی گئی۔ 1946ء میں جب کیبنٹ مشن ہندوستان آیا اور کشمیر کا بھی دورہ کیا تو شیخ عبداللہ نے انہیں ایک میمورنڈم دیا جس میں لکھا تھا کہ کشمیری عوام کا مطالبہ ہے کہ ہمیں مکمل آزادی دی جائے۔
1949ء میں مہاراجہ اور شیخ عبداللہ کے درمیان تنائو بہت بڑھ گیا اور شیخ عبداللہ نے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے کہا کہ وہ مہاراجہ پر تخت چھوڑنے کے لیے دبائو ڈالیں۔ بھارتی دبائو کی وجہ سے مہاراجہ ہر ی سنگھ نے 20 اپریل کو اپنے بیٹے یوراج کرن سنگھ کو صدر ریاست نامزد کیا اور 20 جون 1949ء کو اپنے تمام اختیارات بیٹے کو منتقل کردیے۔ 25 نومبر 1949ء کو یوراج کرن سنگھ نے ایک اعلامیے کے ذریعے بھارتی ایکٹ 1939ء کو ختم کر دیا، جس کے تحت کشمیر اور بھارت کے درمیان تعلقات قائم ہوئےتھے۔ اس سلسلے میں بھارت نے شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس سے کشمیر کو آئینی طور پر بھارت میں شامل کرنے کے لیے مدد بھی حاصل کی اور 1950ء میں بھارت کے تشکیل پانے والے آئین میں آرٹیکل 1(3) اور 370 کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت دے کر بھارت کا حصہ بنایا۔ اس آرٹیکل میں اس بات کو دہرایا گیا کہ بھارتی پارلیمان کے پاس معاہدہ الحاق کے مطابق ریاست جمو ں و کشمیر کے دفاع، مواصلات، اور خارجہ امور سے متعلق قانون سازی کے اختیارات ہوں گے۔ بھارتی صدر کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ جموں کشمیر کی اسمبلی کی منظوری کے بغیر آرٹیکل 370 کو تبدیل یا ختم کرے۔
1951ء میں کشمیر کی پہلی نام نہاد آئین ساز اسمبلی کے انعقاد کے وقت نیشنل کانفرنس کے تمام 71 اراکین کو بلا مقابلہ منتخب قرار دے دیا گیا۔ باقی تمام جماعتوں کے امیدواروں کے کاغذات مسترد کر دیے گئے اور مسلم کانفرنس نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ نیشنل کانفرنس کی قیادت کے تحت کام کرنے والی اس اسمبلی کو سیکورٹی کونسل کی قرارداد 122 کے تحت بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس آئین ساز اسمبلی نے 1952ء کو جموں کشمیر میں موروثی حکمرانی کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ منتخب سربراہ کوصدر کا نام دیا۔ اسی سال کشمیر کی نامزد حکومت نےبھارتی حکومت کے نمایندوں کے ساتھ معاہدہ دلی پر دستخط کیے جس میں یہ طے پایا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت برقرار رہے گی، کشمیری شہری بھارت کے شہری بھی کہلائیں گے، گورنر کا انتخاب ریاستی اسمبلی کرے گی تاہم اس کے ساتھ بھارتی صدر کی منظوری درکار ہوگی۔ کشیدگی کی صورت میں ریاستی حکومت کی درخواست پر بھارتی صدر کے پا س ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسی دوران بھارت نے کشمیر کے صدر یوراج کرن سنگھ کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔
1953ء میں شیخ عبداللہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ 1947ء میں بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق مخصوص حالات کے تحت مجبوری میں ہوا تھا اور اب الحاق کے بجائے آزاد اور خودمختار کشمیر ہونا چاہیے۔ اس پر بھارت نے شیخ عبداللہ کو کشمیر کی علاحدگی کی سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا اور ان کے ایک بھارت نواز ساتھی بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم بنا دیا۔ 14مئی 1954ء میں بھارت کے صدر نےجموں کشمیر کے لیے ایک آئینی حکم نامہ جاری کیا جو معاہدہ الحاق سے متضاد تھا اور اس کے تحت بھارتی حکومت کو دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام شعبوں پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا اور اس کا اطلاق 1950ء سے تصور کیا گیا۔ اس وقت کے کشمیر کے نامزد وزیر اعظم بخشی نے اس عمل کے لیے ضروری قانونی توثیق بھی فراہم کی۔ ان اقدامات کے تحت کشمیر کی رہی سہی خودمختاری بھی ختم ہو گئی اور یہ بھارت کے قبضے میں آتا چلا گیا۔
