امریکی پا بندیوں سے لرزاں حکمران

569

ممکن ہے پاکستانی وزارت خارجہ کی بات درست ہو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پہلے شیڈول کیا گیا ہو لیکن بہرحال مشرق وسطیٰ میں جاری سنسنی خیز تناظر نے اس دورے کو معمول کا دورہ نہیں رہنے دیا۔ امریکا کی دھمکی نے اس دورے کو وہ خاص زاویے عطا کردیے جن سے پرکھنے سے وزارت خارجہ نے منع کیا ہے۔ وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ”اس دورے کا فیصلہ ایران اور اسرائیل کے درمیان میزائل اور ڈرونز کے تبادلے سے پہلے کیا گیا تھا اس لیے اسے کسی خاص زاویے سے نہ دیکھا جائے“۔ وزارت خارجہ کی تصحیح ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ خاص زاویہ ترک کرکے اگر عام زاویہ سے دیکھا جائے تو پھر ایک ہی بات بچتی ہے ”ہم آئیں گے تو آپ کیا کھلائیں گے، آپ آئیں گے تو ہمارے لیے کیا لائیں گے“۔ ہمارے دوست دو طرح کے ہیں۔ ایک پہلی طرح کے اور دوسرے ہر طرح کے لیکن سب سے ہمارا تقاضا اور تعلق ایک ہی ہے!! ”ڈالر“۔

ایرانی صدر نے ایسے وقت پاکستان کا دورہ کیا جب ایران اور اسرائیل، دونوں ملک ایک دوسرے پر حملہ کرچکے ہیں۔ یکم اپریل کو اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا تھا۔ اس ننگی جارحیت پر امریکا اور یورپی ممالک نے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے برعکس ایران سے تدبر سے کام لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ دمشق پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی گئی نہ اقوام متحدہ میں کوئی قرارداد پیش کی گئی، اسرائیل پر کوئی پابندی لگائی گئی اور نہ کسی بھی طرف سے اس کی سفارش کی گئی۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں یاور حیات کی سیریل جھوک سیال کی ایک قسط میں ریپ سین تھا۔ کابینہ میں سوال اٹھا کہ رات پی ٹی وی کے ڈرامے میں ریپ سین کیوں دکھایا گیا۔ اس پر بھٹو صاحب نے کہا تھا آئندہ ایسا ریپ نہ دکھایا جائے جو بیہودہ ہو۔ یہی معاملہ عالمی برادری کا ہے۔ جس کے نزدیک ایران چین اور روس جیسے ممالک کے اقدام ایسے ریپ ہیں جو بیہودہ ہوتے ہیں جب کہ خود امریکا، مغربی ممالک اور اسرائیل کے ریپ بیہودہ نہیں ہوتے۔ ان کے واقع ہونے میں کوئی حرج نہیں۔

سوال ہے کہ یہ عالمی قوانین کون بناتا ہے؟ یہ قوانین امریکا بناتا ہے اور پوری دنیا پر فرض ہے کہ وہ ان قوانین کے آگے سرتسلیم خم کرے اور من وعن مانے۔ یہ بھی امریکا کا بنایا ہوا عالمی قانون ہے کہ کوئی بھی ملک جسے امریکا چاہے وہ تجارتی پابندیوں کی زد میں آسکتا ہے اگر وہ ایران کے ساتھ کاروبار کرے۔ پچھلے دنوں پاکستان کو میزائل فراہم کرنے والی چار کمپنیوں پر بھی امریکا کی طرف سے پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ جس پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا ”ہم نے پابندیاں اس لیے لگائی ہیں کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ترسیل کے ذرائع تھے“۔ کون سے اداروں کے ترسیل کردہ ہتھیار تباہی پھیلاتے ہیں اور کون سے اداروں کے ترسیل کردہ ہتھیار تباہی نہیں پھیلاتے اس کا فیصلہ بھی امریکا ہی کرتا ہے۔ روس یوکرین پر جارحیت کرے تو وہ عالمی قوانین کی زد میں آتا ہے اور اس پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر حملے اور نسل کشی پر ردعمل محض بیان بازی اور تبصروں تک محدود رہتا ہے کیونکہ امریکا کے وضع کردہ عالمی قوانین ایسا ہی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

