امریکا میں‌صدر کی تبدیلی اور فلسطینیوں کی اُمیدیں

193

امریکا میں 3 نومبر کو منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد دنیا بھر کی طرح فلسطینی بھی امریکی انتخابات کے نتائج پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی کئی برس سے جاری اسرائیل نوازی پر مبنی تاریخ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی انتخابات میں کامیابی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست سے کوئی زیادہ فرق پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے وائٹ ہائوس میں براجمان ہونے سے کسی حد تک امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کا امکان ہے مگر کسی غیر معمولی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کے زوال کے بارے میں فلسطینیوں کی رائے ہے تو اُن کے لیے یہ بات خوش آیند ہے کہ ٹرمپ جیسا اسرائیل کی اندھی حمایت کرنے والا امریکی صدر شکست سے دوچار ہوا ہے۔ اس کے بعد وجود میں آنے والی امریکی انتظامیہ نے اگر ٹرمپ کی وراثت کو آگے نہ بڑھایا تو کسی حد تک فلسطینیوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔
مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین کا تنازع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی برسوں سے دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی حکمران طاقت کے ساتھ نئی امریکی انتظامیہ کیسے برتائو کرتی ہے۔ گزشتہ 4 سال کے ٹرمپ کے دور صدارت میں اسرائیل کی اس انتہا پسند حکمران طاقت نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی مرضی کے فیصلے کرائے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ ڈیموکریٹس کی انتظامیہ فلسطینی سیکورٹی اداروں اورپناہ گزینوں کے ذمے دار ادارے ‘یو این آر ڈبلیو اے جیسے اداروں کی مدد بحال کرے گی۔ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ بھی ٹرمپ جیسی سختی نہیں برتی جائے گی، تاہم نئی امریکی انتظامیہ بھی فلسطینیوں اور اسرائیل کے ساتھ مذکرات کی رٹ ضرور لگائے گی۔ اس کے باوجود یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ڈیموکریٹس کی طرف سے کیے گئے وعدے کب اور کیسے ایفا ہوتے ہیں۔
ڈیموکریٹس کی واپسی
بائیڈن انتظامیہ کے ڈیموکریٹس رہنماؤں نے فلسطین کے لیے بہتر اقدامات کا وعدہ کیا ہے لیکن فلسطین میں‌یہودی آباد کاری کاعمل تو ڈیموکریٹس کے دور میں بھی جاری رہا ہے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر نے جہاں تنازع کے دو ریاستی حل کو مشکل میں ڈالا، وہیں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا۔ اس سنگین معاملے پر ڈیموکریٹس کی ماضی کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنا ٹرمپ انتظامیہ کا فیصلہ تھا مگر یہ تجویز 1995ء میں کلنٹن انتظامیہ کے دوران پیش کی گئی تھی جسے ٹرمپ انتظامیہ نے 2018ء میں نافذ کیا۔ اگرچہ بل کلنٹن کے دور کے بعد ٹرمپ کی صدارت تک یہ تجویز بار بار ملتوی کی جاتی رہی ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے فلسطین کے مسئلے کی طرف اٹھائے جانے والے اہم ترین فیصلوں اور اقدامات میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنا، فلسطینی اتھارٹی اور یو این آر ڈبلیو اے کے لیے مالی امداد منقطع کرنا اور واشنگٹن میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن پی ایل او کے دفتر کو بند کرنا شامل تھا۔ ٹرمپ نے فلسطینی سرزمین میں اسرائیلی آباد کاری کو بھی قانونی قرار دیا۔ شام کے مقبوضہ وادی گولان پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم کیا۔ مذکورہ بالا ساری چیزیں کسی بھی امریکی صدر نے پہلے اسرائیل کی خدمت میں فراہم نہیں کی تھیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اور فلسطینی سفارت کار علا ابو عامر نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے 4 سالہ انتقامی دورکو برداشت کیا ہے اور اب ایک نئی امریکی انتظامیہ کا انتظار کیا ہے۔ ابو عامر نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ اوباما انتظامیہ میں سیکرٹری خارجہ جان کیری نے صدر عباس کو ڈیموکریٹس کی انتظامیہ کی واپسی کا وعدہ کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ صبر کرنے اور اس سے ٹکراؤ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
صدر اوباما جب رخصت ہونے لگے تو انہوں نے کچھ بہتر اقدامات کیے تھے، مگر ٹرمپ کے 4 سال انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے نیتن یاہو پر بات چیت میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا جبکہ جان کیری نے فلسطینی اسرائیل تنازع میں دو ریاستوں کے حل کی منظوری کا مطالبہ کیا تھا۔ ابوعامر کا کہنا ہے کہ اوباما دور کے اختتام پر سلامتی کونسل کی طرف سے ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس میں فلسطین میں یہودی بستیوں کی مذمت کی گئی تھی۔ 1967ء کی سرحدوں پر دو ریاستوں کے حل کی حمایت کی گئی تھی۔ یہ قراردادیں اقوام متحدہ کے فورم پر 30 سال سے موجود ہیں۔ 2002ء کے عرب امن فارمولے میں بھی اس کی حمایت کی گئی تھی۔
مایوسی کن نظریہ
مصنف اور سیاسی تجزیہ کار محمود عجمری نے بائیڈن انتظامیہ میں فلسطینی منظر سے متعلق امریکی پوزیشن کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر مذاکرات کی بھول بھلیوں میں‌واپسی کی بات اپنی جگہ، مگر اس طرح کی تجاویز کا کوئی فائدہ نہیں‌ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیموکریٹس ری پبلکن سے بہتر نہیں ہیں۔ یہ دونوں قابض اسرائیل ہی کے مہرے ہیں۔ پچھلی اوباما انتظامیہ نے فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ 38 ارب ڈالر اور ایف 35 طیارے اسرائیل کو دیے۔ یہ امریکا نے اسرائیل کے سوا کسی کو نہیں دیے تھے۔ اسی طرح امریکی سفارت خانے کی منتقلی کا فیصلہ کلنٹن انتظامیہ میں 1995ء میں جاری کیا گیا تھا۔
تاریخی تعصب
امریکی موقف تاریخی اعتبار سے اسرائیل کے ساتھ جانب داری اور فلسطینیوں سے تعصب پر مبنی رہا ہے۔ یہ فلسطین کی مقبوضہ اراضی پر اسرائیل کے قیام کو تسلیم کرنے والا سوویت یونین کے بعد دوسرا ملک ہے۔ جب کہ ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے ادوار نے 72 برس کے دوران تنازع کے حل کی جانب کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ تقریباً ایک جیسا بیانیہ تشکیل دیا۔وائٹ ہاؤس کو چلانے کے لیے ڈیموکریٹس کی واپسی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی بقا، تسلسل اور بالادستی کے ساتھ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک جماعتوں کا عرب۔ اسرائیل تنازعات کے حل کے لیے سیاسی طرز عمل ایک ہی ہے۔
نو منتخب امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے چند روز قبل ایک پریس بیان میں کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی بہت سی پالیسیوں میں تبدیلی لائے گی اور فلسطینی عوام کو معاشی اور انسانی امداد کی بحالی اور غزہ کے بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرے گی۔ انہوں نے مشرقی بیت المقدس میں امریکی قونصل خانہ دوبارہ کھولنےم واشنگٹن میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے مشن کو دوبارہ کام کی اجازت دینے اور دو ریاستی حل کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہیں اور ہم اس مقصد کو متاثر کرنے والے کسی یک طرفہ اقدامات کی مخالفت کریں گے۔ ہم الحاق اسرائیلی منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