17 نومبر 1956ء کو بھارتی حکومت نے کشمیر کے نئے آئین کی منظوری دی اور 26 جنوری 1957ء سے اس کا نفاذ عمل میں آیا۔ اگرچہ آرٹیکل 370 پر صحیح معنوں میں کبھی عمل نہیں ہوا تھا لیکن نئے آئین کی منظوری کا عمل دراصل آرٹیکل 370 کی خصوصی حیثیت اور معاہدہ دلی کے خاتمے کا آغاز تھا جس کے تحت جموں کشمیر کو دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام امور میں قانون سازی کا حق دیا گیا تھا۔ بخشی حکومت سے کام نکلوانے کے بعد کچھ دنوں میں اسے الگ کر کے جی ایم صادق کو اقتدار سونپ دیا گیا اور جب بخشی کے حامیوں نے نئے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ منعقد کرنے کی کوشش کی تو بخشی غلام محمد کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔
1965ء میں صدر ریاست اور وزیر اعظم کے بجائے گورنر اور وزیر اعلیٰ کی اصطلاحات استعمال کی جانے لگیں۔ جی ایم صادق 1970ء میں اپنی وفات تک اقتدار میں رہے اور ان کے دور میں کشمیر کو بھارت کے قبضے میں دینے کا عمل عروج پر پہنچا۔ 1970ء میں میر قاسم کو کشمیر کے نئے وزیر اعظم کے طور پر تعینات کیا گیا۔
دسمبر 1971ء میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں شیخ عبداللہ نے 1953ء سے پہلے کی صورت حال پر عمل کا مطالبہ کیا لیکن یہ بھارتی حکومت کے لیے ناقابل قبول تھا۔ شیخ عبداللہ اس وقت جیل میں تھے اور حکومتی دبائو کے سامنے مزاحمت کے بجائے مفاہمت پر راضی ہوگئے۔ اس مفاہمت کے مطابق انہوں نے 1974ء میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کیا اورانہیں بغیر کسی الیکشن کے وزیر اعلیٰ بنادیا گیا۔ 1975ء میں شیخ عبداللہ کشمیر ایکارڈ پر راضی ہوگئے۔ اس معاہدے کے تحت آرٹیکل 370 قائم رہا اور جموں کشمیر کی ریاست کو بھارتی پارلیمان کی قانون سازی میں ترامیم کرنے کی اجازت دی گئی۔ وزرات اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی شیخ عبد اللہ کشمیر کی خودمختاری کے نعرے سے دستبردار ہو گئے، مطالباتی سیاست شروع کر دی اور 1982ء میں اپنی موت تک اسی عہدے پر فائز رہے۔
1983ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں شیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ کی حکومت بنی۔ ان انتخابات کے دوران سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے، کئی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ سلسلہ حکومت بننے کے بعد بھی جاری رہا۔ جولائی 1984ء میں جی ایم شاہ نے بھارتی حکومت کی مدد سے فاروق عبداللہ حکومت گرا کر وزیر اعلیٰ بننے میں کامیابی حاصل کی مگر حالات پر امن نہ ہو سکے اور کرفیو جاری رہا۔ مارچ 1986ء کو بھارت کی طرف سے تعینات کیے گئے گورنر جگموہن نے بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام کے نام پر وزیر اعلیٰ جی ایم شاہ کی حکومت ختم کرکے گورنر راج نافذ کر دیا جو ستمبر 1986ء تک جاری رہا۔ بعدازاں فاروق عبداللہ نے بھارتی حکومت سے صلح کر لی اور مارچ 1987ء میں ہونے والے انتخابات سے پہلے ہی انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ہی کشمیر میں بھارت کے خلاف مسلح تحریک کا آغاز ہوا اور 1989ء میں اس مسلح تحریک نے شدت اختیار کر لی۔ حکومت نے ان تمام سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کر لیا جنہوں نے مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
