گیس بلنگ کا غلط طریقہ کار عوام دشمنی ہے

641

 

اختر بھوپالی

گیس قدرت کا ایک بیش بہا عطیہ ہے مگر اس کی ناقدری سے یہ اندیشہ ہو چلا ہے کہ اگر ہم اسی بے دردی سے اس کا استعمال کرتے رہے تو ہماری آنے والی نسلوں کو شاید چولہا جلانے کے لیے بھی میسر نہ ہوگی۔ پہلے ہم نے اس کو بڑے کارخانوں اور صنعتوں میں جھونک دیا، پھر چھوٹے چھوٹے کمرشل یونٹ بھی اس پر انحصار کرنے لگے، پھر بجلی کے پیداواری یونٹ کو بھی یہ سہولت دے دی گئی۔ پنجاب میں گھریلو کمرشل یونٹ بھی گیس کی افادیت سے مستفیض ہونے لگے۔ اگرچہ گیس کے اس طرح استعمال سے پیداواری لاگت میں کمی آئی جس کا فائدہ صرف سرمایہ کار اور سرمایہ داروں نے اُٹھایا اور عوام کو ہر شعبے میں مہنگے داموں خریدنی پڑ رہی ہے اور منافع سرمایہ دار لے جارہا ہے، بجلی کے پیداواری یونٹ میں گیس کے بے دریغ استعمال کے باوجود آئے دن بجلی مہنگی ہوتی جارہی ہے، کے الیکٹرک اس گیس کی بدولت اربوں روپے کما رہی ہے اور عوام لوڈشیڈنگ کے عذاب جھیل رہے ہیں۔ پھر رہی سہی کسر قدرت کے اس انمول عطیہ کو سی این جی بنا کر مزید زیادتی کردی گئی۔ اس کا فائدہ بھی سرمایہ دار اور سرمایہ کار ہی اُٹھا رہے ہیں اور عوام آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔ اس وقت 80 فی صد پبلک ٹرانسپورٹ اور پبلک کیریئر سی این جیپر منتقل ہوچکے ہیں جس کا فائدہ صرف ٹرانسپورٹرز مافیا اُٹھا رہی ہے اور عوام سستی سواری کے حصول سے محروم ہیں۔ جب کہ لاکھوں روپے کی لاگت والی جدید ترین گاڑی والے بھی سی این جی کی لائن میں لگے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں حکومتِ وقت گیس کی لوڈشیڈنگ کے لیے مجبور ہوجاتی ہے تو یہ مافیا اپنا سرمایہ محفوظ رکھنے کی خاطر گاڑیاں کھڑی کردیتی ہے ،پھر عوام کی پریشانی پر حکومت کو ہاتھ ہلکا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ورنہ یہ نہ ہو کہ پریشان عوام سڑکوں پر نکل آئے پھر سی این جی اسٹیشن ہو یا کھڑی گاڑیاں ان کے عتاب کا نشانہ بن جائیں۔
اس مسئلے کا سادہ حل تو یہ ہے کہ سی این جی پر مکمل پابندی لگادی جائے مگر یہ اب ممکن نہیں، ایک تو 80 فی صد ٹرانسپورٹ سی این جی پر منتقل ہوچکی ہے پھر سرمایہ دار نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہوگی تو ابتدائی طور پر ہیوی ٹرانسپورٹ (بس، ٹرک ٹرالرز) کے لیے سی این جی کی حمایت کردی جائے۔ اندرون شہر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو صرف اس شرط پر گیس استعمال کی اجازت ہو کہ وہ لوڈشیڈنگ کے دوران بھی اپنی گاڑیاں متبادل ایندھن سے چلائیں گے تا کہ عوام کو پریشانی نہ ہو۔ بڑی بڑی گاڑیوں کو سی این جی کی قطار سے ہٹایا جائے اور صرف 800CC تک کی گاڑیوں کو سی این جی کے استعمال کی اجازت ہو۔ یہ تجاویز غریب اور متوسط طبقے کو پریشانی سے بچانے کے لیے پیش کی ہیں کہ وہ تو آئے دن گیس کے نرخوں میں اضافے سے گیس کے بلنگ کے غلط طریقہ کار سے پس رہے ہیں اور اس کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جارہا ہے۔ ہم اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ کس طرح غلط بلنگ کے ذریعے عوام کو لوٹا جارہا ہے۔ عوام کی پریشانی کا سبب بھی گیس بلنگ کا غلط طریقہ کار ہے جہاں صرف ایک یونٹ (معکب میٹر) کے بڑھ جانے سے اس کا بل دو گنا سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ بجلی ہو یا گیس صارف کے لیے مختلف سلیب بنائے جاتے ہیں اور جب صارف ایک سلیب سے دوسرے سلیب میں داخل ہوتا ہے تو ہر یونٹ کے حساب سے رقم میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر اس میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ صارف نے جس سلیب کے جتنے یونٹ استعمال کیے ہیں وہی بنائے جائیں۔ مثلاً اگر ایک صارف 105 یونٹ استعمال کرتا ہے تو اس کے پہلے 100 یونٹ پہلے سلیب کے حساب سے اور بقیہ 5 یونٹ اگلے سلیب سے لگائے جاتے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں یہی فارمولا ہے یعنی اگر ایک صارف 326 یونٹ بجلی کے خرچ کرتا ہے تو اس کے 300 یونٹ 10.20 روپے سے اور بقیہ 26 یونٹ 17.60 روپے سے بنتے ہیں مگر گیس کے بلوں میں ایسا نہیں ہے۔
تبدیلی حکومت کے آنے سے قبل بجلی کی طرح گیس کے بھی 3 سلیب تھے۔ (1) 100 ایم ایم تک 110 روپے۔ (2) 300 ایم ایم تک 220 روپے۔ (3) 300 سے زائد 660 روپے۔ پھر 146 فی صد اضافے کے ساتھ 6 سلیب اس طرح بنادیے گئے۔ (1) 50 ایم ایم تک 121 روپے۔ (2) 100 ایم ایم تک 127 روپے۔ (3) 200 ایم ایم تک 254 روپے۔ (4) 300 ایم ایم تک 275 روپے۔ (5) 400 ایم ایم تک 780 روپے۔ (6) 400 ایم ایم سے زائد 1460 روپے۔ ابھی عوام اس شماریاتی اعداد و شمار سے نکل بھی نہ پائے تھے کہ پھر سے 198 فی صد اضافے سے ان سلیب کو اس طرح تبدیل کردیا گیا۔ (1) 50 ایم ایم تک 121 روپے برقرار۔ (2) 100 ایم ایم تک 300 روپے۔ (3) 200 ایم ایم تک 553 روپے۔ (4) 300 ایم ایم تک روپے۔ (5) 400 ایم ایم تک 1107 روپے۔ (6) 400 ایم ایم سے زائد 1460 روپے برقرار۔ اب اگر کسی صارف کا بل 301 ایم ایم ہے تو اس کا بل ترتیب وار سلیب کے حساب سے بننا چاہیے تھا یعنی 300 یونٹ تک 738 روپے سے اور بقیہ ایک یونٹ 1107 روپے ہونا چاہیے مگر اس صارف کا بل پورے 301 ایم ایم 1107 روپے سے بنایا جارہا ہے، یعنی صرف ایک یونٹ اضافے سے اس کا ڈبل سے بھی زیادہ بنتا ہے تو صارف کو پریشانی ہوگی۔ اگر گیس کے بل ترتیب وار سلیب سے بنے تو شاید عوام (198+146) 384 فی صد اضافے کو برداشت کرلیں ورنہ جس بے دردی سے گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے عوام کی برداشت سے باہر ہوگا۔ سب سے پہلے تو سلیب کی تعداد کم کی جائے تا کہ شماریاتی اعدادشمار سے عوام باہر آئیں اور پھر اس کی بلنگ درست طریقہ یعنی جس سلیب کے جتنے یونٹ صارف خرچ کرے صرف وہی وصول کیے جائیں، پورا کا پورا بل ایک سلیب کے حساب سے نہ بنایا جائے کہ یہ عوام دشمنی کے مترادف ہے۔ عوام کو عمران خان سے بڑی اُمیدیں لگا رکھی ہیں۔ عوام کا خون پسینہ نکالنے کے بجائے چوروں اور ڈاکوئوں سے رقم نکلوائی جائے۔ عوام کے پاس چور (نواز شریف) اور ڈاکو (زرداری) سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے عمران خان۔ اگر عوام دشمن پالیسیاں اسی طرح جاری رہیں تو عوام چور اور ڈاکوئوں کے بجائے اقتدار پر فوج کو بٹھانے پر مجبور ہوں گے اور پھر مڑ کر جمہوریت کی طرف نہیں دیکھیں گے کہ ان چور اور ڈاکوئوں کی نظر میں ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ جو اقتدار میں آکر وہ عوام سے لیتے ہیں۔