سرمایہ دارانہ معاشی بحران

435

یہ سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کا دور ہے۔ ایک طویل عرصہ تک (غالباً چند صدیوں تک) سرمایہ دارانہ نظام شکست و ریخت کا شکار ہوتا رہے گا اور سرمایہ دارانہ طرز ِ حیات کا ہر شعبہ (علمی، نفسیاتی، معاشرتی، سیاسی، معاشی) وقتاً فوقتاً بحرانوں میں مبتلا ہوتا رہے گا۔ ہمیں ان بحرانوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ جو تضادات یہ بحران نمایاں کر رہا ہے انہی کو مہمیز دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انہدام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ تمام بحران ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ مثلاً 2020 کا امریکی بحران سیاسی بھی ہے، نسلی بھی، سماجی اور نفسیاتی بھی اور معاشی بھی اور بحران کی ان مختلف جہتوں کو عملاً ایک دوسرے سے علٰیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً بائیڈن جو بھی پالیسیاں اختیار کرے گا ان کا اثر ان تمام جہتوں پر مرتب ہو گا۔ اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ان میں سے ہر بحران دائمی نوعیت کا ہے مثلاً امریکا قانون سازی کے ذریعہ اپنے نسلی بحران پر کبھی قابو نہیں پا سکتا اور 1960 کی سول رائٹس کی تحریک کی ناکامی کا اصل سبق یہی ہے۔
نسلی امتیازات کو فروغ دیے بغیر سرمایہ دارانہ سامراج پنپ نہیں سکتا اور امریکا عالمی سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کا سرخیل ہے۔ سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی یورپی تہذیبی تفوق کا ایک اظہار ہے۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ معاشی بحران کا دو طرفہ تعلق ماحولیاتی اور وبائی بحران سے بھی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ تنویری علمیت نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب خشک سالی، موسمی آلودگی، قحط، انواعِ حیات کا انہدام پھیل رہا ہے۔ نئی نئی وبائیں فارما سیوٹیکل کمپنیاں ایجاد کر رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشی عمل نے ان تبدیلیوں کو جنم دینے میں ایک کلیدی کردار ادا بھی کیا ہے اور ان سب رجحانات سے شدید متاثر بھی ہے۔ لہٰذا جب سرمایہ دارانہ معاشی بحران پر گفتگو کی جائے تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ معیشت سرمایہ دارانہ نظام زندگی اور طرز حیات کا ایک ذیلی شعبہ ہے اور یہ ناممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو سرمایہ دارانہ علمیت، معاشرت اور سیاست سے جدا کر دیا جائے۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کو جزوی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا اس نظام کی مکمل تسخیر لازم ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشی بحران عالمی ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ پیداواری اور حرام خور (فنانشل) مارکیٹوں کو سامراجی رسدی زنجیروں (سپلائی چین) میں جکڑ دیا گیا ہے اور ان رسدی زنجیروں پر سیاسی تسلط اور غلبہ کی رسہ کشی ریاستی دہشت گردی اور پراکسی جنگوں کو فروغ دے رہی ہے۔ قومی سطح پر سرمایہ دارانہ معاشی نظام ایک ایسے سیاسی بحران کو جنم دے رہا ہے جس کے نتیجے میں عوام جمہوری عمل سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا واضح ترین اظہار 2020 کے امریکی انتخابات سے ہوا جن کو گیلپ تحقیق کے مطابق ساٹھ ملین امریکی عوام جعلی قرار دیتے ہیں اور بائیڈن کو ایک غاصب کہتے ہیں۔ یہ معاشی نیولبرل پالیسیوں کی ناکامی کا ایک اظہار ہے جن کی تنفیذ کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے قومی شرح نمو (GDP) روبہ تنزل اور آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آج اکتالیس ملین امریکی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ دورِ حاضر میں سرمایہ دارانہ پیداواری نظام دو تضادات کو جنم دے رہا ہے۔ اس نظام کی کارفرمائی کے سبب ایک ایسا ماحولیاتی بحران پیدا ہو رہا ہے جو اس صدی کے آخر تک دنیا کو جہنم بنا دے گا۔ امریکا، جاپان اور یورپ مل کر دنیا کی اوسط حیاتی استعداد (bio capacity) سے چار گنا زیادہ حیاتی استعداد صرف کر رہے ہیں۔ اور چینی کثافتی اخراج اس کے علاوہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور غلاظت کا یہ پھیلاؤ بالخصوص غریب ممالک کو بہت زیادہ متاثر کر رہی ہے۔
دوسرا تضاد سرمایہ دارانہ پیداواری طریقہ کار سے برآمد ہوتا ہے۔ آٹومیشن، آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور روبوٹ کاری کے پھیلاؤ کی وجہ سے غریب ممالک میں بے روزگاری اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مخفی بے روزگاری عام ہوتی جا رہی ہے۔ 2020 کے وسط میں امریکا میں بے روزگار افراد قومی افرادی قوت کا تقریباً سولہ فی صد ہو گئے تھے۔ آج بھی گیارہ ملین امریکی بے روزگار ہیں اور یورپ میں اس سے کہیں زیادہ۔ اس کے نتیجہ میں آمدنی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا میں پچھلے تقریباً پچاس برسوں سے اوسط اجرتیں منجمد ہیں جس کے نتیجے میں 2020 میں ہڑتالوں کی ایک لہر آئی ہوئی تھی۔ بے روزگاری اور نیم بے روزگاری بڑھنے کی وجہ سے ریاست کے رفاہی اخراجات میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹرمپ نے 2020 میں تین ہزا ارب ڈالر خرچ کیے اور بائیڈن سرکار 2021 میں اس سے بھی زیادہ خرچ کرنے کا تخمینہ لگا رہی ہے۔ یہ اخراجات سب کے سب ریاستی قرضوں سے پورے کیے جائیں گے۔ امریکی ریاست بلاشبہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ادارہ ہے۔
دورِ حاضر کی معاشی تنظیم کی ایک خصوصیت بڑھتی ہوئی ریاستی اور کارپوریٹ مخبری اور تخریب کاری ہے۔ ہر سرمایہ دارانہ کارکن کی مستقل نگرانی کی جاتی رہتی ہے اور نگرانی کا دائرہ کار پورے معاشرے (فیکٹری، دفتر، مارکیٹ، گھر، تفریح گاہ) پر محیط ہے۔ اس کی وجہ سے عدم تحفظ اور محرومی کا احساس بڑھتا ہے اور ذہنی بیماریاں عوام اور خواص میں ایک وبا کی طرح پھیلتی ہیں۔ 2020 کے حکومتی تخمینہ کے مطابق تقریباً 23 فی صد امریکی کسی نہ کسی درجہ میں ذہنی مریض ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ استحصال زندگی کی بنیادی ضرورتیں (پانی، خوراک، غیر آلودہ ہوا، صحت مند اراضی) پوری دنیا میں قلت پیدا کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا ہر باشندہ مستقل عالم ِ طیش میں رہتا ہے اور اس طیش کا اظہار اس کے معاشرتی عمل سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔
سرمایہ دارانہ معیشت دنیا کی پہلی اور واحد معیشت ہے جس میں زر مرکزی کردارا ادا کرتا ہے۔ ہر معاشی عامل کی شناخت (کارپوریشن، ریاست، گھرانہ) اپنے متعلق ترسیل زر کی بنیاد پر متعین کرتی ہے۔ پوری سرمایہ دارانہ معیشت کی حیثیت ترسیل زر کی نظاماتی کارفرمائی سے متعین ہوتی ہے۔ اور ہر شے اور ہر عمل کی قدر کے اظہار کا ذریعہ بھی ہوتا ہے اور ہر شے اور عمل کی قدر بھی متعین کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ زر فنانس کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ فنانس وہ زر ہے جو سود اور سٹہ کی مارکیٹوں میں اپنی بڑھوتری کی تلاش میں مستقل گردش کرتا رہتا ہے۔ حرام خور مارکیٹ (سود اور سٹہ) ہمیشہ غیر متوازن رہتے ہیں کیونکہ سود کی کوئی حقیقی پیداواری لاگت نہیں اور سٹہ بازی ہمیشہ مستقبل کے بارے میں لگائی ہوئی اور مستقلاً غلط ثابت ہوتے ہوئے امکانات پر مبنی ہوتی ہے۔ حرام خور مارکیٹوں کے اس عدم استحکام کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معیشت میں سب معاشی عاملوں (ریاستوں، کارپوریشنوں، گھرانوں) کے قرض مستقلاً بڑھتے رہتے ہیں۔ حرام خور مارکیٹوں میں بحران آنے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے کیونکہ کبھی بھی مطالبات اور ادائیگیاں کبھی برابر نہیں ہوتیں۔ اور جب بھی قرضہ لینے والے ادائیگیوں کے مطالبات پورے نہیں کر پاتے تو حرام خور مارکیٹوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور ایک وسیع تر بحران پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔
حرام خور بازاروں کے اسی لرزتے بوجھ کو سرمایہ دارانہ ریاست سہارا دیتی رہتی ہے۔ یہ سہارا زر کے رسد M2 کے بے اندازہ بڑھوتری کے ذریعہ دیا جاتا ہے۔ حکومتی تمسکات کا کاروبار نجی کارپوریشنوں اور عوام کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیتا ہے۔ مثلاً 2020 کے معاشی بحران سے نبٹنے کے لیے ٹرمپ نے تین ٹریلین ڈالر کا سرکاری خرچہ کیا اور توقع ہے کہ بائیڈن اس سے زیادہ خرچ کرے گا۔
2006 تا 2010 کے بحران میں کارپوریشنوں اور بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے امریکا، جاپان، یورپی یونین اور چین نے نقد 6.5 ٹریلین ڈالر خرچ کیے۔
سرمایہ دارانہ فنانشل نظام کا لرزتا ہوا استحکام سرمایہ دارانہ زر پر عوامی اعتبار کی بنیاد پر قائم رہتا ہے۔ سرمایہ دارانہ زر کی قدر کسی شے (سونا، چاندی) سے متعلق نہیں ہوتی۔ مرکزی بینک جتنا بنیادی زر M2 چاہیں تخلیق کر دیں۔ جب تک اس بنیاد پر قائم کردہ مجموعی زر پر عوامی اعتبار قائم رہے گا حکومتی قرضہ بڑھا کر کارپوریشنوں اور بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچاتا رہے گا اور عوام کا معیار زندگی بڑھانے کے عمل کو جاری رکھا جا سکے گا۔ امریکی سرمایہ دارانہ استحکام اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ڈالر پر عالمی اعتبار قائم ہے۔
لیکن حکومتوں کے لیے اس بحران میں تدارکی کردار ادا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آج کے دور میں سرمایہ داری پر حرام خور (فنانشل) مارکیٹوں کا کنٹرول ہے۔ زیادہ سے زیادہ اثاثے حرام خور مارکیٹوں کی دسترس میں آتے جا رہے ہیں۔ دولت کھنچ کھنچ کر حرام خور اداروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے اور حرام خور مارکیٹوں کا دائرہ کار عالمی ہوگیا ہے اور وہ اپنی مقبوضہ دولت کو جلد از جلد بڑھوتری سرمایہ کو تیز سے تیز تر کرنے میں لگانے کی پیہم جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ اشیا کا روبار اور عمل کے قدر کا تعین حرام خور مارکیٹوں کے حصص کے اتار چڑھاؤ پر منحصر ہوتا ہے۔ نجی بچتیں گرتی جاتی ہیں اور نجی قرضہ مستقل بڑھتا رہتا ہے۔ ان حالات میں بحران کے وقوع کا خطرہ مستقل بڑھتا رہتا ہے اور حرام خور مارکیٹوں کے حجم کی رفتارِ بڑھوتری پر قابو پانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص اس لیے کہ یہ بڑھوتری عالمی ہوتی ہے اور سرمایہ دارانہ ریاست قومی جمہوری احاطہ میں مقید ہوتی ہے۔ فی الحال سرمایہ دارانہ معاشی بحران کو مہمیز دینے کی استطاعت نہیں رکھتے لیکن ان بحرانوں سے محفوظ رہنے کے لیے دو اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
۱۔ ملک بھر میں حلال کاروبار۔ ایسا کاروبار جس کا حرام خور مارکیٹوں سے تعلق نہ ہو، کی تنظیم اور فروغ۔
۲۔ اگر انتخابات میں کامیابی ہو تو حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ:
۔ سود اور سٹہ کے مارکیٹوں کے دائرہ کا ر کو محدود کرے
۔ عالمی سرمایہ دارانہ معیشت سے روابط میں کمی کرے
۔ آئی ایم ایف کی ہدایت پر عمل کرنا بند کرے۔ بیرونی ترسیلِ زر پر تحدید نافذ کرے۔ روپے کا شرح تبدل منجمد کرے۔ نج کاری کا عمل ترک کرے۔ حلال کاروبار کے فروغ کی راہ میں مزاحم نہ ہو۔ بیرونی سرمایہ کاری اور حصولِ سرکاری اور غیر سرکاری قرضہ جات کا خاتمہ بند کرے۔