جون 1990ء کو بھارتی حکومت نے جگموہن کے ذریعے کشمیر پر دوبارہ گورنر راج نافذ کیا۔ اس دوران حق خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو دبانے کے لیے سخت فوجی طاقت کا استعمال کیا گیا۔ 25 مئی 1990ء کو جگموہن نے استعفا دے دیا اور ان کی جگہ جی سی سکسینا کو گورنر بنایا گیا۔ اس کے بعد 19 جولائی 1990ء کو ریاست میں صدارتی راج نافذ کیا گیا جو اکتوبر 1996ء تک جاری رہا۔ اس دوران 1992ء میں حکومت نے مسلح جدوجہد پر کسی حد تک قابو پا لیا اور سیاسی قیادت کو رہا کر دیا۔ ان میں سید علی گیلانی (جماعت اسلامی)، عبدالغنی لون (پیپلز کانفرنس)، میرواعظ عمر فاروق (عوامی ایکشن کمیٹی، خطیب)، پروفیسر غنی بھٹ (مسلم کانفرنس)، شبیر شاہ اور عباس انصاری شامل تھے۔
ان تمام رہنمائوں نے حکومت کے خلاف سیاسی و مذہبی جدوجہد آزادی کو زیادہ منظم انداز میں چلانے کی غرض سے 1993ء میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا، جس کو آل پارٹیز حریت کانفرنس کا نام دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک بھی اس میں شامل ہوگئے۔ اس میں دو درجن سے زائد سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق کوکانفرنس کا چیئرمین بنایا گیا لیکن سب پارٹیوں کو اس پلیٹ فارم پر متحد رکھنے میں عبد الغنی لون نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شہادت کے بعد حریت کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصے کی قیادت میر واعظ کے پاس ہے جومعتدل گروپ سمجھا جاتا ہے اور دوسرے کی قیادت سید علی گیلانی کرتے رہے ہیں جو احتجاجی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ سید علی گیلانی اب حریت کانفرنس کی قیادت سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ حریت کانفرنس نے اپنے قیام ہی سے ہر الیکشن کا بائیکاٹ کیا کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے کا مطلب کشمیر پر بھارت کے قبضے کو جائز تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
1996ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی حکومت بنی۔ ان انتخابات پر بھی غیر شفاف ہونے کے الزامات لگے۔ 1998ء میں ہونے والی مسلح شورش کے دوران نیشنل کانفرنس پر الزامات لگے کہ انہوں نے پولیس کو لامحدود اختیارات دے کر عوام پر ظلم کیا۔ اس معاملے کو اچھال کر سابق کانگریسی رہنما مفتی محمد سید جموں کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا قیام عمل میں لائے۔ 2002ء کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کو پی ڈی پی اور کانگریس اتحاد کے ہاتھوں شکست ہوئی اور مفتی محمد سید کشمیر کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس الیکشن پر بھی خونریزی، دھاندلی، سیکورٹی فورسز کی طرف سے زبردستی اور تشدد کے الزامات لگے۔ مفتی محمد سید نے پاک بھارت دوستی، عزت کے ساتھ امن، خود حکمرانی اور کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں کے درمیان رابطے کی بحالی کے نعرے دیے۔
2005ء میں کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کو اتحادی حکومت کا سربراہ بنایا گیا اور یہ اتحاد 7 جولائی 2008ء تک چلا۔ غلام نبی آزاد کے استعفے کے بعد ایک بار پھر کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ اس سے کشمیر کے حالات مزید بگڑ گئے اور روزانہ کی بنیاد پر آزادی کے حق میں مظاہرے ہونے لگے۔ مئی 2010ء میں طویل عرصے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیااور پتھر پھینکنے والے مظاہرین پر گولیاں برسانے کا سلسلہ شرع ہوا۔