ایران اور اسرائیل کشیدہ صورتحال میں ایرانی صدر کا دورہ پاکستان ایران کے لیے پاکستان کی جانب سے ایک سپورٹ ہے حالانکہ حالیہ دورے کی وجہ سے ممکن ہے کہ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔ پاکستان کی ایسی ہی ایک سپورٹ امریکا ایران کشیدہ صورتحال میں گیس پائپ لائن معاہدہ تھا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان 7.5 ارب ڈالرز کی مالیت کا گیس پائپ لائن معاہدہ آج سے گیارہ برس پہلے 2013 میں صدر آصف علی زرداری کے پہلے دورِ سعید میں کیا گیا تھا۔ جس وقت یہ گیس معاہدہ کیا گیا سب کو علم تھا کہ جلد یا بدیر امریکا کو اس معاہدے پر اعتراض ہوں گے اور یہ امریکی پابندیوں کی زد میں آسکتا ہے۔ اس کے باوجود صدر پاکستان آصف علی زرداری کی دریا دلی اور گھر پھونک تماشا دیکھ کہ معاہدہ میں یہ شق شامل کردی کہ اگر پاکستان نے کچھ برسوں بعد گیس لینا شروع نہ کی تو اس کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ اس شق کا نتیجہ ہے کہ ایران سے ممکنہ طور پر حاصل ہونے والی گیس سے پاکستان میں ایک روٹی نہیں پکی لیکن ایران کسی بھی وقت سترہ ارب ڈالرز کے جرمانے کا مطالبہ لے کر عالمی عدالت میں جاسکتا ہے۔

آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد ایرانی صدر کا دورہ کسی بھی سربراہ مملکت کا پہلا دورہ ہے۔ سب کو امید تھی کہ دورے میں گیس پائپ لائن کا معاملہ لازمی اٹھایا جائے گا لیکن مشترکہ پریس کانفرنس اور سرکاری اعلامیہ میں اس منصوبے کا ذکر مفقود تھا۔ بدترین اقتصادی حالت میں یہ ایران کی طرف سے پاکستان کو سپورٹ اور سہارا ہے۔ نواز شریف اور عمران خان کے دور میں اس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔ پاکستان کی سابقہ نگراں حکومت کی جانب سے فروری میں اس منصوبے کے 80کلو میٹر کے حصے پر تعمیر کی منظوری دی گئی تھی مگر فوراً بعد ہی امریکا نے اعتراض اٹھا دیا تھا کہ ایران کے ساتھ منصوبے پر کام کرنے کے نتیجے میں پاکستان کو بھی معاشی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے جیسا کہ ایرانی صدر کے حالیہ دورے کے موقع پر اس دھمکی کی تکرار کی گئی۔ پاکستان نے ابھی تک امریکا سے اس موضوع پر مذاکرات نہیں کیے ہیں کہ پابندیوں کی زد میں آئے بغیرگیس پائپ لائن کیسے تعمیر کی جاسکتی ہے یا پھر امریکا ہمارے

لیے کیا متبادل بندوبست کرسکتا ہے جیسا کہ اس نے بھارت کو سول نیو کلیر معاہدے کی صورت میں کیا تھا جب کہ توانائی کے شدید بحران کی وجہ سے یہ پائپ لائن پا کستان کی اہم ترین ضرورت ہے۔ امریکا کے باب میں ہم اس مقام پر آچکے ہیں کہ اپنے کسی جائز مطالبے کے لیے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا تودرکنار آنکھیں ملاکر بات کرنے کے بھی قابل نہیں رہے کیونکہ بونے اور قدآور آنکھیں ملاکر بات نہیں کرسکتے اس کے لیے قد برابر ہونے کی ضرورت ہے یا پھر ہمت، شجاعت اور دلیری کی۔

ایرانی صدر کے دورے کے اختتام پر 28نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ مفاہمت کی متعدد یادداشتوں اور معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے، پاک ایران دوطرفہ تعلقات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، اعلی سطحی دوروں کے ذریعے باہمی روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا، دونوں ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات کو بھی اجاگر کیا گیا۔ ہر ملک یقینا اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہمیں کسی بھی معاملے میں پیش رفت کرنے کے لیے امریکی طبع نازک کی گرانی کو بھی ملحوظ اور بے حد ملحوظ رکھنا پڑتا ہے کیونکہ امریکی پابندیوں کی صورت میں ہمارے حکمرانوں کی امریکی بینکوں میں کرپشن کے ذریعے کمائی گئی دولت بھی پابندیوں کی زد میں آسکتی ہے ورنہ چین 13لاکھ بیرل تیل روزانہ آج بھی ایران سے خرید رہا ہے۔ روس سے تیل کی خریداری پر بھی امریکا نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں لیکن اس کے باوجود امریکا کے سب سے بڑے دوست اور فطری اتحادی بھارت نے گزشتہ برس چالیس بلین ڈالر کا تیل روس سے خریدا اور خریدنے کے بعد روس کی ریفائنریوں ہی میں صاف کیا ہے۔ بعد میں اسی تیل کو یورپ میں بھی فروخت کیا گیا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ پابندیوں کے باوجود بھی راستے دھونڈے جاسکتے ہیں بات قیادت کے کردار، حوصلے، ذہانت اور اپنے ملک سے وفاداری کی ہے۔