طاقت اوربددعاؤں کی جنگ

293

 

سمیع اللہ ملک

ہلاکو خان جب بغداد پہنچا تو اس کے سپاہیوں نے قتل وغارت گری شروع کر دی۔ سنگ دل منگولوں کو جہاں کوئی سرسلامت دکھا ئی دیا،انہوں نے کاٹ دیا،جہاں کوئی عمارت نظرآئی، جلاکرخاک کردی،جہاں کوئی کتب خانہ، لائبریری یاکوئی درس گاہ ملی اس کوراکھ کردیا۔ تاریخ کہتی ہے کہ خون کے دھبے اورراکھ کے داغ دھوتے دھوتے دجلہ کاپانی سوکھ گیالیکن منگولوں کی وحشت کے آثارنہ مٹے۔ اسی قتل وغارت گری کے دوران عراقی صوفیوں کاایک گروہ منگول سپاہیوں کے ہتھے آچڑھا۔ سپاہی زہدکے بوجھ تلے دبے ان بزرگوں کو لے کر ہلاکو خان کے دربارمیں حاضر ہوگئے۔ سپاہیوں کاکہناتھاکہ یہ صاحبانِ دعا ہیں۔ عراقیوں کے بقول ان کی دعابارگاہِ رب العزت میں قبولیت کی سندرکھتی ہے۔
ہلاکو خان نے نخوت سے پوچھا ’’پھر کیا‘‘۔ سپاہیوں نے جواب دیا ’’حضور! یہ لوگ آپ کو بددعائیں دے رہے تھے۔ ہلاکوخان صوفیا کے اس گروہ کی طرف مڑااورجلالی لہجے میں اس الزام کی تصدیق چاہی۔ صوفیائے کرام میں سے ایک نسبتاًبزرگ نے اقرار میں گردن ہلاکرجواب دیا ’’اے بادشاہ! تم خلقِ خداکے قاتل ہو، تم نے ہزاروں بے گناہوں کالہو بہایا، تم نے اللہ کی مقدس کتابوں کی توہین کی، تمہارے سپاہیوں کے گھوڑوں نے مسجدوں کاتقدس پامال کیا، لہٰذا تم اب اللہ کے انتقام سے بچ نہیں پاؤ گے۔ تمہیں اس زمین پر حساب دینا ہو گا‘‘۔
ہلاکوخان اوراس کے حواری اس بزرگ کی جرات پرحیران ہوگئے۔ سپاہیوں نے تلواریں نکال لیں، لیکن اس سے قبل کہ تلواریں اپناکام دکھاتیں،ہلاکوخان نے اشارہ کیا۔ ایک بلند وبانگ قہقہہ لگایااورصوفیائے کرام کے اس گروہ سے مخاطب ہوکر بولا ’’اے شکست خوردہ بزدل قوم کے مظلوم بزرگو! بغداد کی تباہی کے بعدہلاکو خان کاحساب ہوابھی توکیاہوا، اب اگرتمہاری بددعائیں قبول بھی ہوجائیں، ہلاکوخان کو سو بار جنم دے کر سو بار قتل بھی کردیاجائے، توبھی بغدادآبادنہ ہوگا۔ گردن سے اترے سر دوبارہ شانوں پرنہیں لگیں گے۔ خاک ہوئی عمارتیں اورراکھ ہوئے کتب خانے دوبارہ آبادنہیں ہوں گے، اب دنیاکاکوئی انتقام دجلہ کے کناروں پرگھاس نہیں اگاسکتا۔ ہلاکوخان اٹھا، صوفیاکے گروہ کے قریب پہنچا اوران پرنظریں گاڑھ کربولا ’’جاؤمیں تمہیں اس قبرستان میں زندہ رہنے کی سزا دیتا ہوں‘‘۔
ہلاکوخان بغدادسے واپس چلاگیا لیکن جہاں تک بغدادکی تباہی کامعاملہ ہے، آج بھی تاریخ جب اس موڑپرپہنچتی ہے تو اپنے اوراق کھول دیتی ہے جن پر درج دردناک الفاظ چیخنے لگتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قتل کے بعدقاتل پھانسی چڑھے یاعمرقیدکی سزا بھگتے، مقتول کواس کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پانچ ہزارقاتلوں کی پھانسی بھی ایک مقتول، ایک مظلوم کودوبارہ زندہ نہیں کر سکتی لیکن کیا کیجیے کہ خوش فہمی بھی بڑی چیز ہے۔ دنیاکے تمام کمزور، بزدل اورمظلوم لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں سمیٹتے ہوئے، مظلوموں اورمقتولوں کوآخری غسل دیتے ہوئے یہ سوچ کرخوش ہوتے ہیں کہ ’آخرکسی نہ کسی روزقاتل نے بھی مرجانا ہے‘۔