2014ء میں بھارتی انتخابات کے بعد بی جے پی اقتدار میں آئی۔ انتہا پسند ہندو قوم پرست جماعت کی حیثیت سے اس کا ایجنڈا مسلم کش پالیسیوں پر مبنی ہے۔ ان کے دور میں بھارت میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں کئی مسلمانوں کا قتل ہو چکا ہے۔ 2015ء میں کشمیر میں بننے والے بی جے پی اور پی ڈی پی کے اتحاد میں بھی یہی کچھ دیکھا گیا۔ انہوں نے بھی احتجاجیوں کے خلاف بے تحاشا طاقت کے استعمال کے سوا کچھ نہیں کیا۔ مفتی سعید نے نیم علاحدگی پسندانہ ایجنڈے پر اقتدار حاصل کرنے کے باوجود بی جی پی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کر لیا۔ ایک سال بعد مفتی سعید انتقال کر گئے اور جنوری 2016ء میں ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے پی ڈی پی کی قیادت سنبھالی۔
کئی ماہ تک پی ڈی پی اور بی جے پی میں بات چیت چلتی رہی بالآخر اس اتحاد نے محبوبہ مفتی کو وزیر اعلیٰ بنایا لیکن مختلف امور پر اختلافات کی بنیاد پر بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی حکومت کو زیادہ عرصہ چلنے نہیں دیا۔ 2016ء کو کمانڈر برہان وانی کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان پر قابو پانے کے لیے بھارتی فورسز نے پیلٹ گنوں کا استعمال کیا جن سے کئی لوگ بینائی سے محروم ہو گئے۔ جون 2018ء میں لا اینڈ آرڈر کا بہانہ بنا کر گورنر راج نافذ کیا گیا اور چند ماہ کے بعد قانون ساز اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔ 20 دسمبر 2018ء کو گورنر راج کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے الیکشن کا اعلان کرنے کے بجائے صدارتی راج نافذ کر دیا۔
2019 میں بھارت کے عام انتخابات کے دوران نریندر مودی اور انتہا پسند ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے اپنے منشور میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ وہ کامیابی حاصل کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا ئیں گے۔ چنانچہ 5 اگست 2019ء کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر ایک مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد بی جے پی حکومت نے یکطرفہ طور پر، کشمیر کی ریاستی اسمبلی سےپوچھے بغیر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔
ایک نیا اور متنازع آئینی آرڈر 2019ء پاس کیا گیاجس کے لیے جموں کشمیر کی ریاستی قانون ساز اسمبلی سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اس آرڈر کے تحت ریاست جموں کشمیر کو دو یونین علاقوں لداخ، اور جموں و کشمیر میں تقسیم کیا گیا اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر اب دہلی کی براہ راست حکومت ہے۔ اس نئے قانون کے تحت کشمیر کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی اور اسے ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے چلایا جائے گا۔ جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کی سربراہی بھی لیفٹیننٹ گورنر ہی کرے گا اور زیادہ اختیارات نئی دہلی کے پاس ہوں گے۔ مقبوضہ جمو ں کشمیر کو اپنے پرچم اور آئین سے محروم کر دیا گیا اور ریاست میں اب بھارتی آئین نافذ ہے۔ سرکاری عمارتوں سے کشمیر کے پرچم اتار لیے گئے اورریڈیوکشمیر کا نام بھی تبدیل کر دیا گیا۔ اب اس کا نیا نام آل انڈیا ریڈیو سری نگر ہے۔
18 مئی 2020ء کو جموں و کشمیر کے لیے ڈومیسائل کے نئے قواعد متعارف کرائے گئے جن کے تحت بھارت کا کوئی بھی شہری کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے حالانکہ پہلے یہ ممکن نہیں تھا۔ نئے قانون کا مقصد اسرائیلی طرز پر کشمیر کے متنازع خطے میں آبادی کے تناسب کو بدلنا، مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنااور کشمیری میں کشمیریوں کے لیے ملازمت کے مواقع میں کمی کرنا ہے۔
