پرتشدد سفارت کاری کی ضرورت

552

 

اسامہ الطاف

تھامس شیلنگ امریکی ماہر اقتصادیات اور سیاسی مفکر ہیں، 2005 میں ان کو مشترکہ نوبل انعام برائے معاشیات دیا گیا۔ تھامس سیاسی مفکر کی حیثیت سے امریکا کی مختلف جامعات سے منسلک رہیں، مشہور زمانہ امریکی تحقیقاتی ادارہ رانڈ میں بھی اعلیٰ عہدے پر فائز رہیں۔ 1965 میں امریکا نے ویتنام جنگ کے آغاز میں تھامس شیلنگ کی جنگ اور سفارت کاری کے متعلق نظریات کو بطور پالیسی اپنایا۔ تھامس شیلنگ کے نظریہ Compellence (یعنی مجبور کرنا) کے مطابق ریاست کو اپنی طاقت اس طرح استعمال کرنی چاہیے کہ ریاست کا عسکری حریف ریاست کے مفادات کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوجائے، تھامس کے مطابق خارجہ پالیسی میں عسکری طاقت اور قابلیت کی بہت اہمیت ہوتی ہے، عسکری طاقت کے بھرپور استعمال کے بجائے اس کا اظہار اس طرح ہونا چاہیے کہ حریف کسی معاندانہ حرکت سے باز رہے، یعنی حریف کو اندازہ ہوجائے کہ اگر اس نے غلط قدم اٹھایا تو اس کو بھرپور عسکری جارحیت اور تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ تھامس نے ’’پرتشدد سفارت کاری‘‘ کی اصطلاح پیش کی جس کے مطابق ریاست اپنی مکمل عسکری صلاحیت کو بروئے کار لانے کے بجائے محدود عسکری مہم جوئی کرے تاکہ اس کا حریف نتائج اور انجام کے متعلق غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔
5اگست کے بھارتی یکطرفہ اقدام کے بعد پاکستان کے مقتدر حلقوں اور فیصلہ کن قوتوں کو تھامس شیلنگ کے نظریہ پر غور کرنا چاہیے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر سلگ رہا ہے، آزادی کے متوالے ہر ہفتے جمع ہوتے ہیں، مظاہرے ہوتے ہیں، فلگ شگاف نعرے بلند ہوتے ہیں، جواب میں بھارتی افواج نہتے شہریوں پر گولیاں چلاتی ہیں جس وہ بینائی سے محروم ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات شہید بھی ہوجاتے ہیں۔ آزادی کی پر امن تحریک اور بھارتی جارحیت کے باجود دنیا نے خاموشی اختیارکی، کسی عالمی طاقت نے بھارتی مظالم کی مذمت نہیں کی، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس کے باجود جس میں کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا ذکر کیا گیا ہے عالمی برادری نے مسئلہ کشمیر پر لب کشائی سے گریز کیا۔ پاکستان نے بھی کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت ایک حد تک کی، پاکستان کی بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات کی خواہش قابل فہم ہے، پاکستان خطہ کو پر امن اور تنازعات سے پاک دیکھنا چاہتا ہے، جنگ یقینا دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے، اسی نقطہ نظر کے تحت پاکستان کی سابقہ اور حالیہ سیاسی قیادتوں نے کشمیر میں غیر معمولی صورتحال کے باوجود بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، لیکن اس کے جواب میں بھارتی سرد مہری نے امن کے تمام راستے مسدود کردیے۔
5اگست کو بھارت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، اس فیصلے کے نتائج پر بات کرنے سے پہلے ہمارے لیے قابل غور بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ کیسے کرلیا گیا، ظاہر ہے یہ فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا، فیصلے کے اعلان سے قبل اس پر بات چیت ہوئی، اس کے قانونی اور سیاسی پہلووں پر غور ہوا، اس کو پارلیمان کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیاریاں کی گئیں، اس سارے عمل کے دوران میں ہمارے خفیہ اداروں کو یہ معلوم کیوں نہیں ہوا کہ یہ فیصلہ ہونے والا ہے؟ خفیہ اداروں کی موجودگی کا مقصد ریاست کے مفادات کا تحفظ ہے، بھارت کے اس فیصلے سے قوم سمجھتی ہے کہ ہمارے مفادات کو نقصان پہنچا، اس ضمن میں خفیہ اداروں کی کیا کاکردگی رہی؟ بھارت ہمیں اس اقدام سے حیران کرنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟ اور اگر ہمارے پاس معلومات اور اطلاعات تھیں تو ہم نے کیا اقدامات اٹھائے؟ یا ہم نے معلومات ہونے کے باجود صرف نظر کرکے بالواسطہ بھارت کو اس فیصلے کی اجازت دی؟ یہ سوالات اگر محض سوالات رہیں اور ان کے جوابات سامنے نہیں آئیں تو یہ خارجہ پالیسی چلانے والوں کے کارکردگی ہی نہیں کردار پر بھی سوالیہ نشان ہوگا۔
5اگست کے بھارتی اقدام کے بعد پاکستان نے زبانی طور پر بھر پور رد عمل کا اظہار کیا، بھارت کے ساتھ تجارت بند کرنے کا اعلان کیا، گو کہ اطلاعات کے مطابق اس اعلان پر عمل درآمد تاحال نہیں ہوا اور بھارت سے سفارتی تعلقات محدود کردیے گئے۔ وزیر اعظم نے خود کو کشمیر کا سفیر قرار دے کر عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً چار ہفتے گزرنے کے بعد واضح ہورہا ہے کہ پاکستان کا رد عمل اور جوابی اقدامات بے سود ہیں۔ جس عالمی برادری کو عمران خان کشمیر میں ہونے والے مظالم اور مودی کی فاشسٹ سوچ سمجھانے جارہے ہیں وہ تمام حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، عالمی برادری تمام حقائق کو جاننے کے باوجود بھارت کے خلاف اقدام تو درکنار بیان دینے سے بھی انکاری ہے، کیونکہ دنیا طاقت اور مفادات کی زبان سمجھتی ہے حق اور باطل کی نہیں، بھارت ہم سے زیادہ طاقتور ہے اور دنیا کے مفادات اس سے منسلک ہیں اس لیے دنیا بھارت کے ساتھ تمام مسائل اور مظالم
سے صرف نظر کرکے کھڑی ہے۔ اگر ہم واقعی دنیا کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا حل وہی اول الذکر تھامس شیلنگ کا نظریہ ہے، طاقت کا محدود استعمال، جس سے دنیا متنبہ ہوجائے کہ اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں۔
عمران خان کی حالیہ تقاریر میں ایک اور انتہائی پریشان کن پہلو آزاد کشمیر پر بھارتی حملے کا ذکر ہے، خان صاحب کے اس انداز بیان سے تاثر یہ ملتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات پر ہم بیان بازی تک ہی محدود رہیں گے لیکن اگر آزاد کشمیر پر حملہ ہوا تو ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے! اول تو مقبوضہ کشمیر سے دستبرداری حیران کن ہے ، دوسرا یہ کہ بھارت آزاد کشمیر میں کنٹرول لائن پر گولہ باری اور فائرنگ سے تباہی مچا رہا ہے، وہاں کے شہری پریشان ہیں اور ہم ابھی تک مناسب پتھروں کی تلاش میں ہیں جن سے بھارت کو جواب دیا جائے۔
عالمی میڈیا کا رد عمل کشمیر پر کافی مثبت رہا، درحقیقت مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کلیدی کردار میڈیا نے ہی ادا کیا، تمام عالمی اخبارات اور جرائد مستقل کشمیر کی صورتحال پر رپورٹنگ کررہے ہیں اور حقائق دنیا کے سامنے لارہے ہیں، لیکن ہمیں اس سے مطمئن ہر گز نہیں ہونا چاہیے، اگر پہلے کبھی عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اس طرح اجاگر نہیں ہوا تھا تو یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے بھارت نے اس طرح کے یکطرفہ اقدامات بھی نہیں اٹھائے تھے، مسائل صرف اجاگر ہونے سے حل نہیں ہوتے، ان کے حل کے لیے بعض اوقات طاقت کا اظہار بھی ضروری ہوتا ہے، جنگ اور جنون نہیں، حکمت عملی، تدبیر اور ہوش مندی سے طاقت کا محض اظہار، تھامس شیلنگ کی پر تشدد سفارت کاری، جس سے حریف خود کو خطرے میں محسوس کرے، ورنہ کتنے ہی عالمی مسائل ہیں جو سالہا سال سے عالمی سطح پر اٹھائے جارہے ہیں لیکن ان کوئی حل نہیں نکالا گیا۔