آج عالم اسلام بھی اسی خوش فہمی کا شکار ہے۔ مسلم امہ کے دانشور امریکا کی تباہی، امریکاکی بربادی کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یورپ امریکاکے خلاف اُٹھ کھڑاہوگا، کسی کاکہناہے کہ عراق کی راکھ سے ہزاروں لاکھوں اسامہ پیدا ہوں گے، افغانستان کے سیاہ پہاڑوں سے لاکھوں ملاعمرکے لشکر نکلیں گے، اب امریکااوربھارت کاکوئی شہری چین کی نیندنہیں سوسکے گا، کوئی اعلان فرماتاہے کہ ’’ڈی ڈے‘‘شروع ہوچکاہے لیکن کوئی ان سے پوچھے بغداد کی تباہی کے بعد ’’ڈی ڈے‘‘شروع ہوا، مودی اور امریکیوں کی نیندیں حرام ہوئیں، ہزاروں بن لادن پیدا ہوئے، لاکھوں ملاعمر میدان میں اترے یایورپ امریکا کے خلاف اٹھ کھڑاہواتوکیافائدہ؟ کیا بغداد، کشمیر، فلسطین اور افغانستان کے بے گناہ لوٹ آئیں گے؟
ایک دوست اسی قسم کی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ وہ فرمانے لگے ’’مظلوم عراقیوں، بے بس افغانوں، کشمیریوں اور دیگر تمام بے گناہ ،مسلمانوں کی لاشیں کہہ رہی ہیں امریکااوراس کے تمام ساتھیوں کا بدترین انجام قریب ہے۔ تم اپنے پاس لکھ کررکھ لو امریکا اور اس کے اتحادی عنقریب تباہ وبربادہوجائیں گے‘‘۔ ہو سکتاہے کہ میرے دوست کی خوش فہمی درست ثابت ہو۔ واقعی کل کا سورج طلوع ہو تودنیاکے نقشے پراٹلانٹک اوشین کے پار چند بدبو دار جوہڑوں اور جلی سڑی چٹانوں کے سواکچھ نہ ہو لیکن یہ ابھی محض ’’ہوسکتا‘‘ ہے، امکان، گمان یاخیال ہے۔ آج کی حقیقت تویہ ہے کہ عراق کی سرزمین لاشوں سے اٹ چکی، افغانستان میں لاشیں بچھ چکیں، کشمیرکے لاکھوں باشندے موت کوگلے لگاچکے، فلسطین پر صہیونی ریاست کے قبضے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں بش، ٹونی بلیئر، مودی، نیتن یاہو یا ٹرمپ رہیں یاختم ہوجائیں، امریکا، بھارت،اسرائیل اور یورپ باقی بچے یاتباہ ہوجائیں، ان لاشوں، جلی سڑی عمارتوں کواس سے کوئی غرض نہیں۔ زمینی حقائق تویہ ہیں کہ خادمین حرمین اپنے ہاتھوں سے پہلے ٹرمپ کو اور بعد ازاں نہ صرف مودی کوملک کاسب سے بڑاسول اعزازپہناچکے ہیں بلکہ ملک کاسب سے بڑا ادارہ ارامکو عملی طوربھارتیوں کے سپرد ہو چکا ہے اورمہاراشٹر کی ریفائنری سمیت دیگراداروں میں 75 ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری بھی۔
امریکی خبررساں ادارے کے مطابق بھارت میں 100 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری، اہم اقتصادی شراکت داری اور تجارتی مفادات کے باعث خلیجی ممالک مقبوضہ کشمیرمیں آرٹیکل 370 ختم کرنے اور بھارتی دہشت گردی پر چپ سادھے بیٹھے ہیں بلکہ متحدہ عرب امارات نے تو مودی کوملک کا سب سے براسول اعزاز دے کر پاکستان کو واضح پیغام بھی دے دیا ہے۔
ہلاکوخان نے بغدادہی کی سرزمین پرکھڑے ہوکرکہاتھاکہ ’’طاقت اوربددعاؤں کی جنگ میں طاقت ہمیشہ پہلی فاتح ہوتی ہے‘‘۔ لہٰذا ہم اب بھی صرف بددعاؤں سے نکل کر اپنے عملی دفاع اور ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو تاریخ کے اوراق ظلم ہی کی داستانوں سے بھرتے جائیں گے۔