مذکورہ تمام اقدامات سے قبل ہی تمام حریت پسند مسلم رہنمائوں کو قید کر لیا گیا تھا لیکن5 اگست کو بھارت نواز سیاسی رہنمائوں کو بھی قید کر لیا گیا۔ مبصرین کے خیال میں یہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی حکمرانی کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک تھی۔ بھارتی وفاق کے اندر رہتےہوئے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کرنے والے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو نظر بند کر دیا گیا تھا، جس سے ان کی سیاسی جماعتوں کا دائرہ کار نہایت تنگ ہو گیا۔ ان جماعتوں کے لیے اب دو ہی راستے بچے ہیں۔ بھارت سے علاحدگی کا نعرہ بلند کریں یا پھر اس گاڑی میں سوا ہو جائیں جس میں بی جے پی انہیں سوار دیکھنا چاہتی ہے۔ نئی دہلی نے کشمیر پر پوری اور بری طرح قبضہ کر رکھا ہے اور اب انہیں کشمیر میں حمایتی گروپ کی بیساکھی کی ضرورت نہیں۔
ان اقدامات سے بھارت میں انسانی حقوق وآ زادی کی بدترین صورتحال پیدا ہو گئی اوران کے نام نہاد سیکولر ازم کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق شخصی ومعاشی آزادی میں تنزلی کے بعدبھارت عالمی انڈیکس میں 111 ویں نمبرپرآگیا۔ سابقہ انڈیکس کے مقابلے میں انسانی آزادی میں 17 پوائنٹس کی تنزلی آئی۔ وادی میں خوراک اور ادویات کا بحران سنگین ہوگیا۔ انتہا پسند مودی حکومت نے اسپتالوں اور مساجد میں تالے لگادیے۔ بغیر کسی وقفے کے مسلسل کرفیو کی وجہ سے زندگی ابتر ہو چکی ہے۔ مریض تڑپ رہے ہیں، بچے بلک رہے ہیں، اسپتالوں میں دوائی موجود ہے نہ بازاراروں میں کھانے پینے کی اشیا دستیاب ہیں۔ کاروبار زندگی معطل ہے اورمسلسل کرفیو کی وجہ سے سیب کی پکی ہوئی فصلیں خراب ہوگئیں لیکن کسانوں کوفروخت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے سربراہ کے مطابق ایک سال سے تمام فیکٹریاں بند پڑی ہیں اور ایک سال کے اندر کشمیری معیشت کو 40 ہزار کروڑ روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ 5 لاکھ سے زیادہ ایسے لوگ بے روزگار ہوگئے جو باقاعدہ کام دھندہ کررہے تھے، دیگر بے روزگاروں کو شمار کرنا ممکن نہیں۔
بھارتی حکومت نے 5 اگست کے اقدام سے دوروز قبل تمام ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو جموں کشمیر چھوڑنے کی ہدایت کی تھی جس سے سیاحوں اور طلبہ میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ واپسی کے لیے قطاریں لگ گئی تھیں اور ہزاروں سیاح ٹکٹ لیے بغیر سری نگر ائر پورٹ پہنچ گئے تھے۔ کشمیر پر مکمل مواصلاتی پابندی لگا دی گئی۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بگڑتے ہوئے حالات کے باوجود موبائل انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق بھارتی قابض انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر کے سینئر حریت رہنما سیّد علی گیلانی کو پریس کانفرنس تک نہیں کرنے دی۔ گھرمیں نظر بند حریت رہنما سیّد علی گیلانی نے خطوط کے ذریعے صحافیوں کو دعوت نامے بھجوائے تھے لیکن جب صحافی حریت رہنما کی رہائش گاہ پہنچے تو فورسز نے انہیں اندرجانے کی اجازت نہیں دی۔
5 اگست 2019ء کے اقدامات سے قبل کشمیر میں تقریباً ساڑھے 7 لاکھ فوج موجود تھی۔ پھر مزید 25 ہزار فوج بلا ئی گئی اور ان اقدامات کے بعد 49 اضافی بٹالینز تعینات کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ اب بھارتی فوج کی یہ تعداد دنیا میں کہیں بھی فی کس آبادی پر تعینات فوجیوں کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ بھارتی فوج پر انسانی حقوق کی تمام مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا، تشدد، جعلی مقابلے، قتل عام، اجتماعی قبریں، کاروبار و گھروں کو تباہ کرنا، رہائشی علاقوں کو آگ لگانا اور اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی عمارتوں پر قبضہ کرنا شامل ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی دن پر کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت نے 1989ء سے لے کر 10 دسمبر 2019ء تک مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 95 ہزار 471 معصوم کشمیریوں کو قتل کیا جن 7 ہزار 135 کشمیری دوران حراست شہید ہوئے۔ فورسز کی جانب سے قتل کے مذکورہ واقعات کے نتیجے 22 ہزار 910 خواتین بیوہ ہوئیں، ایک لاکھ 7 ہزار 780 بچے یتیم ہوئے جبکہ اسی عرصے میں 11 ہزار 175 خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور ایک لاکھ 94 ہزار 451 املاک کو تباہ کیا گیا۔
صرف 2019ء میں 210 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا گیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ 14 خواتین بیوہ ہوئیں، 29 بچے یتیم ہوئے، 64 خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ 827 افراد کو پیلٹ گنوں سے زخمی کیا گیا جن میں سے 162 افراد بینائی کھو بیٹھے۔ پیلٹ گنوں اور شیلنگ سے 2417 افراد زخمی ہوئے۔ حریت رہنمائوں، کارکنوں اور عام شہریوں سمیت 13000 کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ جنرل پبن راوت نے کشمیری بچوں کو کیمپوں میں بھیجنے کی بات کی تاکہ وہاں جبر و تشدد سے انہیں ہمیشہ کے لیے ناکارہ بنا دیا جائے اور وہ کسی قسم کی مزاحمت نہ کر سکیں۔ سیکورٹی فورسز نے مقبوضہ وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیاہے ۔ اغوا کیے گئے بچوں اور نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں میں رکھا ہوا ہے جہاں ان پر وحشیانہ تشدد ہو رہا ہے۔ ان کے ناخن پلاسوں سے اکھاڑے جا رہے ہیں اوران کے جسم کے نازک اعضا کو بجلی کے کرنٹ سے ناکارہ بنایا جا رہا ہے۔
مظالم اور بندشوں کے باوجود بھارتی فورسز کشمیریوں کا جذبہ آزادی دبانے میں ناکام ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق وادی میں روزانہ 20 کے قریب مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ 5 اگست کے اقدامات کے بعدسے وادی میں 722 احتجاجی مظاہرے کیے جا چکے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں شخصی آزادی کے بعد مذہبی آزادی بھی سلب کر لی گئی ہے۔کشمیری نوجوانوں نے بھارتی سامراج کی پابندیوں کو توڑتے ہوئے مظاہرے کیے، ہزاروں نوجوانوں نے آزادی ریلیاں نکالیں جن پر بھارتی فوج نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور پیلٹ گن کے فائر کیے۔ کشمیر میڈیا سروس کےمطابق 10 ہزار سے زیادہ گرفتار افراد میں سے 4 ہزار 500 کشمیریوں پر بدنام زمانہ کالے قانون پی ایس اے کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ دریں اثنا جرمن میڈیا نے کشمیر کی اندرنی صور تحال دنیا کو دکھا دی۔ جرمن ٹی وی ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کشمیری ریسرچر نے بھارتی فوجیوں کی حرکتوں کو بے نقاب کیا۔
بھارت کی ان یکطرفہ آئینی تبدیلیوں کے اثرات خطے کی سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ چین اور پاکستان بھی اس تنازع میں شریک ہیں اور دونوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی طرف سے منظور شدہ حل کی پاسداری کی جانی چاہیے۔ کشمیر سے متعلق نئے آئینی اقدامات متعارف کرانے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو جاتی کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت کشمیر ایک متنازع خطہ ہے۔ بین الاقوامی برادری نے غیر قانونی قبضے کے حوالے سے ایک متواتر پالیسی تسلیم کی ہے جیسا کہ بالٹک ریاستوں، فلسطین، کریمیا اور کویت پر عراقی قبضے کی مثالوں سے واضح ہے۔کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازع کی اہم ترین وجہ ہے اور اس تنازع کا واحد حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تناظر میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں اور ان کے درمیان کشمیر کا مسئلہ، دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔
بھارت، کشمیریوں کی خالصتا ًاپنی اور داخلی سطح پر ابھرنے والی مقبول عام مزاحمتی تحریک کی حقیقت چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارت اس مقصد کے لیے کشمیریوں کی اس مزاحمتی تحریک کو دہشت گردی قرار دیتاہے، اس کے لیے پاکستان کو بھی موردالزام ٹھہراتا ہے اور اپنی اسی الزام تراشی کو ایل او سی پر دراندازی کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ سچائی چھپانے کی اس کوشش کے تحت بھارت نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی کی خلاف ورزی اور بلااشتعال فائرنگ میں اضافہ کر دیا ہے۔
یکم جنوری 2020ء سے اب تک بھارت نے دوطرفہ جنگ بندی کے 2003ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1440 مرتبہ اشتعال انگیزی اور فائرنگ کا ارتکاب کیا۔ بھارت ایل او سی پر دانستہ عام شہری آبادی کو نشانہ بناتا ہے جس سے اب تک بے شمار شہری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ امکان موجود ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کےلیے کوئی مہم جوئی کرے اور اس جھوٹی کارروائی کے بہانے خطے کے امن وسلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے کی حماقت کرے۔ بھارتی سیاسی اور عسکری قیادت کی جنگی جنون پر مبنی دھمکیوں اور جارحانہ اقدامات کے باوجود پاکستان نے انتہائی صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ، فلسطین کی طرح کا ہی مسئلہ ہے جواقوام متحدہ اور عالمی برادری کی فوری توجہ کا متقاضی ہے مگر ان دونوں مسائل پر عالمی برادری خاموش ہے۔
گزشتہ 7 دہائیوں کے دوران پاکستان نے کشمیر کے کیس کو ہمیشہ عالمی فورمز پر اٹھایا ہے اور کشمیریوں کی قانونی، اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھی ہے۔ بھارت نے کشمیر میں امن اور اِس مسئلہ کے حل کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ بہانے بنا کر ماحول کو خراب کیا ہے۔ صورتحال کچھ بھی ہو ایک نہ ایک دن بھارت کو کشمیر، کشمیریوں کے حوالے کرنا پڑے گا کیونکہ بھارتی حکومت کشمیریوں کا بنیادی حقِ خود اِرادیت ہمیشہ کے لیے سلب نہیں کر سکتی۔ کشمیری اپنی جراتمندانہ جدوجہد اور صبرواستقامت سے پوری طرح سے یہ حقیقت ثابت کرچکے ہیں کہ کہ وہ ’ہندتوا‘ کے مذموم ایجنڈے کو قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی اپنی سرزمین سے دستبردار ہوں گے۔ کشمیری عوام اپنے سیاسی ومعاشی حقوق کسی کو غصب کرنے دیں گے نہ ہی کوئی ان سے ان کی منفرد شناخت ہمیشہ کے لیے چھین سکتا ہے۔ یہ بات بھارت بھی جانتا ہے اور وہ کشمیر میں ہندواکثریت ثابت کرنے کے لیے کشمیریوںکی نسل کشی کر رہا ہے۔ بھارت اپنی تمام تر تخریبی ذہنیت کے با وجود نہ کشمیریوں کو دَبا سکا اور نہ اپنے ملک میں اُٹھنے والی آزادی کی دیگر آوازوں کو دبا سکا۔ کشمیر علاحدگی کی تحریک نہیں بلکہ آزادی کی تحریک ہے، کیونکہ کشمیریوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی ہندوستان کے قبضہ کو تسلیم نہیں کیا۔ کشمیری 90 سال سے آزادی، حریت اور حقِّ خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان حقوق کے حصول تک یہ جنگ لڑتے رہیں گے۔